۔ (۳۳۵۳) ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، أَنَّہُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَیْسِ بْنِ مَخَرَمَۃَ بْنِ الْمُطَلَّبَ أَنَّہُ قَالَ یَوْمًا: أَلَا أَحَدِّثُکُمْ عَنِّیْ وَعَنْ أَمُیِّ ؟ فَظَنَنَّا أَنَّہٗ یُرِیْدُ أُمَّہُ الَّتِیْ وَلَدَتْہُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ رضی اللہ عنہا : أَلَا اُحَدِّثُکُمْ عَنِّی وَعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قُلْتُ: بَلٰی۔ قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا کَانَتْ لَیْلَتِیَ الَّتِیْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْہَا عِنْدِی، اِنْقَلَبَ، فَوَضَعَ رِدَائَہُ وَخَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عِنْدَ رِجْلَیْہِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِہِ عَلٰی فِرَاشِہِ فَاضْطَجَعَ، فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا رَیْثَمَا ظَنَّ أَنِّیْ قَدْ رَقَدْتُّ فَأَخَذَ رِدَائَہُ رُوَیْدًا، وَانْتَعَل رُوَیْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَہُ رُوَیْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِیْ فِیْ رَأْسِی وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِی ثُمَّ
انْطَلَقْتُ عَلٰی اَثَرِہِ حَتّٰی جَائَ الْبَقِیْعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثَلَاثََ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَاَسْرَعْتُ فَہَرْوَلَ فَہَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، فَسَبَقْتُہُ، فَدَخَلْتُ فَلَیْسَ إِلَّا أَنِِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَل فَقَالَ: ((مَالَکِ یَا عَائِشَۃُ! حَشْیَا رَابِیَۃً؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَیْئَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَتُخْبِرِیْنِیْ أَوْ لَیُخْبِرَنِّیَ اللَّطِیْفُ الْخَبْیِرُ۔)) قَالَتْ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بِاَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی، فَأَخْبَرْتُہُ، قَالَ: ((فَأَنْتِ السَوَادُ الَّذِیْ رَأَیْتُ أَمَامِی؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَلَہَزَنِی فِیْ ظَہْرِیْ لَہْزَۃً أَوْجَعَتْنِیْ وَقَالَ: ((أَظَنَنْتِ أَنْ یَحِیْفَ عَلَیْکِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ؟)) قَالَتْ: مَہْمَا یَکْتُمِ النَّاسُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ، قَالَ: ((نَعَمْ فَإِنَِّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَتَانِیْ حِیْنَ رَأَیْتِ فَنَادَانِیْ فَأَخْفَاہُ مِنْکِ فَأَجَبْتُہُ فَأخْفَیْتُہُ مِنْکِ، وَلَمْ یَکُنْ لِیَدْخُلَ عَلَیْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنَّکِ قَدْ رَقَدْتِّ فَکَرِہْتُ أَنْ أُوْقِظَکِ وَخَشِیْتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِیْ، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّکَ جَلَّ وَعَزَّ یَأْ مُرُکَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ۔)) قَالَتْ: فَکَیْفَ أَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ فَقَالَ: ((قُوْلِیْ: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۸۰)
ایک دن محمد بن قیس نے کہا: کیا میں تمہیں اپنی اور اپنی والدہ سے ایک حدیث بیان نہ کر دوں؟ ہم نے سمجھا کہ اس کی مراد اس کی حقیقی والدہ ہے، پھر انہوں نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا میں تمہیں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کروں؟ میں نے عرض کیا: جی کیوں نہیں، پھر انھوں نے کہا: جب میری رات تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (عشاء کے بعد) واپس تشریف لائے، چادر رکھی، جوتے اتار کر پائنتی کی طرف رکھ دیئے اور چادر کا ایک حصہ بستر پر بچھا کر لیٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر لیٹے رہے، (میرے خیال کے مطابق) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا کہ میں سو گئی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آرام سے جوتے پہنے اور دروازہ کھول کر باہر تشریف لے گئے اور آہستگی سے اسے بند کر دیا۔ اُدھر میں نے بھی اپنا دوپٹہ سنبھالا، سر پر رکھا، چادر اوڑھی، شلوار پہنی اور آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان میں جا پہنچے، وہاں کافی دیر کھڑے رہے اور تین مرتبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس لوٹے اور میں بھی لوٹنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیز تیز چلے تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دوڑے تو میں بھی دوڑنے لگی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید تیز ہو گئے تو میں بھی مزید تیز ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نکل گئی اور گھر پہنچ کر ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور فرمایا: عائشہ! کیا بات ہے، سانس پھولا ہوا ہے، پیٹ اٹھا ہوا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم خود ہی مجھے بتا دو، ورنہ باریک بیں اور باخبر ربّ مجھے بتلا دے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، پھرمیں نے سارا واقعہ آپ کو بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مجھے اپنے سامنے کالا سا وجود نظر آ رہا تھا، یہ تم تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری کمر میں مکا مارا، جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر زیادتی کریں گے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:لوگ جیسے مرضی چھپا لیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جانتا ہی ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں،بات یہ تھی کہ جب تم نے مجھے دیکھا تھا اس وقت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے آواز دی اور آواز کو تم سے پوشیدہ رکھا، میں نے بھی اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا، وہ اس وقت تمہارے پاس تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ تم نے کپڑے وغیرہ ایک طرف رکھے ہوئے تھے، جبکہ میں نے سمجھا تھا تم سو چکی ہو اورتمہیں جگانا بھی مناسب نہ سمجھا، تاکہ تم اکیلی پریشان نہ ہو جائو، جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا: آپ کا ربّ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع والوں کے پاس جا کر ان کے لیے بخشش کی دعا کریں، (اس لیے میں چلا گیا تھا)۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول! میں کیسے دعا پڑھا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم یوں کہا کرو: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔ (سلامتی ہو ان گھروں والے مومنوں اور مسلمانوں پر اور اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے والوں اور بعد والوں پر رحم کرے اور ہم بھی ان شاء اللہ ملنے والے ہیں۔)