۔ (۲۹۰۰) عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبَّادٍ الْعَبْدِیِّ مِنْ أَھْلِ الْبَصْرَۃِ قَالَ: شَہِدْتُ یَوْمًا خُطْبَۃً لِسَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی اللہ عنہ فَذَکَرَ فِی خُطْبَتِہِ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: بَیْنَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِیْ فِی غَرَضَیْنِ لَنَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّٰی اِذَا کَانَتِ الشَّمْسُ قِیْدَ رُمْحَیْنِ أَوْ ثَـلَاثَۃٍ فِی عَیْنِ النَّاظِرِ اِسْوَدَّتْ حَتّٰی آضَتْ کَأَنَّہَا تَنُّوْمَۃٌ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِہِ: اِنْطَلِقْ بِنَا اِلَی الْمَسْجِدِ فَوَاللّٰہِ! لَیُحْدِثَنَّ شَأْنُ ھٰذِہِ الشَّمْسِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی أُمَّتِہِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا اِلَی الْمَسْجِدِ فَاِذَا ھُوَ بَارِزٌ قَالَ: وَوَافَقْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حِیْنَ خَرَجَ اِلَی النَّاسِ فَاسْتَقْدَمَ فَقَامَ بِنَا کَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِی صَلَاۃٍ قَطُّ لَانَسْمَعُ لَہُ صَوْتًا ثُمَّ رَکَعَ کَا طْوَلِ مَا رَکَعَ بِنَا فِی صَلَاۃٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَہُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ مِثْلَ ذٰلِکَ فَوَافَقَ تَجَلِّی الشَّمْسِ جُلُوْسَہُ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ، قَالَ زُھَیْرٌ (أَحد الرواۃ): حَسِبْتُہُ، قَالَ: فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَشَہِدَ أَنَّہُ عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! أَنْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّی قَصَّرْتُ عَنْ شَیْئٍ مِنْ تَبْلِیْغِ رِسَالَاتِ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ لَمَا أَخْبَرْتُمُوْنِی
ذَاکَ، فَبَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّی کَمَا یَنْبَغِی لَھَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَاِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّی بَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّی لَمَا أَخْبَرْتُمُوْنِی ذَاکَ۔)) قَالَ: فَقَامَ رِجَالٌ فَقَالُوا: نَشْھَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِکَ وَقَضَیْتَ الَّذِی عَلَیْکَ ثُمَّ سَکَتُوْا۔ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ رِجَالًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ کُسُوْفَ ھٰذِہِ الشَّمْسِ وَکُسُوْفَ ھٰذَا الْقَمَرِ وَزَوَالَ ھٰذِہِ النُّجُوْمِ عَنْ مَطَالِعِہَا لِمَوْتِ رِجَالٍ عُظَمَائَ مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ وَاِنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوا، وَلٰکِنَّہَا آیَاتٌ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَعْتَبِرُ بِھَا عِبَادُہُ فَیَنْظُرُ مَنْ یُحْدِثُ لَہُ مِنْہُمْ تَوْبَۃً، وَاَیْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ رَأَیْتُ مُنْذُ قُمْتُ أُصَلِّیْ مَا أَنْتُمْ لَاقُوْنَ فِی أَمْرِ دُنْیَاکُمْ وَآخِرَتِکُمْ وَاِنَّہُ وَاللّٰہِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابًا، آخِرُھُمْ الْأَعْوَرُ الدَّجَّالُ مَمْسُوْحُ الْعَیْنِ الْیُسْرٰی کَأَنَّہَا عَیْنُ أَبِی یَحْیٰی لِشَیْخٍ حِیْنَئِذٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بَیْنَہُ وَبَیْنَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، وَاِنَّہُ مَتٰی یَخْرُجُ أَوْ قَالَ مَتٰی مَا یَخْرُجُ فَاِنَّہُ سَوْفَ یَزْعُمُ أَنَّہُ اللّٰہُ، فَمَنْ آمَنَ بِہِ وَصَدَّقَہُ وَاتَّبَعَہُ لَمْ یَنْفَعْہُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلِہِ سَبَقَ، وَمَنْ کَفَرَ بِہِ وَکَذَّبَہُ لَمْ یُعَاقَبْ بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ سَلَفَ) وَاِنَّہُ سَیَظْہَرُ أَوْ قَالَ سَوْفَ یَظْہَرُ عَلَی الْأَرْضِ کُلِّہَا اِلَّا الْحَرَمَ وَبَیْتَ الْمَقْدِسِ وَاِنَّہُ یَحْصُرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیُزَلْزَلُوْنَ زِلْزَالاً شَدِیْدًا ثُمَّ یُہْلِکُہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَجُنُوْدَہُ حَتّٰی اِنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ أَوْ قَالَ أَصْلَ الْحَائِطِ، وَقَالَ حَسَنُ الْأَشْیَبُ وَأَصْلَ الشَّجَرَۃِ لَیُنَادِیْ أَوْ قَالَ یَقُوْلُ: یَامُؤْمِنُ! أَوْ قَالَ یَا مُسْلِمُ! ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ أَوْ قَالَ ھٰذَا کَافِرٌ تَعَالَ فَاقْتُلْہُ قَالَ وَلَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ حَتّٰی تَرَوْا أُمُوْرًا یَتَفَاقَمُ شَأْنُہَا فِی أَنْفُسِکُمْ وَتَسَائَلُوْنَ بَیْنَکُمْ ھَلْ کَانَ نَبِیُّکُمْ ذَکَرَ لَکُمْ مِنْہَا ذِکْرًا، وَحَتّٰی تَزُوْلَ جِبَالٌ عَنْ مَرَاتِبِہَا ثُمَّ عَلٰی أَثَرِ ذٰلِکَ الْقَبْضُ ثُمَّ شَہِدْتُ خُطْبَۃً لِسَمُرَۃَ ذَکَرَ فِیْھَا ھٰذَا الْحَدِیْثَ، فَمَا قَدَّمَ کَلِمَۃً وَلَا أَخَّرَھَا عَنْ مَوْضِعِھَا۔ (مسند احمد: ۲۰۴۴۰)
ثعلبہ بن عباد عبدی، جو اہل بصرہ میں سے تھے، کہتے ہیں: میں ایک دن سیّدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبے میں حاضر تھا، انہوں نے اس خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا عہد ِ نبوی میں دو نشانوں کے درمیان تیر پھینک رہے تھے، جب سورج دیکھنے والے کی نظر میں دو تین نیزے بلند ہوا تو وہ کالا ہونا شروع ہو گیا اور (سیاہ رنگ کا پھل) تنومہ کی طرح ہو گیا، ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: مسجد کی طرف چلیے، اللہ کی قسم! سورج کی یہ کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس امت میں کوئی نیا حکم پیدا کرے گی، پس ہم مسجد کی طرف بھاگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی باہر آئے ہوئے تھے، پھر جب آپ لوگوں کے پاس آئے تو آگے بڑھے اور (نماز شروع کر دی) اور اتنا لمبا قیام کروایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی نماز میں کبھی بھی ایسی طوالت اختیار نہیں کی تھی، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نہیں سن رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی لمبا رکوع کیا کہ کبھی بھی ہمیں ایسا رکوع نہیں کروایا تھا، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری رکعت کے بعد بیٹھے تو سورج بھی صاف ہو گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور یہ شہادت دی کہ آپ خود اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تم جانتے ہو کہ میں نے رب تعالیٰ کے پیغامات کو پہنچانے میں کوئی کمی کی ہے تو تم مجھ کو اس کی خبر دو گے، (میں خود تو یہ کہتا ہوں کہ) میں اپنے رب کے پیغامات کے اس طرح پہنچا دئیے، جس طرح پہنچانے کا حق تھا، بہرحال اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں تو تم مجھے اس کی خبر دو۔ کچھ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے ہیں اور آپ نے اپنی امت کی خیر خواہی کردی ہے اور جو حق آپ پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ادا کر دیا ہے، پھر وہ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:حمد و ثناء کے بعد، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کا بے نور ہو جانا اور ستاروں کا اپنے مقام سے ہٹ جانااہل زمین میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ لوگ جھوٹے ہیں،یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں،وہ ان کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے اور پھر وہ دیکھتاہے کہ ان میں سے کون اس موقع پر توبہ کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! جب میں اس نماز میں کھڑا ہوا تو میں نے وہ سارا کچھ دیکھ لیا جس کو تم دنیا و آخرت میں ملنے والے ہو۔اللہ کی قسم! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ، جب تک تیس کذاب نہ نکل آئیں، ان میں سے آخری دجال ہوگا، جو کانا ہو گا اور جس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، گویا کہ وہ ابویحیی کی آنکھ ہے۔ یہ ایک انصاری شیخ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ دجال نکلے گا تو وہ یہ دعوی کرے گا کہ وہی اللہ ہے، پس جو شخص اس کے ساتھ ایمان لائے گا،اس کی تصدیق کرے گا اور اس کی پیروی کرے گا تو سابقہ نیک اعمال بھی اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے، (یعنی اس کے اعمال صالحہ ضائع ہو جائیں گے)۔اور جس نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کی تکذیب کردی تواس کا اس کے سابقہ (برے) اعمال کی وجہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، (یعنی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے)۔ بے شک وہ دجال ساری زمین پر غالب آجائے گا، ما سوائے حرم اور بیت المقدس کے، وہ مومنوں کو بیت المقدس میں محصور کردے گا اور ان کو انتہائی سختی سے ہلا دیا جائے گا، (یعنی وہ اِس کی وجہ سے سخت گھبراہٹ، تنگی اور پریشانی میں ہوں گے)۔ پھر اللہ اس کو اور اس کے لشکروں کو ہلاک کردے گا، حتیٰ کہ دیوار کی بنیاد یا درخت کا بنیادی تناپکار پکار کر کہے گا: او مومن! او مسلمان! یہ یہودی (چھپا ہوا) ہے، یہ کافر ہے، ادھر آ اور اس کو قتل کر دے۔ لیکن یاد رکھو کہ دجال والا یہ معاملہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تلک تم بڑے بڑے امور نہ دیکھ لو گے اور جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد تم آپس میں سوال کرو گے کہ کیا تمہارے نبی ان کا کوئی ذکر کیا تھا، بطور مثال پہاڑ اپنی جگہوں سے سرک جائیں گے، پھر اس کے بعد قیامت بپا ہوجائے گی۔