۔ (۳۴۱۸) عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا أَنَّہَا قَالَتْ: وَہِیَ تَذْکُرُ شَأْنَ خَیْبَرَ، کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَبْعَثُ ابْنَ رَوَاحَۃَ إِلَی الْیَہُوْدِ فَیَخْرُصُ عَلَیْہِمُ النَّخْلَ، حِیْنَیَطِیْبُ (وَفِی رَوَایَۃٍ: أوَّلَ الثَّمَرِ) قَبْلَ أَنْ یُؤْکَلَ مِنْہُ، ثُمَّ یَخَیِّرُوْنَیَہُوْدَ أَیَأْ خُذُونْہٗبِذٰلِکَالْخَرْصِأَمْیَدْفَعُوْنَہُ إِلَیْہِمْ بِذٰلِکَ، وَإِنَّمَا کَانَ أَمْرُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِکَیْیُحْصِیَ الِّزَّکَاۃَ قَبْلَ أَنْ تُؤْکَلَ الثَّمَرَۃُ وَتُفَرَّقَ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۱۹)
۔ سید عائشہ رضی اللہ عنہا خیبر کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: جب وہاں کی کھجوریں تیار ہو جاتیں، لیکن ابھی تک کھانے کے قابل نہ ہوتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو یہودیوں کی طرف بھیجتے تاکہ وہ وہاں جا کرکھجوروں کی فصل کا اندازہ لگائیں، وہ اندازہ لگا کر ان کو اختیار دے دیتے کہ وہ یا تو اس لگائے ہوئے اندا زے کے مطابق کھجوریں لے لیں اور فصل چھوڑ دیںیا اس اندازہ کے حساب سے حصہ ادا کریں،نبی کریم کا یہ حکم اس وجہ سے تھا کہ کھجوروں کو کھانے اور تقسیم کرنے سے پہلے پہلے ہی ان کی مقدار کا اندازہ ہو جائے۔