۔ (۳۶۷۳) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: اُحِیْلَتِ الصَّلَاۃُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ وَاُحِیْلَ الصِّیَامُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ، فَاَمَّا اَحْوَالُ الصَّلَاۃِ فَإِنَّ
النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ وَہُوَ یُصَلِّیْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ (الْحَدِیْثَ) قَالَ: وَاَمَا اَحْوَالُ الصِّیَامِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ فَجَعَل یَصُوْمُ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَقَالَیَزِیْدُ: فَصَامَ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا مِنْ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ إِلَی رَمَضَانَ، مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَصَامَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَلَیْہِ الصِّیَامَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (إِلٰی ھٰذِہِ الآیَۃِ) وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} قَالَ: فَکَانَ مَنْ شَائَ صَامَ وَمَنْ شَائَ اَطْعَمَ مِسْکِیْنًا فَاَجْزَأَ ذَالِکَ عَنْہُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَنْزَلَ اْلآیَۃَ الْاُخْرٰی: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ (إِلٰی قَوْلِہِ) فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} فَاَثْبَتَ اللّٰہُ صِیَامَہُ عَلَی الْمُقِیْمِ الصَّحِیْحِ، وَرَخَّصَ فِیْہِ لِلْمَرِیْضِ وَالْمُسَافِرِ وَثَبَّتَ الإِطْعَامَ لِلْکَبِیْرِ الَّذِی لَایَسْتَطِیْعُ الصِّیَامَ فَھٰذَانِ حَالَانِ، قَالَ: وَکَانُوْا یَاْکُلُوْنَ وَیَشْرَبُوْنَ، وَیَاْتُوْنَ النِّسَائَ مَالَمْ یَنَامُوْا فَإِذَا نَامُوْا اِمْتَنَعُوْا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ صِرْمَۃُ، ظَلَّ یَعْمَلُ صَائِمًا حَتّٰی اَمْسٰی فَجَائَ إِلٰی اَہْلِہِ فَصَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ نَامَ فَلَمْ یَاْکُلْ، وَلَمْ یَشْرَبْ حَتّٰی اَصْبَحَ فَاَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَرَآہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَدْ جَہِدَ جَہْدًا شَدِیْدًا، قَالَ: ((مَالِیْ اَرَاکَ قَدْ جَہِدْتَّ جَہْدًا شَدِیْدًا؟)) قَالَ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! إِنِّی عَمِلْتُ اَمْسِ فَجِئْتُ حِیْنَ جِئْتُ فَاَلْقَیْتُ نَفْسِی فَنِمْتُ وَاَصْبَحْتُ حِیْنَ اَصْبَحْتُ صَائِمًا، قَالَ: وَکَانَ عُمَرُ قَدْ اَصَابَ مِنَ النِّسَائِ مِنْ جَارِیَۃٍ اَوْ مِنْ حُرْۃٍ بَعْدَ مَانَامَ، وَاَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَفَذَکَرَذَالِکَلَہُفَاَنْزَلَاللّٰہُعَزَّوَجَّلَ: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلَی نِسَائِکُمْ (إِلٰی قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ) ثُمَّاَتِمُّوْاالصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (مسند احمد: ۲۲۴۷۵)
۔ سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین مراحل میں نماز کی فرضیت اور تین مراحل میں ہی روزے کی فرضیت ہوئی، نماز کے مراحل یہ ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سترہ ماہ تک بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، …… (کتاب الصلاۃ میں مکمل حدیث گزر چکی ہے) روزے کے مراحل یہ ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے، یزید راوی کہتا ہے: ربیع الاول سے لے کر ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت تک کل سترہ ماہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے رہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس محرم کا روزہ بھی رکھا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کر دیئے اور یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَآمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔} (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ )نیز فرمایا: { وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) ان آیات پر عمل کرتے ہوئے جو آدمی چاہتا وہ روزہ رکھ لیتا اور جو کوئی روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ بطورِ فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہی چیز اس کی طرف سے کافی ہو جاتی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مقیم اورتندرست آدمی پراس مہینے کے روزے فرض کر دیئے، البتہ مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دے دی اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والے عمر رسیدہ آدمی کے لیے روزہ کا یہ حکم برقرار رکھا کہ وہ بطورِ فدیہ مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے، یہ دو حالتیں ہو گئیں، تیسری حالت یہ تھی کہ لوگ رات کو سونے سے پہلے تک کھا پی سکتے تھے اور بیویوں سے ہم بستری کر سکتے تھے تھے، لیکن جب نیند آ جاتی تو اس کے بعد یہ سب کچھ ان کے لئے ممنوع قرار پاتا تھا، ایک دن یوں ہوا کہ ایک صرمہ نامی انصاری صحابی روزے کی حالت میں سارا دن کام کرتا رہا، جب شام ہوئی تو اپنے گھر پہنچا اور عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ کھائے پئے بغیر سو گیا،یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور اس طرح اس کا روزہ بھی شروع ہو چکا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ کافی نڈھال ہوچکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ: بہت نڈھال دکھائی دے رہے ہو، کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کل سارا دن کام کرتا رہا، جب گھر آیا تو ابھی لیٹا ہی تھا کہ سو گیا( اور اس طرح میرے حق میں کھانا پینا حرام ہو گیا اور) جب صبح ہوئی تو میں نے تو روزے کی حالت میں ہی ہونا تھا۔ اُدھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بھی ایک معاملہ تھا کہ انھوں نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنی بیوییا لونڈی سے ہم بستری کر لی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر ساری بات بتلا دی تھی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ …… ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (روزے کی راتوںمیں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔)