۔ (۴۲۰۴) عَنْ إِبْرَاہِیْمَ بْنِ أَبِی مُوْسَی عَنْ أَبِی مُوْسَی (الْاَشْعَرِیِّ رضی اللہ عنہ ) أَنَّہُ کَانَ یُفْتِی بِالْمُتْعَۃِ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: رُوَیْدَکَ بِبَعْضِ فُتْیَاکَ، فَإِنَّکَ لاَ تَدْرِیْ مَا أَحْدَثَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی النُّسُکِ بَعْدَکَ حَتّٰی لَقِیَہُ بَعْدُ فَسَأَلَہُ، فَقَالَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ : قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ فَعَلَہُ وَأَصْحَابَہُ, وَلٰکِنِّی کَرِہْتُ أَنْ یَظَلُّوا بِہِنَّ مُعْرِسِیْنَ فِی الْأَرَاکِ ثُمَّ یَرُوْحُوْ بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رَؤُوْسُہُمْ۔ (مسند احمد: ۳۵۱)
۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے، ایک آدمی نے ان سے کہا: ذرا اپنے بعض فتووں سے رک جاؤ،کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد امیر المومنین نے مناسک ِ حج کے بارے میں کیا حکم جاری کیا ہے۔ بعد میں سیدناابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے حج تمتع کیا ہے، مگر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ لوگ رات کو اَرَاک درختوں کے نیچے اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستری کریں اور پھر جب حج کے لئے روانہ ہوں تو ان کے سروں سے غسل کے پانی کے قطرے گر رہے ہوں۔