۔ (۳۲۲)۔عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَیَّانَ التَّیْمِیِّ قَالَ: اِنْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَیْنُ بْنُ سَبْرَۃَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ اِلَی زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ (ؓ) فَلَمَّا جَلَسْنَا اِلَیْہِ قَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: لقَدْ لَقِیْتَ یَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، رَأَیْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسَمِعْتَ حَدِیْثَہَ وَغَزَوْتَ مَعَہُ وَصَلَّیْتَ مَعَہُ، لقَدْ رَأَیْتَ یَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، حَدِّثْنَا یَا زَیْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِیْ! وَاللّٰہِ! لقَدْ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَقَدُمَ عَہْدِیْ وَنَسِیْتُ بَعْضَ الَّذِیْ کُنْتُ أَعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَمَا حَدَّثْتُکُمْ فَاقْبَلُوْا وَمَا لَا فَـلَا تُکَلِّفُوْنِیْہِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَوْمًا خَطِیْبًا فِیْنَا بِمَائٍ یُدْعٰی خُمًّا، یَعْنِیْ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ، فَحَمِدَ
اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَوَعَظَ وَذَکَّرَ،ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! أَ لَا أَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، یُوْشِکُ أَنْ یَأْتِیَنِیْ رَسُوْلُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَأُجِیْبَ، وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ، أَوَّلُہُمَا کِتَابُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، فِیْہِ الْہُدٰی وَالنُّوْرُ، فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاسْتَمْسِکُوْا بِہِ۔)) فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ، قَالَ: ((وَأَھْلُ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ۔)) فَقَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: وَمَنْ أَھْلُ بَیْتِہِ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَائُ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ؟ قَالَ: اِنَّ نِسَائَ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ وَلَکِنَّ أَھْلَ بَیْتِہِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ بَعْدَہُ، قَالَ: وَمَنْ ہُمْ؟ قَالَ: آلُ عَلِیٍّ وَ آلُ جَعَفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَکُلُّ ہٰؤُلَائِ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند أحمد: ۱۹۴۷۹)
یزید بن حیان تیمی کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم، سیدنا زید بن ارقم ؓ کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھ گئے تو حصین نے کہا: اے زید! تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں، زید! بس تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، زید! تم نے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں، وہ ہمیں بھی بیان کرو، انھوں نے کہا: اے بھتیجے! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کو بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو احادیث یاد کی تھیں، ان میں سے بعضوں کو بھول بھی گیا ہوں، اس لیے میں تم کو جو کچھ بیان کر دوں، اس کو قبول کر لو اور جو نہ کر سکوں، اس کی مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، کے مقام پر خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت کی اور پھر یہ بھی فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! خبردار! اے لوگو! میں ایک بشر ہی ہوں، قریب ہے کہ میرے ربّ کا قاصد میرے پاس آ جائے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، بات یہ ہے کہ میں تم میں دو بیش قیمت اور نفیس چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، پس اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر آمادہ کیا اور اس کے بارے میں ترغیب دلائی، اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد دلاتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ یاد کرواتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے حق میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں۔ حصین نے کہا: اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں؟ انھوں نے کہا: بیشک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت وہ ہیں، جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آلِ علی، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ اس نے کہا: کیا اِن سب پر صدقہ حرام ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔