۔ (۳۳۰۲) عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: جَائَ ْت یَہُوِدَّیۃٌ فَاسْتَطْعَمَتْ عَلٰی بَاَبیِ، فَقَالَتْ: أَطْعِمُوْنِیْ أَعَاذَکُمْ اللّٰہُ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَالِ وَمِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَزَلْ أَحْبِسُہَا حَتّٰی جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا تَقُوْلُ ہٰذِہِ الْیَہُوْدِیَّۃُ؟ قَالَ: ((وَمَا تَقُوْلُ؟)) قُلْتُ: تَقُوْلُ: أَعَاذَکُمُ اللّٰہُ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَمِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ قَالَتْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا : فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَرَفَعَ یَدَیْہِ مَدًّا یَسْتَعِیْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا فِتْنَۃُ الدَّجَّالِ فَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ إِلَّا قَدْ حَذَّرَ أُمَّتَہُ وَسَأُحَذِّرُکُمُوْہُ تَحْذِیْرًا لَمْ یُحَذِّرْہُ نَبِیٌّ أُمَّتَہٗ إِنَّہُ أَعْوَرُ وَاللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ یَقْرَؤُہُ کُلُّ مُؤْمِنٍ۔ فَأَمَّا فِتْنَۃُ الْقَبْرِ فَبِیْ تُفْتَنُوْنَ وَعَنِِّیْ تُسْأَلُوْنَ، فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أُجْلِسَ فِی قَبْرِہِ غَیْرَ فَزِعٍ وَلَامَشْعُوْفٍ، ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ: فِیْمَ کُنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: فِی الإِسْلَامِ، فَیُقَالُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ
کَانَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جَائَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَصَدَّقْنَاہُ، فَیُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ النَّارِ فَیَنَظُرُ إِلَیْہَا یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا، فَیُقَالُ لَہُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَا وَقَاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ یُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ إِلٰی الْجَنَّۃِ، فَیَنْظُرُ إِلٰی زَہْرَتِہَا وَمَا فِیْہَا فَیُقَالُ لَہُ: ہٰذَا مَقْعَدُکَ مِنْہَا، وَیُقَالُ: عَلیَ الْیَقِیْنِ کُنْتَ وَعَلَیْہِ مِتَّ وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔ وَإِنْ کَانَ الرَّجُلُ سَوْئً اُجْلِسَ فِی قَبْرِہِ فَزِعًا مَشْعُوْفًا، فَیُقَالَ لَہُ: فِیْمَ کُنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، فَیُقَالُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی کَانَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُ کَمَا قَالُوْا، فَیُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ الْجَنَّۃِ فَیَنْظُرُ إِلٰی زَہْرَتِہَا وَمَا فِیْہَا، فَیُقَالُ لَہُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَاصَرَفَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَنْکَ، ثُمَّ یُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ النَّارِ فَیَنْظُرُ إِلَیْہَا یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَیُقَالُ: ھٰذَا مَقْعَدُکَ مِنْہَا، کُنْتَ عَلَی الشَّکِّ وَعَلَیْہِ مِتَّ، وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ ثُمَّ یُعَذَّبُ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۰۲)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے دروازے پر ایک یہودی عورت کھانا مانگنے کے لیے آئی اور اس نے کہا: اللہ تمہیں فتنۂ دجال اور عذابِ قبر سے محفوظ رکھے، مجھے کھانا دو۔ میں نے اسے کافی دیر تک روکے رکھا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے،میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ یہودی عورت کیا کہتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا کہتی ہے؟ میں نے کہا: یہ کہتی ہے کہ اللہ تمہیں دجال کے فتنہ سے اور قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے، اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور اللہ سے دجال کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے لگے۔ پھر فرمایا: دجال کا فتنہ تو ایسا فتنہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے خبردار کیا ۔ میں بھی تمہیں اس سے ایسا خبردار کرتا ہوں کہ کسی نبی نے اپنی امت کو ویسا خبردار نہیں کیا، (سنو کہ) وہ کانا ہوگا، جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر کا لفظ لکھا ہواگا، ہر مومن اسے پڑھ لے گا۔رہا مسئلہ فتنۂ قبر کا تو اس میں تو میرے بارے میں بھی تمہیں آزمایا جائے گا اور میرے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا۔ جب مرنے والا آدمی نیک ہوتا ہے تو اسے قبر میں اس حال میں بٹھایا جاتا ہے کہ اس پر گھبراہٹ اور پریشانی کے کوئی آثار نہیں ہوتے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے: تم کس دین پر تھے؟ وہ کہتا ہے: اسلام پر تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے درمیان جس ہستی کو مبعوث کیا گیا، وہ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، وہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس واضح دلائل لے کر تشریف لائے تھے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ اس کے بعد اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے: اس چیز کی طرف دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے تمہیں بچا لیا ہے، اُدھر دیکھو، پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے، وہ جنت کی رونق و بہار اور اس میں موجود دوسری نعمتوں کو دیکھتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے: اس جنت میں یہ ٹھکانہ تیرا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ تم دنیا میں یقین پر جیئے، اسی پر فوت ہوئے اور اسی پر ان شاء اللہ اٹھائے جاؤ گے۔اور اگر وہ میت براہو تو اسے جب قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو وہ گھبرایا ہوا اور بہت زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے۔اس سے پوچھا جاتا ہے: تو دنیا میں کس دین پر تھا؟ وہ جواب دیتا ہے: میں کچھ نہیں جانتا۔اس سے کہا جاتا ہے: جس ہستی کو تمہارے درمیان مبعوث کیا گیا، وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میں نے لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنا، میں نے بھی وہی کچھ کہہ دیا تھا، (اب تو مجھے کسی چیز کا علم نہیں ہے)۔ اس کے بعد اس کے لیے جنت کی طرف ایک شگاف کھول دیا جاتا ہے، وہ اس کی رونقوں اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے: اس چیز کی طرف دیکھ جو اللہ تعالیٰ نے تجھ سے پھیر لی ہے، اتنے میں جہنم کی طرف سے ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے، وہ اس کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کا بعض بعض کو کھا رہا ہوتا ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: جہنم میں تیرا ٹھکانہ یہ ہے، دراصل بات یہ ہے کہ تو شک پر تھا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے ان شاء اللہ اٹھایا جائے گا، پھر اسے عذاب دیا جاتا ہے۔