۔ (۳۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا أَبُوْ کَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: أَخَذْتُ ہَذَا الْکِتَابَ مِنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ کَتَبَ لَہُمْ: أَنَّ ہٰذِہِ فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ الَّتِی فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الَّتِی أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَمَنْ سُئِلَہَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی وَجْہِہَا فَلْیُعْطِہَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَالِکَ فَلَا یُعْطِہِ۔ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ مِنَ الْاِبِلِ، فَفِی کُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاۃٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ مَخَاضٍ اِلی خِمْسٍ وَّ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ اِبْنَۃُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَثَلاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّۃً وَأَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّہٌ طَرُوْقَۃَ الْفَحْلِ إِلٰی سِتَّیْنَ،فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَسِتِّیْنَ فَفِیْہَا جَذَعَۃٌ إِلٰی خَمْسٍ وَسَبْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَسَبْعِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَتَا لَبُوْنٍ إِلٰی تِسْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَتِسْعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ طَرُوْقَتَا الْفَحْلِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِنْ زَادَتْ عَلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ فَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، وَفِی کُلِّ خَمْسیْنَ حِقَّہٌ، فَإِذَا تَبَایَنَ أَسْنَانُ الإِبِلِ فِی فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْجَذَعَۃِ وَلَیْسَ عِنْدَہُ جَذَعَۃٌ وَعِنْدَہُ حِقَّہٌ، فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا َشَاتَیْنِ إِنْ اسْتَیْسَرَتَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْحِقَّۃِ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ إِلَّا جَذَعَۃٌ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیُعْطِیْہِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا أَوْ شَاتِیْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ ابْنَۃِ لَبُوْنٍ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ وَعِنْدَہُ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا شَاتَیْنِ إِنَّ اسْتَیْسَرَنَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ بِنْتِ مَخَاضٍ وَلَیْسَ عِنْدَہُ إِلَّا ابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ فَإِنَّہُ یُقْبَلُ مِنْہُ وَلَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الإِبِلِ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّھَا وَفِی الْغَنَمِ فِی سَائِمَتِہَا، إِذَا کَانَتْ أَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائِۃٍ فَإِنْ زَادَتْ فَفِیْہَا شَاتَانِ إِلٰی مِائَتَیْنِ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْھَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ إِلٰی ثَلَاثِمِائَۃِ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ وَلَا تُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَیْسٌ إِلَّا أَنْ یَشَائُ الْمُتَصَدِّقُ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْیَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَہُمَا بِالسَّوِیَّۃِ ، وَإِذَا کَانَتْ سَائِمَۃُ الرَّجُلِ نَاقِصَۃً مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃً وَاحِدَۃً فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ اِلَّا اَنْ یَشَائَ رَبُّہَا وَفِی الرِّقَۃِ رُبْعُ الْعُشُوْرِ، فَإِذَا لَمْ یَکُنِ الْمَالُ اِلَّا تِسْعِیْنَ وَمَائَۃَ دِرْہَمٍ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّہَا)) (مسند احمد: ۷۲)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان (بحرین والوں) کی طرف یہ تحریر لکھ کر بھیجی: یہ زکوۃ کا وہ نصاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، جس مسلمان سے اس کے مطابق زکوۃ وصول کی جائے، وہ ادا کرے اور جس سے اس سے زائد کا مطالبہ کیا جائے، وہ نہ دے۔ (تفصیل یہ ہے:) اونٹوں کی تعداد (۲۵) سے کم ہو تو ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ (۲۵) سے (۳۵) تک ایک بنت ِ مخاض یا ابن لبون ، (۳۶) سے (۴۵) تک بنت ِ لبون،(۴۶) سے (۶۰) تک نر کی جفتی کے قابل حِقّہ،(۶۱) سے (۶۵) تک جذعہ، (۷۶) سے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون اور (۹۱)سے (۱۲۰) تک دو عدد حقّے ہیں۔ جب اونٹوں کی تعداد اس سے بڑھ جائے تو ہر (۴۰) پر ایک بنت ِ لبون اور ہر (۵۰) پر ایک حقّہ زکوۃ ہو گی اور اگر زکوۃ کے اس سلسلے میں اونٹوں کی عمریں مختلف ہو جائیں، یعنی جس نے زکوۃ میں جذعہ ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، البتہ حِقّہ ہو تو اس سے وہی لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اگر میسر ہو تو دو بکریاں دے دے یا بیس درہم، اسی طرح اگر کسی نے زکوۃ میں حقّہ ادا کرنا ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی، لیکن زکوۃ وصول کرنے والا نمائندہ بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس کرے گا، اور جس پر حِقّہ کی زکوۃ ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے وہی لے لی جائے گی، لیکن (اس کمی کو پورا کرنے کے لیے) اگر میسر ہو تو دو بکریاں دینا پڑیں گی، نہیں تو بیس درہم، اسی طرح جس پر بنت ِ لبون کی زکوۃ پڑ جائے، لیکن اس کے پاس حِقّہ ہو تو وہی اس سے لے لیا جائے گا، لیکن زکوۃ وصول کنندہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، اسی طرح جس نے زکوۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت ِ مخاض ہو تو اس سے یہی لے لی جائے گی، لیکن اسے اس کے ساتھ اگر میسر ہوں تو بکریاں، وگرنہ بیس درہم دینا پڑیں گے، اور جس نے زکوۃ میں بنت ِ مخاض ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی قبول کیا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ مزید کوئی چیز نہیں لی جائے گی۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، ہاں اگر وہ از خود (بطورِ نفل) کچھ دینا چاہے تو (ٹھیک ہے)۔ چرنے والی بکریوں کا نصابِ زکوۃ یہ ہے: (۴۰) سے (۱۲۰) تک ایک بکری، (۱۲۱) سے (۲۰۰) تک دو بکریاں اور (۲۰۰) سے (۳۰۰) تک تین بکریاںزکوۃ لی جائے گی، اس کے بعد ہر (۱۰۰) میں ایک بکری وصول کی جائے گی۔زکوۃ میں بوڑھی، کانی یا نر جانور نہیں لیا جائے گا، اگر مالک چاہے تو نر جانور بھی دے سکتا ہے، زکوۃ سے بچنے کے لیے نہ الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا کیا جا سکتا اور نہ اکٹھے ریوڑ کو علیحدہ علیحدہ کیا جا سکتا ہے، اگر کسی (ریوڑ میں) دو آدمیوں کا اشتراک ہو تو وہ (ادا شدہ زکوۃ) کو برابر تقسیم کریں گے، اگر چرنے والی بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک بھی کم ہو تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک (از خود بطورِ نفل) دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ چاندی میں چالیسواں حصہ بطور زکوۃ واجب ہے، اگر چاندی (۱۹۰) درہم ہو، تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک از خود بطور نفل دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔