۔ (۲۳۷۹) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمًا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّلی غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُوْمُ وَعَلِقَ النَّاسُ یُنَادُوْنَہُ: اَلصَّلَاۃَ، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیْمٍ فَجَعَلَ یَقُوْلُ: اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ، قَالَ: فَغَضِبَ، قَالَ: أَتُعَلِّمُنِی بِالسُّنَّۃِ؟ شَہِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جَمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَوَجَدْتُّ فِی نَفْسِی مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَلَقِیْتُ أَبَا ھُرَیْرَۃَ فَسَأَلْتُہُ فَوَافَقَہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۶۹)
عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں:ایک دن سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ہمیں عصر کے بعد خطبہ دیا، حتی کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہونے لگے۔ لوگوں نے یہ آواز لگانا شروع کی کہ نماز پڑھو۔لوگوں میں بنی تمیم کا ایک آدمی بھی موجود تھا، اس نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ نماز، نماز۔سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے: کیا تو مجھے سنت کی تعلیم دے رہا ہے؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے ادا کیا۔ عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں اپنے دل میں (شک اور تعجب) محسوس کرنے لگا، اس لیے میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ملااور ان سے اس مسئلے کے بارے میں دریافت کیا، انھوں نے بھی اِن کی موافقت کی۔