۔ (۳۴۸۹) عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ اَنَّہُ اجْتَمَعَ رَبِیْعَۃُ بْنُ الْحَارِثِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہما فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَوْ بَعَثْنَا ہٰذَیْنِ الْغُلَامِیْنِ، فَقَالَا لِیْ وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ
إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاَمَّرَھُمَا عَلٰی ھٰذِہِ الصَّدَقَاتِ فَاَدَّیَا مَا یُؤَدِّی النَّاسُ وَاَصَابَا مَا یُصِیْبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَۃِ، فَبَیْنَاہُمَا فِی ذٰلِکَ جَائَ عَلَیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: مَا ذَا تُرِیْدَانِ؟ فَاَخْبَرَاہُ بِالَّذِی اَرَادَا، قَالَ: فَلَا تَفْعَلَا فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ بِفَاعِلٍ، فَقَالَا: لَمْ تَصْنَعُ ھٰذََا؟ فَمَا ہٰذَا مِنْکَ إِلَّا نَفَاسَۃً عَلَیْنَا لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَنِلْتَ صِہْرَہُ فَمَا نَفِسْنَا ذٰلِکَ عَلَیْکَ، قاَلَ: فَقَالَ: اَنَا اَبُوْ حَسَنٍ، اَرْسِلُوْہُمَا ثُمَّ اضْطَجَعَ قَالَ: صَلَّی الظُّہْرَ (یَعْنِی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سَبَقْنَاہُ إِلَی الْحُجْرَۃِ فَقُمْنَا عِنْدَہَا حَتَّی مَرَّبِنَا فَاَخَذَ بِاَیْدِیْنَا، ثُمَّ قَالَ: اَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ، وَدَخَلَ فَدَخَلْنَا مَعَہُ وَہُوَ حِیْنَئِذٍ فِیْ بَیْتِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَکَلَّمْنَاہُ، فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جِئْنَاکَ لِتُؤَمِّرَنَا عَلٰی ھٰذِہِ الصَّدَقَاتِ فَنُصِیْبَ مَا یُصِیْبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَۃِ وَنُؤَدِّیَ إِلَیْکَ مَا یُؤَدِّی النَّاسُ، قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَرَفَعَ رَاْسَہُ إلَی سَقْفِ الْبَیْتِ حَتّٰی اَرَدْنَا اَنْ نُکَلِّمَہُ، فَاَشَارَتْ إِلَیْنَا زَیْنَبُ مِنْ وَرَائِ حِجَابِہَا، کَاَنَّہَا تَنْہَانَا عَنْ کَلَامِہِ، وَاَقْبَلَ فَقَالَ: ((الَا إِنَّ الصَّدَقَۃَ لاَ تَنْبَغِی لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ محُمَدَّ،ٍ إِنَّمَا ہِیَ اَوْسَاخُ النَّاسِ، اُدْعُوْا لِیْ مَحْمِیَۃَ بْنَ جَزْئٍ۔)) وَکَانَ عَلَی الْعُشْرِ، وَاَبَا سُفْیَانَ ابْنَ الْحَارِثِ فَاَتَیَا فَقَالَ لِمَحْمِیَۃَ: ((اَصْدِقْ عَنْہُمَا مِنَ الْخُمُسِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۶۰)
۔ سیدناعبد المطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ جمع ہوئے اور انہوں نے میرے اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشورہ کیا اور کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم ان دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو صدقات کی وصولی پر مامور فرمائیں، اس طرح یہ دونوں لوگوں سے زکوٰۃ و صدقات وصول کرکے لائیں اور دوسروں کی طرح مالی منفعت یعنی اجرت حاصل کر سکیں،یہ بہتر چیز ہے، ابھی تک وہ دونوں یہ مشورہ ہی کر رہے تھے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور انہوں نے پوچھا: تمہارے کیا ارادے ہیں؟ جب ان دونوں نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا: آپ ایسے کیوں کر رہے ہیں؟ آپ یہ بات محض حسد کی بنا پر کر رہے ہیں، دیکھیںکہ آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہتے ہیں اور آپ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد بھی ہیں، لیکن ہم نے تو کبھی بھی آپ پر حسد نہیں کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی آخر ابو حسن ہوں، تم ان دونوں کو بھیج کر دیکھ لو، یہ کہہ کر وہ لیٹ گئے۔ عبد المطلب کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل ہی حجرہ کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے ہاتھ تھام لئے اور فرمایا: تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اس کا اظہار کر دو، اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اندر چلے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ زینب رضی اللہ عنہ کے ہاں مقیم تھے،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کی اور عرض کیا: اللہ کے رسول۱ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ہیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی پر مامور فر ما دیں، اس طرح ہم بھی دوسروں کی طرح مالی منفعت حاصل کر سکیں گے، ہم بھی دوسروں کی طرح وصولیاں کرکے لا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیں گے۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک کمرے کی چھت کی طرف اٹھایا، ہم نے کچھ کہنے کا ارادہ تو کیا لیکن سیدہ زینب رضی اللہ عنہ نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کرکے ہمیں بولنے سے روک دیا،کچھ دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: خبردار! محمد اور آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے، یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: محمیہ بن جز کو بلا ئو۔ جو کہ عشر پر مامور تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محمیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: خُمُس (پانچواں حصے) میں سے ان دونوں کے مہر ادا کردو۔