348 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4782

۔ (۴۷۸۲)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَيُّ الأَ عْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((الإِیْمَانُ بِاللّٰہِ۔)) قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((اَلْجِھَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) قَال: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ۔)) (مسند أحمد: ۷۶۲۹)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان۔ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر حج مبرور ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4783

۔ (۴۷۸۳)۔ عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ تَعَالٰی، وَ جِھَادٌ فِيْ سَبِیْلِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۶۵۷)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4784

۔ (۴۷۸۴)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَوَدِدْتُ أَنْ أُقَاتِلَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَأُقْتَلَ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ، وَلَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ، مَا تَخَلَّفْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ تَخْرُجُ أَوْ تَغْزُو فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَ لٰکِنْ لا أَجِدُ سَعَۃً فَأَحْمِلَھُمْ، وَلا یَجِدُوْنَ سَعَۃً فَیَتَّبِعُوْنِيْ، وَلا تَطِیْبُ أَنْفُسُھُمْ أَنْ یَتَخَلَّفُوْا بَعْدِي، أَوْ یَقْعُدُوا بَعْدِيْ۔)) (مسند أحمد: ۱۰۵۳۰)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کروں پس شہید کیا جاؤں، پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، اور اگر میں مؤمنوں پر گراں نہ سمجھتا تو میں کسی ایسے لشکر سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میںجہاد کرتا ہے، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ان کو سواریاں دوں اور ان کے پاس بھی اتنی وسعت نہیں کہ وہ خود تیاری کر کے میرے ساتھ چلیں اور مجھ سے پیچھے رہ جانا بھی ان کے نفسوں کو گوارا نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4785

۔ (۴۷۸۵)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ حَدَّثَہُ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ عَمَلاً یَعْدِلُ الْجِھَادَ، قَالَ: ((لا أَجِدُہُ۔)) قَالَ: ((ھَلْ تَسْتَطِیْعُ إِذَا خَرَجَ الْمُجَاھِدُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدًا فَتَقُوْمَ لا تَفْتُرُ، وَ تَصُوْمَ لا تُفْطِرُ؟)) قَالَ: لا أَسْتَطِیْعُ۔ قَالَ: قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: إِنَّ فَرَسَ الْمُجَاھِدِ یَسْتَنُّ فِيْ طِوَلِہِ فَیُکْتَبُ لَہُ حَسَنَاتٍ۔ (مسند أحمد: ۸۵۲۱)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتلائیں جو جہاد کے برابر ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ایسا عمل نہیں پاتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھلا کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ جب مجاہد نکل جائے تو تو مسجد میں داخل ہو جائے اور لگاتار قیام کرتا رہے اور سست نہ پڑے اور لگاتار روزے رکھتا رہے اور کوئی روزہ ترک نہ کرے؟ اس نے کہا: اتنی طاقت تو مجھے نہیں ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب مجاہد کا گھوڑا اپنے رسی کے احاطے کے اندر اندر چلتا ہے تو اس کے لیے اس کے چلنے کی بھی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4786

۔ (۴۷۸۶)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنَا بِعَمَلٍ یَعْدِلُ الْجِھَادَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لا تُطِْٰیْقُوْنَہُ۔)) مَرَّتَیْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: قَالُوْا: أَخْبِرْنَا فَلَعَلَّنَا نُطِیْقُہُ؟ قَالَ: ((مَثَلُ الْمُجَاھِدِ فِيْ سِبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآیَاتِ اللّٰہِ، لا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَلا صَلاۃٍ، حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاھِدُ إِلٰی أَھْلِہِ۔)) (مسند أحمد: ۹۴۷۷)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ایسے عمل کے بارے میں بتلا دیں جو جہاد کی سبیل اللہ کے برابر ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ دو یا تین بار ایسے ہی فرمایا، لوگوں نے کہا: آپ بتلا تو دیں، شاید ہم میں اس کی طاقت ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجاہد کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو لگاتار روزہ رکھنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مسلسل قیام کرنے والا ہو، نہ وہ روزے سے اکتاتا ہو اور نہ نماز سے، یہاں تک کہ مجاہد اپنے گھر والوںکی طرف لوٹ آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4787

۔ (۴۷۸۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لِکُلِّ نَبِيٍّ رَھْبَانِیَّۃٌ وَ رَھْبَانِیَّۃُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ الْجِھَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۳۸۴۴)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کی رہبانیت ہے اور اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4788

۔ (۴۷۸۸)۔ عَنْ أَبِيْ أَیُّوْبَ الأَ نْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((غَدْوَۃٌ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ، أَوْ رَوْحَۃٌ، خَیْرٌ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ وَ غَرَبَتْ)) (مسند أحمد: ۲۳۹۸۴)
۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبح یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا ان چیزوں سے بہتر ہے، جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4789

۔ (۴۷۸۹)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((غَدْوَۃٌ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَ مَا فِیْھَا۔)) (مسند أحمد: ۱۰۸۹۶)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبح یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4790

۔ (۴۷۹۰)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَيُّ الْجِھَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((مَنْ عُقِرَ جَوَادُہُ، وَ أُھْرِیْقَ دَمُہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۲۵۹)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام fنے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور خود اس کا خون بہا دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4791

۔ (۴۷۹۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَفْلَۃٌ کَغَزْوَۃٍ۔)) (مسند أحمد: ۶۶۲۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد سے واپسی بھی جہاد کی طرح ہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4792

۔ (۴۷۹۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ مُکَاتَبًا لَھَا دَخَلَ عَلَیْھَا بِبَقِیَّۃِ مُکَاتَبَیتِہِ، فَقَالَتْ لَہُ: أَنْتَ غَیْرُ دَاخِلٍ عَلَيَّ غَیْرَ مَرَّتِکَ ھٰذِہِ، فَعَلَیْکَ بِالْجِھَادِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَا خَالَطَ قَلْبَ امْرِیٍٔ مُسْلِمٍ رَھَجٌ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلاَّ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ)) (مسند أحمد: ۲۵۰۵۵)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ان کا مکاتَب اپنی مکاتبت کا بقیہ حصہ لے کر ان کے پاس آیا، انھوں نے کہا: اب کے بعد تو نے مجھے پر داخل نہیں ہونا، تو جہاد فی سبیل اللہ کو لازم پکڑ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس مسلمان کے دل کے ساتھ اللہ کے راستے کا غبار ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام قرار دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4793

۔ (۴۷۹۳)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا: لَا اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْھَا عَصَمُوْا مِنِّي بِھَا دِمَائَ ھُمْ وَ أَمْوَالَھُمْ إِلاَّ بِحَقِّھَا، وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُسَیْطِرٍ} [الغاشیۃ: ۲۱،۲۲] (مسند أحمد: ۱۴۲۵۹)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں، یہاں تک کہ وہ لَا اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہہ دیں، پس جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں گے تو اپنے خونوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیتیں پڑھیں: {فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُسَیْطِرٍ}… پس تو نصیحت کر، تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ۔تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4794

۔ (۴۷۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((جَاھِدُوْا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ وَ أَلْسِنَتِکُمْ)) (مسند أحمد: ۱۲۲۷۱)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4795

۔ (۴۷۹۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلٰکِنْ جِھَادٌ وَ نِیَّۃٌ، وَ إِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوْا۔)) (مسند أحمد: ۳۳۳۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے، البتہ جہاد اور نیت ہے اور جب تم سے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو تم نکل پڑو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4796

۔ (۴۷۹۶)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْجِھَادُ عَمُوْدُ الإسْلامِ وَ ذُرْوَۃُ سَنَامِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۳۹۷)
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد اسلام کا ستون اور اس کے کوہان کی چوٹی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4797

۔ (۴۷۹۷)۔ عَنْ أَبِيْ إِسْحَاقَ، قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَائِ: الرَّجُلُ یَحْمِلُ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ أَھُوَ مِمَّنْ أَلْقٰی بِیَدِہِ إِلَی التَّھْلُکَۃِ؟ قَالَ: لا، لأَ نَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ رَسُوْلَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: {فَقَاتِلْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا تُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ} (النسائ: ۸۴) إِنَّمَا ذَاکَ فِيْ النَّفَقَۃِ۔ (مسند أحمد: ۱۸۶۶۹)
۔ ابو اسحاق کہتے ہیں: میں نے سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ایک آدمی مشرکوں پر ٹوٹ پڑتا ہے، کیا یہ وہ آدمی ہے جو اپنے ہاتھ کو ہلاکت کی طرف ڈالتا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیجا اور فرمایا: آپ اللہ کے راستے میں جہاد کریں، آپ کو مکلّف نہیں ٹھہرایا جائے گا، مگر اپنے نفس کا۔ یہ تو مال خرچ کرنے کے بارے میں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4798

۔ (۴۷۹۸)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مِرْدَاسٍ، قَالَ: أَتَیْتُ الشَّامَ أَتْیَۃً فَإِذَا رَجُلٌ غَلِیْظُ الشَّفَتَیْنِ (أَوْ قَالَ: ضَخْمُ الشَّفَتَیْنِ والأنْفِ) إِذَا بَیْنَ یَدَیْہِ سِلاحٌ فَسَأَلُوْہُ وَھُوَ یَقُوْلُ: ((یَا أَیُّھَا النَّاسُ! خُذُوا مِنْ ھٰذَا السِّلاحِ وَاسْتَصْلِحُوْہُ، وَ جَاھِدُوْا بِہِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قُلْتُ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوْا: بِلالٌ۔ (مسند أحمد: ۲۴۳۹۹)
۔ عمرو بن مرداس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں شام میں آیا اور وہاں موٹے ہونٹوں اور موٹی ناک والا آدمی دیکھا، اس کے سامنے اسلحہ پڑا ہوا تھا، پس انھوں نے اس سے سوال کیا اور وہ یہ کہہ رہا تھا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! یہ اسلحہ لے لو اور اس کو درست کرو اور اس کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ میں نے کہا: یہ آدمی کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4799

۔ (۴۷۹۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلا نَخْرُجُ نُجَاھِدُ مَعَکُمْ؟ قَالَ: ((لَا، جِھَادُکُنَّ الْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ، ھَوَ لَکُنَّ جِھَادٌ)) (مسند أحمد: ۲۴۹۲۶)
۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے نہ نکلیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تمہارا جہاد حج مبرور ہے، یہی تمہارا جہاد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4800

۔ (۴۸۰۰)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ۔ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلَیْکُمْ بِالْجِھَادِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی فَإِنَّہُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یُذْھِبُ اللّٰہُ بِہِ الْھَمَّ وَالْغَمَّ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۹۶)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جہاد فی سبیل اللہ کا اہتمام کرو، کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے رنج اور غم ختم کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4801

۔ (۴۸۰۱)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: قَالَ (عُثْمَانُ) بْنُ عَفَّانَ وَ ھُوَ یَخْطُبُ عَلٰی مِنْبَرِہِ: إِنِّيْ مُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ یَمْنَعُنِيْ أَنْ أُحَدِّثَکُمْ إِلاَّ الضِّنُّ عَلَیْکُمْ، وَ إِنِيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((حَرَسُ لَیْلَۃٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ لَیْلَۃٍ یُقَامُ لَیْلُھَا، وَ یُصَامُ نَھَارُھَا۔)) (مسند أحمد: ۴۳۳)
۔ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ انھوں نے کہا: میں تم کو ایک حدیث بیان کرنے والا ہوں، میں نے خود وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، پہلے مجھے وہ حدیث بیان کرنے سے روکنے والی چیز تم پر بخل تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ ہزار راتوں کے قیام اور ان کے دنوں کے روزوں سے افضل ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4802

۔ (۴۸۰۲)۔ عَنْ أَبِيْ صَالِحٍ مَوْلٰی (عُثْمَانَ)، أَنَّ (عُثْمَانَ) قَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ ھَجِّرُوْا فَإِنِّيْ مُھَجِّرٌ فَھَجَّرَ النَّاسُ،ثُمَّ قَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ، إِنِِّيْ مُحَدِّثُکُمْ بِحَدِیْثٍ مَا تَکَلَّمْتُ بِہِ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی یَوْمِيْ ھٰذَا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ رِبَاطَ یَوْمٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ یَوْمٍ مِمَّا سِوَاہُ، فَلْیُرَابِطِ امْرُؤٌ حَیْثُ شَائَ، ھَلْ بَلِّغْتُکُمْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔)) (مسند أحمد: ۴۷۷)
۔ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: لوگو! جلدی آ جاؤ، میں بھی جلدی کرنے والا ہوں، پس لوگ پہلے وقت میں جمع ہو گئے، پھر انھوں نے کہا: اے لوگو! میں تم کو ایک ایسی حدیث بیان کرنے والا ہوں کہ جب سے میں نے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی، اس وقت سے آج تک میں نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن کے لیے پہرہ دینا ایک ہزار دنوں کی عبادت سے بہتر ہے، پس آدمی جہاں چاہے، یہ پہرہ دے، کیا میں نے تم کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ ہو جاؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4803

۔ (۴۸۰۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((رِبَاطُ یَوْمٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَ قِیَامِہِ)) (مسند أحمد: ۶۶۵۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دن کے لیے پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4804

۔ (۴۸۰۴)۔ عَنِ ابْنِ أَبِيْ زَکَرِیَّا الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَیْرِ، أَنَّہُ سَمِعَہُ وَ ھُوَ یُحَدِّثُ شُرَحْبِیْلَ بْنَ السِّمْطِ، وَھُوَ مُرَابِطٌ عَلَی السَّاحِلِ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ رَابَطَ یَوْمًا أَوْ لَیْلَۃٌ، کَانَ لَہُ کَصِیَامِ شَھْرِ لِلْقَاعِدِ، وَ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَجْرَی اللّٰہ لَہُ أَجْرَہُ، وَ الَّذِيْ کَانَ یَعْمَلُ أَجْرَ صَلاتِہِ وَ صِیَامِہِ وَ نَفَقَتِہِ، وَ وُقِيَ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ، وَ أَمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الأکْبَرِ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۱۲۸)
۔ سیدنا سلیمان خیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا شرحبیل بن سمط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بیان کیا، جبکہ وہ ساحل کی سرحدی چوکی پر مقیم تھے، انھو ں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ایک دن یا ایک رات کے لیے سرحد پر قیام کیا، اس کے لیے پیچھے بیٹھنے والے کے ایک ماہ کے روزوں کے برابر اجر ہو گا اور جو اسی رباط کے دوران فوت ہو گیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے عمل کا اجر جاری کر دے گا، یعنی اس کی نماز، روزے اور مال خرچ کرنے کا اجر، اس کو قبر کے فتنے سے بچایا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4805

۔ (۴۸۰۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانِ) عَنْ سَلْمَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَصِیَامِ شَھْرٍ وَ قِیَامِہِ (زَادَ فِيْ روایۃٍ: صَائِمًا لا یُفْطِرُ، وَقَائِمًا لا یَفْتُرُ)، إِنْ مَاتَ جَرَی عَلَیْہِ أَجْرُ الْمُرَابِطِ حَتّٰی یُبْعَثَ، وَ یُؤْمَنَ الْفَتَّانَ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۱۲۹، ۲۴۱۳۶)
۔ (دوسری سند) سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں سرحد پر ایک دن اور رات کا پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام کی طرح ہے، ایک روایت میں یہ زیادہ الفاظ ہیں: اس روزے دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا اور اس قیام کرنے والے کی طرح ہے، جو سست نہیں پڑتا، اور وہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے تک اس کا اجر اس پر جاری کر دیا جائے گا اور وہ قبر کے فتنے سے امن میں رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4806

۔ (۴۸۰۶)۔ عَنْ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ مَاتَ عَلٰی مَرْتَبَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَاتِبِ بُعِثَ عَلَیْھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) قَالَ حَیْوَۃُ: یَقُوْلُ: رِبَاطٌ، أَوْ حَجٍّ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۴۴۴۹)
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو ان مراتب میں سے کسی مرتبہ پر فوت ہو گیا تو وہ قیامت کے روز اسی پر اٹھایا جائے گا۔ حیوہ راوی نے کہا: مرتبے سے آپ کی مراد سرحدی چوکی پر قیام اور حج وغیرہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4807

۔ (۴۸۰۷)۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ۔ تَرْفَعُ الْحَدِیْثَ۔ قَالَتْ: ((مَنْ رَابَطَ فِيْ شَيْئٍ مِنْ سَوَاحِلِ الْمُسْلِمِیْنَ، ثَلاثَۃَ أَیَّامٍ، أَجْزَأَتْ عَنْہُ رِبَاطَ سَنَۃٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۵۸۰)
۔ سیدہ ام درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کے کسی سرحدی علاقوں میں سے کسی علاقے پر تین دن کا پہرہ دیا تو یہ اس کو ایک سال کے رباط سے کفایت کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4808

۔ (۴۸۰۸)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا وُقِيَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ، وَ أُومِنَ مِنَ الْفَزَعِ الأکْبَرِ، وَغُدِيَ عَلَیْہِ وَ رِیحَ بِرِزْقِہِ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَ کُتِبَ لَہُ أَجْرُ الْمُرَابِطِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۹۲۳۳)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو رباط کی حالت میں فوت ہو گیا، اس کو قبر کے فتنے سے بچا لیا جائے گا، بڑی گھبراہٹ سے امن دے دیا جائے گا،جنت سے صبح و شام اس کو رزق دیا جائے گا اور اس کے لیے قیامت کے دن تک رباط والے آدمی کا اجر لکھ دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4809

۔ (۴۸۰۹)۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَنَّہُ قَالَ: ((مَنْ حَرَسَ مِںْ وَرَائِ الْمُسْلِمِیْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی مُتَطَوِّعًا لا یَأْخُذُہُ سُلْطَانٌ، لَمْ یَرَ النَّارَ بِعَیْنَیْہِ إِلاَّ تَحِلَّۃَ الْقَسَمِ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: {وَ إِنْ مِنْکُمْ إِلاَّ وَارِدُھَا} [مریم: ۷۱])) (مسند أحمد: ۱۵۶۹۷)
۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے کے لیے پہرہ دیا اور اس کا یہ عمل نفلی طور پر ہو، نہ کہ سلطان کی طرف سے مجبوری کی بنا پر تو وہ اپنے آنکھوں سے آگ کو نہیں دیکھ سکے گا، ما سوائے قسم کو پورا کرنے کے لیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور نہیں ہے تم میں سے کوئی بھی، مگر اس آگ میں وارد ہونے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4810

۔ (۴۸۱۰)۔ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((کُلُّ مَیِّتٍ یُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِہِ إِلاَّ الَّذِيْ مَاتَ مُرَابِطًا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَإِنَّہُ یَنْمُوْا عَمَلُہُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَ یَأْمَنُ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۵۰)
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر میت کے عمل کو ختم کر دیا جاتا ہے، ما سوائے اس آدمی کے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں رباط کی حالت میں مرتا ہے، اس کا عمل تو قیامت کے دن تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے مامون رہتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4811

۔ (۴۸۱۱)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : مِثْلُہُ۔ (مسند أحمد: ۱۷۴۹۲)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی قسم کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4812

۔ (۴۸۱۲)۔ عَنْ أَبِيْ رَیْحَانَۃَ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِيْ غَزْوَۃٍ فَأَتَیْنَا ذَاتَ لَیْلَۃٍ إِلٰی شَرَفٍ فَبِتْنَا عَلَیْہِ فَأَصَابَنَا بَرْدٌ شَدِیْدٌ حَتّٰی رَأَیْتُ مَنْ یَحْفِرُ فِي الأرْضِ حُفْرَۃً یَدْخُلُ فِیْھَا یُلْقِي عَلَیْہِ الْحَجَفَۃَ،۔ یَعْنِي التُّرْسَ۔ فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ النَّاسِ، نَادٰی: ((مَنْ یَحْرُسُنَا فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ وَ أَدْعُوْ لَہُ بِدُعَائٍ یَکُوْنُ فِیْہِ فَضْلا؟)) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأنْصَارِ: أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! فَقَال: ((اُدْنُہْ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) فَتَسَمّٰی لَہُ الأنْصَارِيُّ، فَفَتَحَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالدُّعَائِ فَأَکْثَرَ مِنْہُ۔ قَالَ أَبُو رَیْحَانَۃَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ مَا دَعَا بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: أَنَا رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ((اُدْنُہْ۔)) فَدَنَوْتُ، فَقَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَبُوْ رَیْحَانَۃَ، فَدَعَا بِدُعَائٍ ھُوَ دُوْنَ مَا دَعَا لِلأنْصَارِيِّ ثُمَّ قَالَ: ((حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ دَمَعَتْ، أَوْ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَ حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ سَھِرَتْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) ((وَقَالَ)): حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ أُخْرٰی ثَالِثَۃٍ لَمْ یَسْمَعْھَا مُحَمَّدُ بْنُ سُمَیْرٍ۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہ: قَالَ أَبِيْ: وَ قَالَ غَیْرُہُ یَعْنِيْ غَیْرَ زَیْدٍ: أَبُوْ عَلِيِّ نِ الْجَنَبِيُّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۳۴۵)
۔ سیدنا ابو ریحانہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے، ہم ایک رات ایک ٹیلے پر آئے اور وہاں رات گزاری، لیکن وہاں اتنی سخت سردی تھی کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا وہ زمین میں گڑھا کھودتے اور اس میں داخل ہو کر اوپر ڈھال ڈال دیتے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ صورتحال دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آواز دی: اس رات کو ہمارا پہرہ کون دے گا، اس کے عوض میں اس کے لیے ایسی دعائیں کروں گا کہ ان میں فضیلت ہو گی؟ ایک انصاری نے کہا: جی میں پہرہ دوں گا اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ذرا قریب ہو جا۔ پس وہ قریب ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کون ہے؟ انصاری نے اپنا نام بتایا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے دعائیں کرنا شروع کیں اور بہت زیادہ کیں، جب میں ابو ریحانہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ دعائیں سنیں تو میں نے کہا: میں پہرہ دینے کے لیے دوسرا آدمی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ذرا قریب ہو جا۔ پس میں قریب ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کون ہے؟ میں نے کہا: میں ابو ریحانہ ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے بھی دعائیں تو دیں مگر وہ انصاری والی دعاؤں سے کم تھیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آنکھ پر آگ کو حرام قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کے ڈر کی وجہ سے روتی ہے اور اس آنکھ پر بھی آگ حرام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جاگتی ہے۔ راوی کہتا ہے: ایک اور آنکھ پر بھی آگ حرام تھی، لیکن محمد بن سمیر نے وہ حصہ نہیں سنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4813

۔ (۴۸۱۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ عَلَیْہِمْ، وَہُمْ جُلُوسٌ فَقَالَ: ((أَلَا أُحَدِّثُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ مَنْزِلَۃً؟)) فَقَالُوا: بَلٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((رَجُلٌ مُمْسِکٌ بِعِنَانِ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتَّی یَمُوتَ أَوْ یُقْتَلَ أَفَأُخْبِرُکُمْ بِالَّذِی یَلِیہِ؟)) قَالُوا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اِمْرُؤٌ مُعْتَزِلٌ فِی شِعْبٍ یُقِیمُ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَیَعْتَزِلُ شُرُورَ النَّاسِ، أَفَأُخْبِرُکُمْ بِشَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً؟)) قَالُوا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَلَّذِی یُسْأَلُ بِاللّٰہِ وَلَا یُعْطِی بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۱۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے، جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو بتاؤں کہ مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بہترین آدمی کون ہے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے، یہاں تک کہ وہ فوت جاتا ہے یا اس کو قتل کر دیا جاتا ہے، اچھا کیا میں تم کو اس شخص کے بارے میں بتلاؤں، جس کا مرتبہ اس کے بعد ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں الگ تھلگ ہو کر نماز قائم کرتا ہو اور زکاۃ ادا کرتا ہو اور لوگوں کے شرور سے دور ہو گیا ہو، اب کیا میں تم کو بتاؤں کہ بدترین مرتبہ کس کا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کیا جاتا ہے ، لیکن وہ پھر بھی نہیں دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4814

۔ (۴۸۱۴)۔ عن ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ خَطَبَ النَّاسَ بِتَبُوکَ: ((مَا فِی النَّاسِ مِثْلُ رَجُلٍ آخِذٍ بِرَأْسِ فَرَسِہِ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَیَجْتَنِبُ شُرُورَ النَّاسِ وَمِثْلُ آخَرَ بَادٍ فِی نِعْمَۃٍ یَقْرِی ضَیْفَہُ وَیُعْطِی حَقَّہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۸۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس دن تبوک میں لوگوں سے خطاب کیا تھا، اس میں یہ بھی فرمایا تھا: لوگوں میں اس آدمی کی مثل کوئی نہیں ہے، جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑ کر اور لوگوں کے شرور سے اجتناب کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کر رہا ہو، اور وہ آدمی بھی بے مثال ہے، جو دیہات میں نعمتوں میں رہ رہا ہو، مہمان کی ضیافت کرتا ہو اور اپنا حق ادا کرتا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4815

۔ (۴۸۱۵)۔ مَالِکُ بْنُ یَخَامِرَ: أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَہُ وَقَالَ: رَوْحٌ حَدَّثَہُمْ: أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، (وَقَالَ رَوْحٌ: قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ) مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فُوَاقَ نَاقَۃٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، وَمَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہِ صَادِقًا ثُمَّ مَاتَ أَوْ قُتِلَ فَلَہُ أَجْرُ الشُّہَدَائِ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَوْ نُکِبَ نَکْبَۃً فَإِنَّہَا تَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَغْزَرِ مَا کَانَتْ، (وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: کَأَغَزِّ، وَرَوْحٌ کَأَغْزَرِ، وَحَجَّاجٌ: کَأَعَزِّ) مَا کَانَتْ لَوْنُہَا کَالزَّعْفَرَان، وَرِیحُہَا کَالْمِسْکِ، وَمَنْ جُرِحَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَعَلَیْہِ طَابَعُ الشُّہَدَائِ۔))(وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: کَأَغْزَرِ، وَرُوْحٌ: کَأَغَرِّ، وَحَجَّاجٌ: کَأَغَرِّ) (مسند أحمد: ۲۲۴۶۷)
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اونٹنی کے فَوَاق کے برابر جہاد کیا، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی، (فَوَاق سے مراد اتنا وقت ہے، جس میں اونٹنی اپنا دودھ دوہنے والے کے لیے اتار دیتی ہے) اور جس نے سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت کا سوال کیا اور پھر وہ طبعی موت مرا یا شہید ہوا، بہرحال اس کو شہید کا ہی اجر ملے گا، جس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخم لگا یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہوا تو وہ زخم قیامت والے اس طرح ہو گا کہ اس سے زیادہ خون بہنے والا ہو گا، اس کا رنگ زعفران کی طرح ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی طرح ہو گی اور جس کو اللہ کی راہ میں زخم لگے گا، اس پر شہداء کی مہر ہو گی۔ اَغْزَر اور اَغَرّ کا ایک ہی معنی ہے، صرف راویوں کا اختلاف ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4816

۔ (۴۸۱۶)۔عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلَیْنِ، رَجُلٍ ثَارَ عَنْ وِطَائِہِ وَلِحَافِہِ مِنْ بَیْنِ أَہْلِہِ وَحَیِّہِ إِلٰی صَلَاتِہِ، فَیَقُولُ رَبُّنَا: یَا مَلَائِکَتِی انْظُرُوْا إِلٰی عَبْدِی ثَارَ مِنْ فِرَاشِہِ وَوِطَائِہِ وَمِنْ بَیْنِ حَیِّہِ وَأَہْلِہِ إِلٰی صَلَاتِہِ، رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی، وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی، وَرَجُلٍ غَزَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَانْہَزَمُوْا فَعَلِمَ مَا عَلَیْہِ مِنْ الْفِرَارِ، وَمَا لَہُ فِی الرُّجُوعِ، فَرَجَعَ حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ، رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی، وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی، فَیَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلَائِکَتِہِ: انْظُرُوْا إِلَی عَبْدِی، رَجَعَ رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی، وَرَہْبَۃً مِمَّا عِنْدِی، حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ۔)) (مسند أحمد: ۳۹۴۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارا ربّ کو دوآدمیوں پر تعجب ہوتا ہے، ایک وہ آدمی جو اپنے بچھونے، لحاف، بیوی اور قبیلے کے درمیان سے اٹھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اے فرشتو! میرے اس بندے کی طرف دیکھو، وہ نماز کے لیے اپنے بستر، بچھونے، قبیلے اور بیوی کے پاس سے کھڑا ہو گیا ہے، اس چیز کی رغبت کے لیے جو میرے پاس ہے اور اس چیز سے ڈرتے ہوئے جو میرے پاس ہے اور دوسرا وہ آدمی کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا، ہوا یوں کہ اس کا لشکر شکست گیا، لیکن جب اسے یہ معلوم ہو اکہ بھاگ جانے میں کتنا گناہ ہے اور دشمن کی طرف لوٹ جانے میں کتنا ثواب ہے تو وہ دشمن کی طرف پلٹ پڑا، یہاں تک کہ اس کا خون بہا دیا گیا، اس کا یہ اقدام اس چیز کی رغبت کے لیے تھے، جو میرے پاس ہے اور اس چیز سے بچنے کے لیے تھا، جو میرے پاس ہے، پس اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: میرے بندے کی طرف دیکھو، وہ میری انعامات کی رغبت کی بنا پر اور میرے عذاب سے ڈرتے ہوئے لوٹ آیا، یہاں تک کہ اس کا خون بہادیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4817

۔ (۴۸۱۷)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، کَمَثَلِ الصَّائِمِ نَہَارَہُ وَالْقَائِمِ لَیْلَہُ حَتّٰی یَرْجِعَ مَتٰی یَرْجِعُ)) (مسند أحمد: ۱۸۵۹۱)
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے، یہاں تک کہ مجاہد لوٹ آئے، وہ جب بھی لوٹے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4818

۔ (۴۸۱۸)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ: قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ رَمٰی بِسَھْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَلَغَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، کَانَ کَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۱۴۵)
۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے تیر پھینکا اور وہ پہنچ گیا،وہ اپنے نشانے پر لگا یا نہ لگا، تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا، جس نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک گردن آزاد کی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4819

۔ (۴۸۱۹)۔ عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ: قَالَ لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ: یَا کَعْبُ بْنَ مُرَّۃَ! حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((اِرْمُوا أَہْلَ صُنْعٍ، مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَہْمٍ رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہِ دَرَجَۃً۔)) قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی النَّحَّامِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا الدَّرَجَۃُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمَا إِنَّہَا لَیْسَتْ بِعَتَبَۃِ أُمِّکَ وَلٰکِنَّہَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ مِائَۃُ عَامٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۲۳۰)
۔ سیدنا شرحبیل بن سمط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا کعب بن مرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے کعب بن مرہ! ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی حدیث بیان کرو، لیکن احتیاط کرنا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ہنر مندو! تیر پھینکو، جس کا تیر دشمن تک پہنچ گیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ بلند کر دے گا۔ سیدنا عبد الرحمن بن ابی نحام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! درجہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ درجہ تیری اماں جان کی دہلیز نہیں ہے، بلکہ دو درجوں کے درمیان سو برسوں کی مسافت جتنا فاصلہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4820

۔ (۴۸۲۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیمَا یَحْکِی عَنْ رَبِّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَالَ: ((أَیُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِی خَرَجَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِی ابْتِغَائَ مَرْضَاتِی، ضَمِنْتُ لَہُ أَنْ أُرْجِعَہُ بِمَا أَصَابَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِیمَۃٍ، وَإِنْ قَبَضْتُہُ أَنْ أَغْفِرَ لَہُ وَأَرْحَمَہُ وَأُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند أحمد: ۵۹۷۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا: میرا جو بندہ میری رضامندی کی تلاش میں میرے راستے میںجہاد کرنے کے لیے نکلتا ہے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ اگر میں نے اس کو لوٹایا تو اجر اور غنیمت کے ساتھ لوٹاؤں گا اور اگر اس کی روح قبض کر لی تو اس کو بخش دوں گا، اس پر رحم کروں گا اور اس کو جنت میں داخل کر دوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4821

۔ (۴۸۲۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَھُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۰۱۰)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کے پاؤں اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو گئے، وہ آگ پر حرام ہو جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4822

۔ (۴۸۲۲)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فُوَاقَ نَاقَۃٍ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلٰی وَجْہِہِ النَّارَ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶۷۴)
۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس اونٹنی کے فَواق کی مقدار کے برابر اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اللہ تعالیٰ آگ کو اس کے چہرے کے لیے حرام کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4823

۔ (۴۸۲۳)۔ عَنْ اَنَسٍ: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قاَلَ: ((لَغَدْوَۃٌ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِکُمْ، أَوْ مَوْضِعُ قَدِّہِ یَعْنِی سَوْطَہُ مِنْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، وَلَوِ اطَّلَعَتْ امْرَأَۃٌ مِنْ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ إِلٰی الْأَرْضِ لَمَلَأَتْ مَا بَیْنَہُمَا رِیحًا، وَلَطَابَ مَا بَیْنَہُمَا وَلَنَصِیفُہَا عَلٰی رَأْسِہَا، خَیْرٌ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۲۴۶۳)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبح کے وقت یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے، کسی کی کمان یا کوڑے کی مقدار کے برابر کی جنت میں جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اگر اہل جنت کی بیویوں میں سے ایک بیوی زمین کی طرف جھانکے تو زمین و آسمان کے درمیان کے خلا کو خوشبو سے بھر دے گی اور اس میں موجود سب چیزوں کو طیّب بنا دے گی، جنتی خاتون کا دوپٹہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبح کے وقت یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے، کسی کی کمان یا کوڑے کی مقدار کے برابر کی جنت میں جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اگر اہل جنت کی بیویوں میں سے ایک بیوی زمین کی طرف جھانکے تو زمین و آسمان کے درمیان کے خلا کو خوشبو سے بھر دے گی اور اس میں موجود سب چیزوں کو طیّب بنا دے گی، جنتی خاتون کا دوپٹہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4824

۔ (۴۸۲۴)۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدِ نِ السَّاعَدِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہٗ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۴۵)
۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4825

۔ (۴۸۲۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّ بِشِعْبٍ فِیہِ عَیْنٌ عَذْبَۃٌ قَالَ: فَأَعْجَبَتْہُ یَعْنِی طِیبَ الشِّعْبِ، فَقَالَ: لَوْ أَقَمْتُ ہَاہُنَا وَخَلَوْتُ ثُمَّ قَالَ: لَا، حَتّٰی أَسْأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَأَلَہُ فَقَالَ: ((مَقَامُ أَحَدِکُمْ یَعْنِی فِی سَبِیلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ أَحَدِکُمْ فِی أَہْلِہِ سِتِّینَ سَنَۃً، أَمَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَتَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ، جَاہِدُوْا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فُوَاقَ نَاقَۃٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ۔)) (مسند أحمد: ۹۷۶۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اصحابِ رسول میں سے ایک آدمی ایک گھاٹی،جس میں میٹھے پانی کا چشمہ تھا، کے پاس سے گزرا، اس کی خوشبو اسے بڑی اچھی لگی۔ وہ (دل میں) کہنے لگا: اگر میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اسی گھاٹی میں فروکش ہو جاؤں تو … لیکن میں پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشورہ کروں گا۔ جب اس نے یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ایسے نہیںکرنا، کیونکہ) اللہ کے راستے میں تمھارا ٹھہرنا اپنے اہل میں ساٹھ سالوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں بخش دیں اور تمھیں جنت میں داخل کر دیں! اللہ کے راستے میںجہاد کرو، جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دو بار دوہنے کی درمیانی مدت کے برابر جہاد کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4826

۔ (۴۸۲۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَلِجُ النَّارَ أَحَدٌ بَکٰی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حَتّٰی یَعُودَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی مَنْخِرَیْ امْرِئٍ أَبَدًا۔)) وَقَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اَلْمُقْرِیئ: ((فِی مَنْخِرَیْ مُسْلِمٍ أَبَدًا۔)) (مسند أحمد: ۱۰۵۶۷)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی ایسا آدمی آگ میں داخل نہیں ہو گا، جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے رو پڑا، یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس آ جائے، کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے راستے کاغبار اور جہنم کا دھواں ایک آدمی کے دو نتھنوں میں جمع نہیں ہو سکے گا۔ ابو عبد الرحمن راوی نے کہا: مسلمان کے دو نتھنوں میں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4827

۔ (۴۸۲۷)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَجْتَمِعُ فِي النَّارِ مَنْ قَتَلَ کَافِرًا ثُمَّ سَدَّدَ بَعْدَہٗ۔)) (مسند أحمد: ۷۵۶۵)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے کافر کو قتل کیا اور پھر راہِ صواب پر چلتارہا، وہ آگ میں نہیں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4828

۔ (۴۸۲۸)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ الْعَلَائِ، عَنْ أَبِیْہٖ، عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ، اَنَّ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَجْتَمِعُ الْکَافِرُ وَ قَاتِلُہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِي النَّارِ أَبَدًا)) (مسند أحمد: ۸۸۰۲)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر اور اس کا مسلمان قاتل جہنم میں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4829

۔ (۴۸۲۹)۔ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی وَہُوَ بِحَضْرَۃِ الْعَدُوِّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّۃِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوفِ)) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْہَیْئَۃِ فَقَالَ: یَا أَبَا مُوسٰی! آنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلٰی أَصْحَابِہِ فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَیْکُمُ السَّلَامَ، ثُمَّ کَسَرَ جَفْنَ سَیْفِہِ فَأَلْقَاہُ ثُمَّ مَشٰی بِسَیْفِہِ فَضَرَبَ بِہِ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند أحمد: ۱۹۷۶۷)
۔ ابو بکر بن عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو یوں کہتے ہوئے سنا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: جنت کے دروازے تلواروں کے سائیوں تلے ہیں۔ پراگندہ حالت والا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے ابو موسی! کیا تم نے یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، پس وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور کہا: میں تم لوگوں کو سلام کہتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کا میان توڑ کر پھینک دیا اور اپنی تلوار لے کر چل پڑا اور اس کے ذریعے دشمنوںکو مارنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ وہ خود شہید ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4830

۔ (۴۸۳۰)۔ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ یَرْفَعُ الْحَدِیثَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ فِی جَوْفِ رَجُلٍ غُبَارًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَدُخَانَ جَہَنَّمَ، وَمَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ سَائِرَ جَسَدِہِ عَلَی النَّارِ، وَمَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ بَاعَدَ اللّٰہُ عَنْہُ النَّارَ مَسِیرَۃَ أَلْفِ سَنَۃٍ لِلرَّاکِبِ الْمُسْتَعْجِلِ، وَمَنْ جُرِحَ جِرَاحَۃً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ خَتَمَ لَہُ بِخَاتَمِ الشُّہَدَائِ، لَہُ نُورٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْنُہَا مِثْلُ لَوْنِ الزَّعْفَرَانِ وَرِیحُہَا مِثْلُ رِیحِ الْمِسْکِ، یَعْرِفُہُ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، یَقُولُونَ فُلَانٌ عَلَیْہِ طَابَعُ الشُّہَدَائِ، وَمَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فُوَاقَ نَاقَۃٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ)) (مسند أحمد: ۲۸۰۵۲)
۔ سیدنا ابودرداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے پیٹ میں راہِ خدا کا غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں کرے گا، جس کے پاؤں اللہ کے راستے میں خاک آلود ہو گئے، اللہ تعالیٰ اس کے باقی جسم پر بھی آگ کو حرام کر دے گا، جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو ایک ہزار سال کی مسافت آگ سے دور کر دے گا، جبکہ اس عرصے میں مسافت طے کرنے والا جلدی چلنے والا سوار ہو، جس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخم لگا، اس پر شہداء کی مہر لگا دی جائے گی، وہ زخم اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا، اس کا رنگ زعفران کی طرح کا اور خوشبو کستوری کی طرح کی ہو گی، اگلے پچھلے اس کو پہنچان لیں گے، لوگ کہیں گے: فلاں آدمی پر شہداء کی مہر ہے اور جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دو بار دوہنے کی درمیانی مدت کے برابر جہاد کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4831

۔ (۴۸۳۱)۔ عَنْ أَبَی الْمُصَبِّحِ الْأَوْزَاعِیَّ حَدَّثَہُمْ قَالَ: بَیْنَا نَسِیرُ فِی دَرْبِ قَلَمْیَۃَ إِذْ نَادَی الْأَمِیرُ مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْخَثْعَمِیَّ رَجُلٌ یَقُودُ فَرَسَہُ فِی عِرَاضِ الْجَبَلِ یَا أَبَا عَبْدِاللّٰہِ! أَلَا تَرْکَبُ؟ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ فَہُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ)) (مسند أحمد: ۲۲۳۰۸)
۔ ابو مصبّح اوزاعی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ملک ِ روم کے قلمیہ علاقے میں داخل ہونے والے کھلے راستے پر چل رہے تھے کہ مالک بن عبد اللہ خثعمی، جو کہ امیر تھے، نے ایک آدمی کو آواز دی، وہ پہاڑ کے دامن میں چل رہا تھا، اس امیر نے کہا: اے ابو عبداللہ! کیا تو سوار نہیں ہوتا؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی کے دو پاؤں اللہ کے راستے میں دن کے کچھ وقت میں خاک آلود ہو گئے، اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4832

۔ (۴۸۳۲)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْخَثْعَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ)) (مسند أحمد: ۲۲۳۰۹)
۔ سیدنا مالک بن عبد اللہ خثعمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے دو پاؤں اللہ کے راستے میں خاک آلود ہو گئے، اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4833

۔ (۴۸۳۳)۔ حَدَّثَنَا سَہْلٌ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ أَمَرَ أَصْحَابَہُ بِالْغَزْوِ، وَأَنَّ رَجُلًا تَخَلَّفَ وَقَالَ لِأَہْلِہِ: أَتَخَلَّفُ حَتّٰی أُصَلِّیَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ، ثُمَّ أُسَلِّمَ عَلَیْہِ وَأُوَدِّعَہُ فَیَدْعُوَ لِی بِدَعْوَۃٍ تَکُونُ شَافِعَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَلَمَّا صَلَّی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْبَلَ الرَّجُلُ مُسَلِّمًا عَلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَتَدْرِی بِکَمْ سَبَقَکَ أَصْحَابُکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، سَبَقُونِی بِغَدْوَتِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ! لَقَدْ سَبَقُوکَ بِأَبْعَدِ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقَیْنِ وَالْمَغْرِبَیْنِ فِی الْفَضِیلَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۷۰۷)
۔ سہل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک غزوے کا حکم دیا، ان میں سے ایک آدمی پیچھے رہ گیا اور اس نے اپنے گھر والوں سے کہا: میرا پیچھے رہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ ظہر ادا کر لوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہہ کر الوداع کر دوں گا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے حق میں ایسی دعا کر دیں گے، جو قیامت کے دن میرے لیے باعث ِ سفارش ہو گی، پس جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز ادا کی اور وہ آدمی سلام کہتے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تو جانتا ہو کہ وہ لوگ تجھے سے کتنی سبقت لے جا چکے ہیں۔ اس نے کہا: جی ہاں، وہ صبح کے وقت نکلے ہیں (اور میں اب ظہر کے بعدنکل جاؤں گا)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ فضیلت و عظمت میں تجھ سے اتنی سبقت لے جا چکے ہیں، جو دونوں مشرقوں اوردونوں مغربوں کی مسافت سے بھی زیادہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4834

۔ (۴۸۳۴)۔ عَنْ سَھْلٍ، عَنْ أَبِیْہٖ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْہُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! انْطَلَقَ زَوْجِی غَازِیًا وَکُنْتُ أَقْتَدِی بِصَلَاتِہِ إِذَا صَلَّی وَبِفِعْلِہِ کُلِّہِ فَأَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُبْلِغُنِی عَمَلَہُ حَتّٰی یَرْجِعَ، فَقَالَ لَہَا: ((أَتَسْتَطِیعِینَ أَنْ تَقُومِی وَلَا تَقْعُدِی، وَتَصُومِی وَلَا تُفْطِرِی، وَتَذْکُرِی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَلَا تَفْتُرِی حَتّٰی یَرْجِعَ؟)) قَالَتْ: مَا أُطِیقُ ہَذَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ طُوِّقْتِیہِ مَا بَلَغْتِ الْعُشْرَ مِنْ عَمَلِہِ حَتّٰی یَرْجِعَ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۷۱۸)
۔ سہل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے خاوند جہاد کے لیے روانہ ہو گئے ہیں، جبکہ میں ان کی نماز کی اقتدا کرتے ہوئے نماز پڑھتی تھی اور وہ جو نیک عمل کرتے تھے، میں بھی اس کو سرانجام دیتی تھی، اب آپ مجھے ایسا عمل بتائیں، جو مجھے ان کے عمل کے درجے تک پہنچا دے، یہاں تک کہ وہ لوٹ آئیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو یہ طاقت رکھتی ہے کہ قیام کرتی رہے اور وقفہ نہ کرے، روزے رکھتی رہے اور افطار نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی رہے اور اس میں سستی کا مظاہرہ نہ کرے، یہاں تک کہ تیرا خاوند لوٹ آئے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو اس عمل کی طاقت نہیں رکھتی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تجھے اس کی طاقت ہوتی بھی تو تب بھی تو اپنے خاوند کے عمل کے دسویں حصے تک بھی نہ پہنچ پاتی، یہاں تک وہ لوٹ آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4835

۔ (۴۸۳۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَبْدَاللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فِی سَرِیَّۃٍ فَوَافَقَ ذٰلِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، قَالَ: فَقَدَّمَ أَصْحَابَہُ، وَقَالَ: أَتَخَلَّفُ فَأُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْجُمُعَۃَ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ، قَالَ: فَلَمَّا رَآہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مَنَعَکَ أَنْ تَغْدُوَ مَعَ أَصْحَابِکَ؟)) قَالَ: فَقَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّیَ مَعَکَ الْجُمُعَۃَ ثُمَّ أَلْحَقَہُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ مَا أَدْرَکْتَ غَدْوَتَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعبد اللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک لشکر میں بھیجا، یہ جمعہ کا دن تھا، انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھیج دیا اور اپنے بارے میں کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں، تاکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر لوں، پھر ان کو جا ملوں گا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا: کس چیز نے تجھے صبح کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جانے سے روک لیا؟ انھوں نے کہا: جی میرا ارادہ یہ تھا کہ آپ کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر کے ان کو جا ملوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین میں جو کچھ ہے، اگر تو وہ سارا کچھ خرچ کر دے تو ان کے صبح کو روانہ ہو جانے والے اجر کو نہیں پا سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4836

۔ (۴۸۳۶)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ: أَنَّ سَلَمَۃَ بْنَ نُفَیْلٍ أَخْبَرَہُمْ، أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنِّی سَئِمْتُ الْخَیْلَ وَأَلْقَیْتُ السِّلَاحَ وَوَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا، قُلْتُ: لَا قِتَالَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْآنَ جَائَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاہِرِینَ عَلَی النَّاسِ، یَرْفَعُ اللّٰہُ قُلُوبَ أَقْوَامٍ فَیُقَاتِلُونَہُمْ، وَیَرْزُقُہُمْ اللّٰہُ مِنْہُمْ حَتّٰی یَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، أَلَا إِنَّ عُقْرَ دَارِ الْمُؤْمِنِیْنَ الشَّامُ، وَالْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِيْ نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۰۹۰)
۔ سیدنا سلمہ بن نفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: میں گھوڑے سے اکتا گیا ہوں، اسلحہ پھینک دیا ہے اور جنگ نے اپنے بوجھ رکھ دیئے ہیں اور جہاد ختم ہو گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تو قتال شروع ہوا ہے، میری امت کا ایک گروہ لوگوں پر غالب رہے گا، اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل ٹیڑھے کرتا رہے گا ، پس یہ ان سے جہاد کرتے رہیں گے، اس طرح اللہ تعالیٰ اُن سے اِن کو رزق دیتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے گا اور وہ گروہ اسی حالت میں ہو گا، خبردار! ایمان والوں کا اصل مرکز شام ہو گا اور قیامت کے دن تک گھوڑے کی پیشانی میں خیر رکھ دی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4837

۔ (۴۸۳۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ أَنَّہَا قَالَتْ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَائِلًا فِی بَیْتِی إِذِ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی أَنْتَ مَا یُضْحِکُکَ؟ فَقَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ظَہْرَ ہٰذَا الْبَحْرِ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ نَامَ أَیْضًا فَاسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی مَا یُضْحِکُکَ؟ قَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِینَ۔)) فَغَزَتْ مَعَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَکَانَ زَوْجَہَا فَوَقَصَتْہَا بَغْلَۃٌ لَہَا شَہْبَائُ فَوَقَعَتْ فَمَاتَتْ۔ (مسند أحمد: ۲۷۵۷۲)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں قیلولہ کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو آپ مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے، وہ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اوّلین لوگوں میں سے ہو۔ پھر سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے خاوند سیدنا عبادہ بن صامت کے ساتھ اس غزوے کے لیے نکلیں، سیاہی ملی ہوئی سفید رنگ کی خچر نے ان کو اس طرح گرایا کہ ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4838

۔ (۴۸۳۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: اِتَّکَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ابْنَۃِ مِلْحَانَ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَضَحِکَ، فَقَالَتْ: مِمَّ ضَحِکْتَ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((مِنْ أُنَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ غُزَاۃً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: اُدْعُ اللّٰہَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) فَنَکَحَتْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: فَرَکِبَتْ فِی الْبَحْرِ مَعَ ابْنِہَا قَرَظَۃَ حَتّٰی إِذَا ہِیَ قَفَلَتْ رَکِبَتْ دَابَّۃً لَہَا بِالسَّاحِلِ، فَوَقَصَتْ بِہَا فَسَقَطَتْ فَمَاتَتَْ۔ (مسند أحمد: ۱۳۸۲۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنت ِ ملحان کے پاس ٹیک لگائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسکراتے ہوئے سر مبارک اٹھایا، سیدہ بنت ِ ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میری امت کے کچھ لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، ان کی مثال تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ پھر اس خاتون نے سیدہ عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شادی کر لی اور اپنے بیٹے قرظہ کے ساتھ سمندری سفر شروع کیا، واپسی پر جب وہ ساحل کے پاس اپنی ایک سواری پر سوار ہوئی تو اس نے اس کو یوں گرایا کہ اس کی گردن ٹوٹ گئی، سو وہ گری اور فوت ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4839

۔ (۴۸۳۹)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَۃً حَدَّثَتْہُ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ مِنِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، مَثَلُہُمْ مَثَلُ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ أَیْضًا یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ مِنِّی؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، فَیَرْجِعُونَ قَلِیلَۃً غَنَائِمُہُمْ، مَغْفُورًا لَہُمْ۔)) قَالَتْ: ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَدَعَا لَہَا، قَالَ: فَأَخْبَرَنِی عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ قَالَ: فَرَأَیْتُہَا فِی غَزَاۃٍ غَزَاہَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَیْرِ إِلٰی أَرْضِ الرُّوْمِ، ہِیَ مَعَنَا فَمَاتَتْ ِأَرْضِ الرُّومِ۔ (مسند أحمد: ۲۸۰۰۱)
۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک خاتون نے اس کو بیان کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے، پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھ پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری مسکراہٹ کی وجہ یہ ہے کہ میری امت میں سے ایک قوم بحری جہاد کر رہی ہے، اس کی مثال تختوں پر بیٹھے بادشاہوں کی سی ہے۔ اس نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ میری وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری امت کی ایک قوم جہاد کرنے کے لیے سمندری سفر پر روانہ ہو رہی ہے، پھر جب وہ لوٹے گی تو اس کی غنیمت تو تھوڑی ہو گی، لیکن اس کو بخشا جا چکا ہو گا۔ میں نے کہا: تو پھر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے دعا کی، راوی کہتے ہیں: عطاء بن یسار نے مجھے بتلایا کہ اس نے اس خاتون کو اس غزوے میں دیکھا، سیدنا منذر بن زبیر نے روم کی سرزمین کی طرف یہ غزوہ کیا تھا، یہ خاتون ہمارے ساتھ تھی اور وہ روم کے علاقے میں فوت ہو گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4840

۔ (۴۸۴۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ بَعْضِ نِسَائِہِ، إِذْ وَضَعَ رَأْسَہُ فَنَامَ فَضَحِکَ فِی مَنَامِہِ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ، قَالَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ نِسَائِہِ: لَقَدْ ضَحِکْتَ فِی مَنَامِکَ فَمَا أَضْحَکَکَ؟ قَالَ: ((أَعْجَبُ مِنْ نَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ ہَوْلَ الْعَدُوِّ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) فَذَکَرَ لَہُمْ خَیْرًا کَثِیرًا۔ (مسند أحمد: ۲۷۲۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی بیوی کے گھر موجود تھے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر رکھا اور سو گئے اور نیند میں مسکرائے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو اس ام المؤمنین نے کہا: آپ اپنی نیند میں مسکرائے ہیں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے ان لوگوں پر تعجب ہو رہا ہے، جو دشمن کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اس سمندر کا سفر کریں گے، وہ راہِ خدا میں جہاد کر رہے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں بڑی بھلائی کا ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4841

۔ (۴۸۴۱)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَتِیکٍ، أَحَدِ بَنِی سَلِمَۃَ، عَنْ أَبِیہِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَتِیکٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) ثُمَّ قَالَ: بِأَصَابِعِہِ ہٰؤُلَائِ الثَّلَاثِ الْوُسْطٰی وَالسَّبَّابَۃِ وَالْإِبْہَامِ فَجَمَعَہُنَّ وَقَالَ: وَأَیْنَ الْمُجَاہِدُونَ؟ ((فَخَرَّ عَنْ دَابَّتِہِ فَمَاتَ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، أَوْ لَدَغَتْہُ دَابَّۃٌ فَمَاتَ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ، أَوْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِہِ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) وَاللّٰہِ! إِنَّہَا لَکَلِمَۃٌ مَا سَمِعْتُہَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ قَبْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَمَاتَ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمَنْ مَاتَ قَعْصًا فَقَدِ اسْتَوْجَبَ الْمَآبَ)) (مسند أحمد: ۱۶۵۲۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عتیک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اپنے گھر سے راہِ خدا میں جہاد کرنے کے لیے نکلا پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی تین انگلیوں یعنی درمیانی انگلی، شہادت والی انگلی اور انگوٹھے سے (اس کی جان، اسلحہ اور گھوڑے کی طرف) اشارہ کیا، اس آدمی نے کہا: اور مجاہدین کہاں ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن وہ آدمی اپنی سواری سے گرا اور فوت ہو گیا، اللہ تعالیٰ پر اس کا اجر ثابت ہو گیا، یا کسی جانور نے اس ڈس لیا، پھر بھی اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ثابت ہو گیا، یا وہ طبعی موت فوت ہو گیا، پھر بھی اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر واقع ہو گیا۔ راوی کہتاہے: اللہ کی قسم! یہ ایسا کلمہ ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے میں نے کسی عرب سے نہیں سنا، اور جو مجاہد کسی ضرب کی وجہ سے فوت ہو گیا، اس نے اپنے لیے اچھی پناہ گاہ (یعنی جنت) واجب کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4842

۔ (۴۸۴۲)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((الْغَزْوُ غَزْوَانِ، فَأَمَّا مَنْ ابْتَغٰی وَجْہَ اللّٰہِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ،وَأَنْفَقَ الْکَرِیمَۃَ وَیَاسَرَ الشَّرِیکَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ،فَإِنَّ نَوْمَہُ وَنُبْہَہُ أَجْرٌ کُلُّہُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِیَائً وَسُمْعَۃً وَعَصَی الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِی الْأَرْضِ فَإِنَّہُ لَمْ یَرْجِعْ بِالْکَفَافِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۳۹۲)
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد کی دو قسمیں ہیں، (۱) جو آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی تلاش کرتا ہے، امیر کی اطاعت کرتا ہے، عمدہ مال خرچ کرتا ہے، اپنے ساتھی پر آسانی کرتا ہے اور فساد سے گریز کرتا ہے، ایسے آدمی کا سونا اور جاگنا، غرضیکہ ہر چیز باعث ِ اجر ہے۔ (۲) جس نے فخر اور ریاکاری کرتے ہوئے جہاد کیا، امیر کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد برپا کیا، وہ تو برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4843

۔ (۴۸۴۳)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ غَزَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَہُوَ لَا یَنْوِیْ فِیْ غَزَاتِہٖ اِلَّا عِقَالًا فَلَہٗ مَا نَوٰی)) (مسند أحمد: ۲۳۰۶۸)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے راہِ خدا میں جہاد کیا، جبکہ اس کی نیت صرف ایک رسی کا حصول تھا تو اس کو وہی کچھ ملے گا، جو اس نے نیت کی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4844

۔ (۴۸۴۴)۔ عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! رَأَیْتَ الرَّجُلَ یُقَاتِلُ شُجَاعَۃً، وَیُقَاتِلُ حَمْیَۃً، وَیُقَاتِلُ رِیَائً، فَأَیُّ ذٰلِکَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا، فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۷۷۲)
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک آدمی بہادری کا اظہار کرنے کے لیے، ایک حمیت کی خاطر اور ایک ریاکاری کرنے کے لیے قتال کرتا ہے، ان میں راہِ خدا میں کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس مقصد کے لیے قتال کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جائے، وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4845

۔ (۴۸۴۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الرَّجُلُ یُرِیدُ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَہُوَ یَبْتَغِی عَرَضَ الدُّنْیَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا أَجْرَ لَہُ۔)) فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذٰلِکَ وَقَالُوْا لِلرَّجُلِ: عُدْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَعَلَّہُ لَمْ یَفْہَمْ، فَعَادَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ الرَّجُلُ یُرِیدُ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَہُوَ یَبْتَغِی عَرَضَ الدُّنْیَا؟، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا أَجْرَ لَہُ۔)) ثُمَّ عَادَ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا أَجْرَ لَہُ)) (مسند أحمد: ۷۸۸۷)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک آدمی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے، لیکن وہ بیچ میں دنیا کا ساز و سامان بھی حاصل کرنا چاہتا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔ جب لوگوں پر یہ بات گراں گزری تو انھوں نے اس آدمی سے کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دوبارہ سوال کر، شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیرا سمجھ نہیں پائے، اس نے دوبارہ سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں کہہ رہا ہوں کہ ایک آدمی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے، لیکن وہ دنیوی ساز و سامان بھی تلاش کرنا چاہتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔ اس آدمی تیسری بار سوال دوہرا دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہی جواب دیتے ہوئے فرمایا: (میں کہہ تو رہا ہوں کہ) اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4846

۔ (۴۸۴۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ غَازِیَۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَیُصِیبُونَ غَنِیمَۃً إِلَّا تَعَجَّلُوا ثُلُثَیْ أَجْرِہِمْ مِنَ الْآخِرَۃِ، وَیَبْقٰی لَہُمُ الثُّلُثُ، فَإِنْ لَمْ یُصِیبُوا غَنِیمَۃً تَمَّ لَہُمْ أَجْرُہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۵۷۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو جماعت راہِ خدا میں قتال کرتی ہے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کر لیتی ہے تو وہ آخرت میں ملنے والے اجر کا دو تہائی وصول کر لینے میںجلدی کر لیتی ہے، ایک تہائی اجر باقی رہ جاتا ہے اور اگر وہ مالِ غنیمت حاصل نہ کر سکیں تو ان کے لیے آخرت کا اجر پورا ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4847

۔ (۴۸۴۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: شَہِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ خَیْبَرَ، فَقَالَٔٔ یَعْنِی لِرَجُلٍ یَدَّعِی الْإِسْلَامَ: ((ہٰذَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ۔)) فَلَمَّا حَضَرْنَا الْقِتَالَ، قَاتَلَ الرَّجُلُ قِتَالًا شَدِیدًا، فَأَصَابَتْہُ جِرَاحَۃٌ، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الرَّجُلُ الَّذِی قُلْتَ لَہُ إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، فَإِنَّہُ قَاتَلَ الْیَوْمَ قِتَالًا شَدِیدًا وَقَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِلَی النَّارِ۔)) فَکَادَ بَعْضُ النَّاسِ أَنْ یَرْتَابَ، فَبَیْنَمَا ہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، إِذْ قِیلَ: فَإِنَّہُ لَمْ یَمُتْ وَلٰکِنْ بِہِ جِرَاحٌ شَدِیدٌ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ اللَّیْلِ لَمْ یَصْبِرْ عَلَی الْجِرَاحِ فَقَتَلَ نَفْسَہُ، فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذٰلِکَ، فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنِّی عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَنَادٰی فِی النَّاسِ: ((أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ، وَأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُؤَیِّدُ ہٰذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ)) (مسند أحمد: ۸۰۷۶)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خیبر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسلام کا دعوی کرنے والے ایک شخص کے بارے میں فرمایا: یہ جہنمی ہے۔ جب ہم نے لڑنا شروع کیا، تو اس شخص نے بڑی سخت لڑائی لڑی اور وہ زخمی بھی ہو گیا، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! جس شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے، اس نے تو آج بڑی سخت لڑائی لڑی ہے اور اب تو وہ وفات پا چکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آگ کی طرف گیا ہے۔ قریب تھا کہ اس فرمان کی وجہ سے بعض لوگ شک و شبہ میں پڑ جائیں، بہرحال لوگ اسی حالت میں تھے کہ کسی نے کہا: وہ آدمی ابھی تک مرا نہیںہے، البتہ بڑا سخت زخمی ہو چکا ہے، جب رات ہوئی تو وہ شخص زخم پر صبر نہ کر سکا اور اس نے خود کشی کر لی، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کے بارے میں بتلایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اَللَّہُ أَکْبَر، میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا اور انھوں نے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ بیشک صورتحال یہ ہے کہ صرف مسلمان جان جنت میں داخل ہو گی، اور اللہ تعالیٰ فاجر آدمی کے ذریعے بھی اس دین کی تائید کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4848

۔ (۴۸۴۸)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: کَانَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ فِی بَعْضِ مَغَازِیہِ، فَأَبْلٰی بَلَائً حَسَنًا، فَعَجِبَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ بَلَائِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ۔)) قُلْنَا: فِی سَبِیلِ اللّٰہِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَخَرَجَ الرَّجُلُ فَلَمَّا اشْتَدَّتْ بِہِ الْجِرَاحُ، وَضَعَ ذُبَابَ سَیْفِہِ بَیْنَ ثَدْیَیْہِ ثُمَّ اتَّکَأَ عَلَیْہِ، فَأُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیلَ لَہُ: الرَّجُلُ الَّذِی قُلْتَ لَہُ مَا قُلْتَ قَدْ رَأَیْتُہُ یَتَضَرَّبُ وَالسَّیْفُ بَیْنَ أَضْعَافِہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَبْدُوَ لِلنَّاسِ وَإِنَّہُ لَمِنْ أَہْلِ النَّارِ، وَإِنَّہُ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیمَا یَبْدُو لِلنَّاسِ وَإِنَّہُ لَمِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((وَاِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ۔))
۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کسی غزوے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک آدمی تھا، اس نے جنگ میں پوری بہادری کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو اس کی اس بہادری پر بڑا تعجب ہوا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: خبردار! بیشک وہ آگ والوں میں سے ہے۔ ہم نے کہا: وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ راہِ خدا میں ہے، بہرحال اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، وہ آدمی نکلا، جب اس کے زخموں میں زیادہ تکلیف ہوئی تو اس نے اپنا سینہ تلوار کی دھار پر رکھا اور پھر اس کو اوپر سے دبایا، ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: جس آدمی کے بارے میں آپ نے اس طرح فرمایا تھا، میں نے اس کو دیکھا کہ وہ حرکت کر رہا تھا اور تلوار اس کی ہڈیوں میں پیوست تھی، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی اہل جنت والے عمل کرتا رہتاہے، یہاں تک کہ وہ لوگوں کو ایسے معلوم ہوتا ہے، (کہ وہ جنتی ہے) جبکہ وہ جہنمی لوگوں میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک آدمی لوگوں کی نظروں کے مطابق جنہمیوں کے عمل کر رہا ہوتا ہے، جبکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے، دراصل اعمال کا دارومدار خاتموں پر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4849

۔ (۴۸۴۹)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَبْعَثُنِی فِی سَرَایَا، فَبَعَثَنِی ذَاتَ یَوْمٍ فِی سَرِیَّۃٍ، وَکَانَ رَجُلٌ یَرْکَبُ ثَقْلِیْ، فَقُلْتُ لَہُ: ارْحَلْ، فَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ بَعَثَنِی فِی سَرِیَّۃٍ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِخَارِجٍ مَعَکَ، قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: حَتّٰی تَجْعَلَ لِی ثَلَاثَۃَ دَنَانِیرَ، قُلْتُ: الْآنَ حَیْثُ وَدَّعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَنَا بِرَاجِعٍ إِلَیْہِ ارْحَلْ وَلَکَ ثَلَاثَۃُ دَنَانِیرَ، فَلَمَّا رَجَعْتُ مِنْ غَزَاتِی ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((لَیْسَ لَہُ مِنْ غَزَاتِہِ ہٰذِہِ وَمِنْ دُنْیَاہُ وَمِنْ آخِرَتِہِ إِلَّا ثَلَاثَۃُ الدَّنَانِیرِ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۱۲۱)
۔ سیدنا یعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے مختلف سریوں میں بھیجتے رہتے تھے، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک سریہ میں بھیجا، ایک آدمی میرا سامان مرتّب کرنے اور اس کو اونٹ پر لادنے میں میری مدد کر رہا تھا، میں نے اس سے کہا: تو بھی میرے ساتھ چل، بیشک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک سریہ میں بھیجا ہے، اس نے کہا: میں تو تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میں نے کہا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: یہاں تکہ کہ تو میرے لیے تین دیناروں کا تعین نہیں کر دے گا، میں نے کہا: میں نے ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو الوداع کہا تھا، اب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف تو نہیں لوٹ سکتا، بہرحال تو ہمارے ساتھ چل اور تجھے تین دینار مل جائیں گے، پس جب میں اپنے غزوے سے واپس لوٹا تو میں نے یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے اس غزوے میں سے اور اس کی دنیا و آخرت میں سے نہیں ہے، مگر یہی تین دینار۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4850

۔ (۴۸۵۰)۔ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّہَا سَتُفْتَحُ عَلَیْکُمُ الْأَمْصَارُ، وَسَیَضْرِبُونَ عَلَیْکُمْ بُعُوثًا، یُنْکِرُ الرَّجُلُ مِنْکُمُ الْبَعْثَ، فَیَتَخَلَّصُ مِنْ قَوْمِہِ، وَیَعْرِضُ نَفْسَہُ عَلَی الْقَبَائِلِ، یَقُولُ: مَنْ أَکْفِیہِ بَعْثَ کَذَا وَکَذَا، َٔلَا وَذٰلِکَ الْأَجِیرُ إِلٰی آخِرِ قَطْرَۃٍ مِنْ دَمِہِ۔)) (مسند أحمد:۲۳۸۹۶)
۔ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شہروں کو تم پر فتح کیا جائے گا، پھر (جہاد کے لیے امراء کو) کئی لشکر بھیجنے کی ضرورت پڑے گی، لیکن ایک آدمی اس لشکر میں جانے سے انکار کر دے گا، پھر وہ اپنے قوم سے نکل کر اپنے نفس کو دوسرے قبیلوں پر پیش کرے گا اور کہے گا: میں فلاں فلاں لشکر کے لیے کس کو کفایت کروں، خبردار! یہ شخص اپنے خون کا آخری قطرہ بہنے تک مزدور ہی رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4851

۔ (۴۸۵۱)۔ عَنْ رُوَیْفَعِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَکَانَ أَحَدُنَا یَأْخُذُ النَّاقَۃَ عَلَی النِّصْفِ مِمَّا یُغْنَمُ حِتّٰی اِنَّ لِأَحَدِنَا الْقَدَحَ وَلِلْآخَرِ النَّصْلَ وَالرِّیْشَ۔ (مسند أحمد:۱۷۱۱۹ )
۔ سیدنا رویفع بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں: ایسے ہوتا تھا کہ ہم میں سے ایک آدمی ملنے والی غنیمت کے نصف پر اونٹنی لے لیتا تھا اور اس میں سے کسی کو تیر کی لکڑی ملتی، کسی کو پھلکا ملتا اور کسی کو پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4852

۔ (۴۸۵۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لِلْغَازِیْ أَجْرُہٗ وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُہٗ وَأَجْرُ الْغَازِیْ۔)) (مسند أحمد: ۶۶۲۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد کرنے والے کے لیے اس کا اجر ہے اور اس کو تیار کرنے والے کو اپنا اجر بھی ملے گا اور غازی کا اجر بھی ملے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4853

۔ (۴۸۵۳)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِ نِ الْجُہَنِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا أَوْ خَلَفَہٗ فِیْ أَہْلِہٖ کُتِبَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہٖ اِلَّا أَنَّہٗ لَا یُنْقَصُ مِنْ أَجْرِ الْغَازِیْ شَیْئٌ۔)) (مسند أحمد:۱۷۱۵۸)
۔ سیدنا زیدبن خالد جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے غازی کو تیار کیا یا اس کے اہل میں اس کا جانشیں بنا، اس کو غازی کے اجر جتنا ثواب ملے گا، جبکہ غازی کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4854

۔ (۴۸۵۴)۔ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، حَدَّثَنِی ابْنُ خَالِدِ نِ الْجُہَنِیُّ: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فَقَدَ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِیْ أَہْلِہٖ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا۔)) (مسند أحمد: ۲۲۰۲۳)
۔ سیدنا زید بن خالد جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے غازی کوتیار کیا، اس نے جہاد کیا اور جو مجاہد کے اہل میں خیر و بھلائی کے ساتھ اس کا جانشیں بنا، اس نے بھی یقینا جہاد کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4855

۔ (۴۸۵۵)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا أَوْ خَلَفَہٗ فِیْ أَہْلِہٖ بِخَیْرٍ فَاِنَّہٗ مَعَنَا۔)) (مسند أحمد: ۲۲۳۸۸)
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مجاہد کو تیار کیا، یا اس کے اہل کا خیر و بھلائی کے ساتھ جانشیں بنا، پس بیشک وہ ہمارے ساتھ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4856

۔ (۴۸۵۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُنْفِقُ مِنْ کُلِّ مَالٍ لَہُ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا اسْتَقْبَلَتْہُ حَجَبَۃُ الْجَنَّۃِ، کُلُّہُمْ یَدْعُوہُ إِلٰی مَا عِنْدَہُ)) قُلْتُ: وَکَیْفَ ذَاکَ؟ قَالَ: ((إِنْ کَانَتْ رِحَالًا فَرَحْلَانِ، وَإِنْ کَانَتْ إِبِلًا فَبَعِیرَیْنِ، وَإِنْ کَانَتْ بَقَرًا فَبَقَرَتَیْنِ)) (مسند أحمد: ۲۱۷۴۲)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے ہر مال میں سے ایک ایک جوڑا خرچ کیا، جنت کے دربان اس کا استقبال کریں گے اور ان میں سے ہر ایک اس کو اپنے پاس والی چیز کی طرف بلائے گا۔ میں نے کہا: (یہ جوڑا جوڑا) کیسے ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ سواریاں ہیں تو دو سواریاں، اگر وہ اونٹ ہیں تو دو اونٹ اور اگر وہ گائیں ہیں تو دو گائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4857

۔ (۴۸۵۷)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ أَظَلَّہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ جَہَّزَ غَازِیًا حَتَّی یَسْتَقِلَّ بِجَہَازِہِ کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ، وَمَنْ بَنٰی مَسْجِدًا یُذْکَرُ فِیہِ اسْمُ اللّٰہِ بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۶)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مجاہد کے سر پر سایہ کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جس نے مجاہد کو تیار کیا، یہاں تک کہ وہ مستقل بالذات اور خود مختار ہو گیا، اس کے لیے اس کے اجر جتنا اجر ہو گا اور جس نے ایسی مسجد بنائی، جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4858

۔ (۴۸۵۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ فَتًی مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُرِیدُ الْجِہَادَ وَلَیْسَ لِی مَالٌ أَتَجَہَّزُ بِہِ، فَقَالَ: ((اذْہَبْ إِلٰی فُلَانٍ الْأَنْصَارِیِّ، فَإِنَّہُ قَدْ کَانَ تَجَہَّزَ وَمَرِضَ فَقُلْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقْرِئُکَ السَّلَامَ، وَیَقُولُ لَکَ: ادْفَعْ إِلَیَّ مَا تَجَہَّزْتَ بِہِ۔)) فَقَالَ لَہُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: یَا فُلَانَۃُ! ادْفَعِی إِلَیْہِ مَا جَہَّزْتِنِی بِہِ، وَلَا تَحْبِسِی عَنْہُ شَیْئًا، فَإِنَّکِ وَاللّٰہِ إِنْ حَبَسْتِ عَنْہُ شَیْئًا لَا یُبَارِکُ اللّٰہُ لَکِ فِیہِ۔)) قَالَ عَفَّانُ: إِنَّ فَتًی مِنْ أَسْلَمَ۔ (مسند أحمد: ۱۳۱۹۲)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نوجوان نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک میں جہاد تو کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس مال نہیں ہے کہ میں تیار کر سکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم فلاں انصاری کے پاس جاؤ، اس نے جہاد کی تیاری کر رکھی تھی، لیکن وہ بیمار پڑ گیا ہے اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تم کو سلام کہہ رہے ہیں اور تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو تم نے تیاری کر رکھی ہے، وہ مجھے دے دو۔ اس نے جا کر یہی پیغام دیا، اس نے جواباً اپنی بیوی سے کہا: اے فلاں خاتون! تونے میرے لیے جو کچھ تیاری کی تھی، وہ سارا کچھ اس آدمی کو دے دے، اور کوئی چیز مت روک، اللہ کی قسم! اگر تو نے کوئی چیز روکی تو اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت نہیں ڈالے گا۔ عفان راوی نے کہا: یہ نوجوان بنو اسلم قبیلے سے تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4859

۔ (۴۸۵۹)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ بَعَثَ اِلٰی بَنِیْ لِحْیَانِ لِیَخْرُجَ مِنْ کُلِّ رَجُلَیْنِ رَجُلٌ، ثُمَّ قَالَ لِلْقَاعِدِ: ((أَیُّکُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِیْ أَہْلِہٖ وَمَالِہٖ بِخَیْرٍ کَانَ لَہٗ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ۔)) (مسند أحمد: ۱۱۱۲۶)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو لحیان کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ ہر دو آدمیوں میں ایک آدمی نکلے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پیچھے رہنے والے آدمیوں سے فرمایا: تم میں جو آدمی نکلنے والے مجاہد کے اہل و مال میں خیر و بھلائی کے ساتھ جانشیں بنے گا، اس کے لیے نکلنے والے کے نصف اجر کے برابر ثواب ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4860

۔ (۴۸۶۰)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ أَبُوْالْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ کَانَ أُحُدٌ عِنْدِیْ ذَہَبًا لَسَرَّنِیْ أَنْ أُنْفِقَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَأَنْ لَّا یَأْتِیَ عَلَیْہِ ثَلَاثَۃٌ وَعِنْدِیْ مِنْہُ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْہَمٌ اِلَّا شَیْئٌ أُرْصِدُہٗ فِیْ دَیْنٍ یَکُوْنُ عَلَیَّ۔)) (مسند أحمد: ۷۴۷۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو یہ بات مجھے خوش کرے گی کہ میں اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دوں اور اس حال میں مجھ پر تیسرا دن نہ آئے کہ میرے پاس ااس میں سے کوئی دینار اور درہم ہو، ما سوائے اس چیز کے، جس کو میں قرضہ کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4861

۔ (۴۸۶۱)۔ عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدِ نِ الْأَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَجُلًا تَصَدَّقَ بِنَاقَۃٍ مَخْطُوْطَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَتَأْتِیَنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِسَبْعِمِائَۃِ نَاقَۃٍ مَخْطُوْطَۃٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۷۱۴)
۔ سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے لگام زدہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: تو قیامت کے روز سات سو لگام زدہ اونٹنیوں کے ساتھ آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4862

۔ (۴۸۶۲)۔ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، عَنِ ابْنِ الْحَنْظَلِیَّۃِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْمُنْفِقَ عَلَی الْخَیْلِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَبَاسِطِ یَدَیْہِ بِالصَّدْقَۃِ لَا یَقْبِضُہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۷۷۶۸)
۔ سیدنا ابن حظلیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے راستے میں موجود جماعت پر خرچ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس نے دونوں ہاتھ صدقہ کے ساتھ پھیلا رکھے ہوں اور وہ ان کو بند نہیں کرتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4863

۔ (۴۸۶۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ أَرَادَ الْغَزْوَ، فَقَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ! إِنَّ مِنْ إِخْوَانِکُمْ قَوْمًا لَیْسَ لَہُمْ مَالٌ وَلَا عَشِیرَۃٌ، فَلْیَضُمَّ أَحَدُکُمْ إِلَیْہِ الرَّجُلَیْنِ أَوْ الثَّلَاثَۃَ)) فَمَا لِأَحَدِنَا مِنْ ظَہْرِ جَمَلِہِ إِلَّا عُقْبَۃٌ کَعُقْبَۃِ أَحَدِہِمْ۔ قَالَ: فَضَمَمْتُ اثْنَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً اِلَیَّ وَمَا لِیْ اِلَّا عُقْبَۃٌ کَعُقْبَۃِ أَحَدِہِمْ۔ (مسند أحمد: ۱۴۹۲۴)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک غزوے کا ارادہ کیا اور فرمایا: اے مہاجروں اور انصاریوں کی جماعت! بیشک تمہارے بعض بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ کوئی مال ہے، نہ ان کا کوئی رشتہ دار ہے، اس لیے ہر آدمی اپنے ساتھ دو یا تین افراد کو ملا لے۔ پس ہم میں سے ہر آدمی کی ان دو یا تین افراد کی وجہ سے اپنے اونٹ پر سواری کرنے کی باری ہوتی تھی، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے بھی اپنے ساتھ دو یا تین افراد ملا لیے اور میری بھی ان کی طرح سواری کرنے کی ایک باری ہوتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4864

۔ (۴۸۶۴)۔ عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتِنِ الْأَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَکَانَ أَحَدُنَا یَأْخُذُ النَّاقَۃَ عَلَی النِّصْفِ مِمَّا یُغْنَمُ حَتّٰی اِنَّ لِأَحَدِنَا الْقَدَحَ وَلِلْآخَرِ النَّصْلَ وَالرِّیْشَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۱۹)
۔ سیدنا رویفع بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوہ کیا اور کہا: ہم میں سے ایک آدمی حاصل ہونے والی غنیمت کے نصف پر اونٹنی لیتا تھا، یہاں تک (بسااوقات ایسے ہوتا کہ) ہم میں سے ایک آدمی کو تیر کی لکڑی ملتی اور دوسرے کو پھلکا اور پر ملتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4865

۔ (۴۸۶۵)۔ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَضْلُ نِسَائِ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ فِی الْحُرْمَۃِ کَفَضْلِ أُمَّہَاتِہِمْ، وَمَا مِنْ قَاعِدٍ یَخْلُفُ مُجَاہِدًا فِی أَہْلِہِ فَیُخَبِّبُ فِی أَہْلِہِ إِلَّا وُقِفَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، قِیلَ لَہُ: إِنَّ ہٰذَا خَانَکَ فِی أَہْلِکَ فَخُذْ مِنْ عَمَلِہِ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَمَا ظَنُّکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۳۹۲)
۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیچھے رہ جانے والوں پر حرمت کے لحاظ سے مجاہدین کی بیویوں کی فضیلت اس طرح ہے، جیسے ان کی ماؤں کی فضیلت ہے، پس جس پیچھے رہ جانے والے شخص نے خیانت کرتے ہوئے کسی مجاہد کی بیوی کو اس کے حق میں خراب کیا، اس کو قیامت کے دن کھڑا کر دیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس آدمی نے تیری بیوی کے معاملے میں تجھ سے خیانت کی تھی، لہذا تو اس کے عمل میں سے جو چاہتا ہے، لے لے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس تمہارا کیا خیال ہے (وہ اس کا کوئی عمل چھوڑے گا، جبکہ وہاں ہر شخص کو نیکی کی اشد ضرورت ہو گی)؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4866

۔ (۴۸۶۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِذَا ضَنَّ النَّاسُ بِالدِّینَارِ وَالدِّرْہَمِ، وَتَبَایَعُوْا بِالْعِیْنَۃِ، وَاتَّبَعُوا أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَتَرَکُوا الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، أَنْزَلَ اللّٰہُ بِہِمْ بَلَائً فَلَمْ یَرْفَعْہُ عَنْہُمْ حَتّٰی یُرَاجِعُوْا دِینَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۴۸۲۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ درہم و دینار کے سلسلے میں بخل کریں گے، بیع عِینہ میں پڑ جائیں گے، گائیوں کی دموں کی پیروی کریں گے اور جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر آزمائش نازل کر دے گا اور اس کو اس وقت تک نہیں ہٹائے گا، جب تک وہ اپنے دین کی طرف نہیں لوٹ آئیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4867

۔ (۴۸۶۷)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ، وَلَمْ یُحَدِّثْ نَفْسَہٗ بِغَزْوٍ، مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃِ نِفَاقٍ۔)) (مسند أحمد: ۸۸۵۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں مرا کہ نہ اس نے جہاد کیا اور نہ اپنے نفس میں جہاد کرنے کا سوچا تو وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4868

۔ (۴۸۶۸)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ لِثَوْبَانَ: ((کَیْفَ أَنْتَ یَا ثَوْبَانُ؟ إِذْ تَدَاعَتْ عَلَیْکُمُ الْأُمَمُ کَتَدَاعِیکُمْ عَلَی قَصْعَۃِ الطَّعَامِ یُصِیبُونَ مِنْہُ۔)) قَالَ ثَوْبَانُ: بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمِنْ قِلَّۃٍ بِنَا؟ قَالَ: ((لَا أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلٰکِنْ یُلْقٰی فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنُ۔)) قَالُوْا: وَمَا الْوَہَنُ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((حُبُّکُمُ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَتُکُمُ الْقِتَالَ۔)) (مسند أحمد: ۸۶۹۸)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اے ثوبان! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب دوسری امتیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی، جیسے تم کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہو؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا ہماری کم تعداد کی وجہ سے ایسے ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس وقت بہت زیادہ ہو گے، لیکن تمہارے دلوں میں وَھَن ڈال دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وَھَن کیا ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا دنیا سے محبت کرنا اور قتال کو ناپسند کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4869

۔ (۴۸۶۹)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَدَنَا مِنْ الْمَدِینَۃِ قَالَ: ((إِنَّ بِالْمَدِینَۃِ لَقَوْمًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوْا مَعَکُمْ فِیہِ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ؟ قَالَ: ((وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ حَبَسَہُمْ الْعُذْرُ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۹۰۵)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک سے لوٹے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک مدینہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جب بھی تم چلے اور تم نے جو وادی بھی عبور کی، وہ تمہارے ساتھ تھے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جبکہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں وہ مدینہ میں ہیں، دراصل ان کو عذر نے روک رکھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4870

۔ (۴۸۷۰)۔ عَنْ أَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُؤْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ خَیْرَ مَنْزِلٍ، فَیَقُولُ: سَلْ وَتَمَنَّہْ، فَیَقُولُ: مَاأَسْأَلُ وَأَتَمَنّٰی إِلَّا أَنْ تَرُدَّنِی إِلَی الدُّنْیَا فَأُقْتَلَ فِی سَبِیلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۳۶۷)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز اہل جنت میں سے ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: اے ابن آدم! تو نے اپنی منزل کو کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! بہترین منزل ہے، اللہ تعالیٰ کہے گا: تو مزید سوال کر اور تمنا کر، وہ کہے گا: میں کون سا سوال کروں اور کون سی تمنا کروں، ہاں تو مجھے دنیا میں لوٹا دے، تاکہ میں تیرے راستے میں دس بار شہید ہو سکوں، وہ یہ بات شہادت کی فضیلت کو دیکھ کر کہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4871

۔ (۴۸۷۱)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی عَمِیرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنَ النَّاسِ نَفْسُ مُسْلِمٍ یَقْبِضُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ تُحِبُّ أَنْ تَعُودَ إِلَیْکُمْ وَأَنَّ لَہَا الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا غَیْرُ الشَّہِیدِ۔)) و قَالَ ابْنُ أَبِی عَمِیرَۃَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَأَنْ أُقْتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی الْمَدَرُ وَالْوَبَرُ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۰۵۴)
۔ سیدنا ابن ابو عمیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے جو یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو فوت کرے اور پھر وہ تمہاری طرف دوبارہ لوٹے اور اس کو دنیا اور اس کی تمام چیزیں ملیں، ما سوائے شہید کے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید کر دیا جائے تو یہ عمل مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ تمام شہر و دیہات مجھے مل جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4872

۔ (۴۸۷۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ أَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُحِبُّ أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا، وَأَنَّ لَہٗ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ غَیْرُ الشَّہِیْدِ، یُحِبُّ أَنْ یُخْرَجَ فَیُقْتَلَ لِمَا یَرٰی مِنَ الْکَرَامَۃِ۔)) أَوْ مَعْنَاہٗ۔ (مسند أحمد: ۱۲۰۲۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو جنت میں داخل ہو اور پھر وہ یہ پسند کرے کہ وہ وہاں سے نکل آئے اور زمین پر جو کچھ ہے، وہ سب کچھ اس کو مل جائے، ما سوائے شہید کے، وہ شہادت کی کرامت کا اندازہ کر کے یہ پسند کرے گا کہ اس کو جنت سے نکال لیا جائے، تاکہ اس کو دوبارہ شہید کر دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4873

۔ (۴۸۷۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((انْتَدَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہِ، لَا یَخْرُجُ إِلَّا جِہَادًا فِی سَبِیلِی وَإِیمَانًا بِی وَتَصْدِیقًا بِرَسُولِی، فَہُوَ عَلَیَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، أَوْ أَرْجِعَہُ إِلٰی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ نَائِلًا مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا مِنْ کَلْمٍ یُکْلَمُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ إِلَّا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ کُلِمَ لَوْنُہُ لَوْنُ دَمٍ وَرِیحُہُ رِیحُ مِسْکٍ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، مَا قَعَدْتُ خِلَافَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَبَدًا، وَلٰکِنِّی لَا أَجِدُ سَعَۃً فَیَتْبَعُونِی وَلَا تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ فَیَتَخَلَّفُونَ بَعْدِی، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوَدِدْتُ أَنْ أَغْزُوَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَأُقْتَلَ ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ۔)) (مسند أحمد: ۸۹۶۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کی ضمانت اٹھائی ہے جو اس کے راستے میں نکلتا ہے اور (اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ) جب یہ آدمی صرف میرے راستے میں جہاد کرنے، مجھے پر ایمان لانے اور میرے رسول کی تصدیق کرنے کی وجہ سے نکلتا ہے تو میںبھی ضمانت دیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر یا غنیمت، جو بھی اس نے حاصل کیا، سمیت اس کے گھر لوٹا دوں گا۔ (پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:)اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو زخم بھی اللہ کے راستے میں لگتاہے تو زخمی جس حالت میں زخمی ہوا تھا، اسی حالت میں روزِ قیامت آئے گا ، زخم سے بہنے والے خون کا رنگ تو وہی ہو گا جو خون کا ہوتا ہے، لیکن اس کی خوشبو کستوری کی طرح کی ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر گراں نہ گزرتا تو میں کبھی بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے لشکر سے پیچھے نہ رہتا، لیکن میرے پاس (اسباب کی) وسعت نہیں کہ وہ سب میرے ساتھ آ سکیں اور مجھ سے پیچھے رہنا وہ پسند نہیں کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میں تو چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور قتل کر دیاجاؤں، پھر (زندہ ہو کر) جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر (زندہ ہو کر) جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4874

۔ (۴۸۷۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ یَوْمَ أُحُدٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا؟ قَالَ: ((فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَاَلْقٰی تَمَرَاتٍ کُنَّ فِیْ یَدِہٖ، فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ(وَقَالَ غَیْرُ عَمْرٍو) وَتَخَلّٰی مِنْ طَعَامِ الدُّنْیَا۔ (مسند أحمد: ۱۴۳۶۵)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے احد والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں۔ پس اس نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجوریں ڈال دیں اور قتال کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا اور دنیا کے کھانے سے الگ ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4875

۔ (۴۸۷۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلشُّہَدَائُ عَلٰی بَارِقِ نَہْرٍ بِبَابِ الْجَنَّۃِ فِیْ قُبَّۃٍ خضْرَائَ، یَخْرُجُ عَلَیْہِمْ رِزْقُہَم مِنَ الْجَنَّۃِ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا۔)) (مسند أحمد: ۲۳۹۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء جنت کے دروازے پر سبز قبے میں نہر کی ایک طرف ہوتے ہیں، صبح و شام ان کا رزق جنت سے آتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4876

۔ (۴۸۷۶)۔ عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أَبِیْہٖ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْنِیْ ((أَنَّ أَرْوَاحَ الشُّہَدَائِ فِیْ طَیْرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّۃِ)) وَقُرِیئَ عَلٰی سُفْیَانَ: نَسَمَۃٌ تَعْلُقُ فِیْ ثَمَرَۃٍ أَوْ شَجَرِ الْجَنَّۃِ۔ (مسند أحمد: ۲۷۷۰۸)
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں جنت کے پھلوں یا درختوں سے لٹکتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4877

۔ (۴۸۷۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ الْہِنْدِ، فَإِنْ اسْتُشْہِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَیْرِ الشُّہَدَائِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ الْمُحَرَّرُ۔ (مسند أحمد: ۷۱۲۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ کیا، اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو میں بہترین شہید ہوں گا اور اگر میں اس سے واپس آ گیا تو ابو ہریرہ (آگ سے) آزاد ہو کر واپس آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4878

۔ (۴۸۷۸)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا یَجِدُ الشَّہِیْدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ اِلَّا کَمَا یَجِدُ أَحَدُکُمْ مَسَّ الْقَرْصَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۷۹۴۰) (۴۸۷۸)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا یَجِدُ الشَّہِیْدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ اِلَّا کَمَا یَجِدُ أَحَدُکُمْ مَسَّ الْقَرْصَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۷۹۴۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہید قتل کی ضرب سے کوئی تکلیف نہیں پاتا، مگر اتنی جنتی تم میں سے کوئی چٹکی یا ڈنک کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4879

۔ (۴۸۷۹)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ کَلْمٍ یُکْلَمُہُ الْمُسْلِمُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، ثُمَّ یَکُونُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَہَیْئَتِہَا إِذَا طُعِنَتْ تَنْفَجِرُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْکِ۔)) قَالَ أَبِی: یَعْنِی الْعَرْفَ الرِّیحَ۔ (مسند أحمد: ۸۱۹۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر زخم جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مسلمان کو لگتا ہے، یہ قیامت کے دن اسی ہیئت پر ہو گا، جب وہ زخم لگا گیا لیکن اس سے خون بہہ رہا ہو گا کہ اس کا رنگ تو خون والا ہو گا، لیکن خوشبو کستوری کی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4880

۔ (۴۸۸۰)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَضْحَکُ اللّٰہُ لِرَجُلَیْنِ، یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الْآخَرَ کِلَاہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ۔)) قَالُوْا کَیْفَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((یَقْتُلُ ہٰذَا فَیَلِجُ الْجَنَّۃَ، ثُمَّ یَتُوبُ اللّٰہُ عَلَی الْآخَرِ فَیَہْدِیہِ إِلَی الْإِسْلَامِ، ثُمَّ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَیُسْتَشْہَدُ۔)) (مسند أحمد: ۸۲۰۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کی طرف ہنستے ہیں، حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، لیکن وہ دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ دوسرے یعنی قاتل پر رجوع کرتا ہے اور اس کو اسلام کی طرف ہدایت دے دیتا ہے، پھر وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4881

۔ (۴۸۸۱)۔ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَشْرَفْنَا عَلٰی حَرَّۃِ وَاقِمٍ قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْہَا فَإِذَا قُبُورٌ بِمَحْنِیَّۃٍ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قُبُورُ إِخْوَانِنَا ہٰذِہِ، قَالَ: ((قُبُورُ أَصْحَابِنَا۔)) ثُمَّ خَرَجْنَا حَتّٰی إِذَا جِئْنَا قُبُورَ الشُّہَدَائِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰذِہِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا۔)) (مسند أحمد: ۱۳۸۷)
۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ (مدینہ کے) واقم ٹیلے کے پاس موجود حرّہ ہمیں نظر آنے لگا، جب ہم اس کے قریب پہنچے تو نظر آیا کہ وہاں وادی کے پست مقام پر چند قبریں تھیں، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ہمارے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔ پھر ہم آگے بڑھے، یہاں تک کہ شہداء کی قبروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4882

۔ (۴۸۸۲)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ یَقُولُ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْأَنْصَارِ مُقَنَّعٌ فِی الْحَدِیدِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُسْلِمُ أَوْ أُقَاتِلُ، قَالَ: ((لَا بَلْ أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ۔)) فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰذَا عَمِلَ قَلِیلًا وَأُجِرَ کَثِیرًا۔)) (مسند أحمد: ۱۸۷۹۳)
۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، وہ لوہے کے ہتھیاروں سے لدا ہوا تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اسلام قبول کروں یا قتال کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تو پہلے اسلام قبول کر اور پھر قتال کر۔ پس وہ مسلمان ہو گیا اور پھر لڑا، یہاں تک کہ شہید ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص نے عمل تو تھوڑا کیا ہے، لیکن اس کو بہت زیادہ اجر دیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4883

۔ (۴۸۸۳)۔ عَنْ نُعَیْمِ بْنِ ہَمَّارٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُّ الشُّہَدَاء ِ أَفْضَلُ قَالَ: ((اَلَّذِینَ إِنْ یُلْقَوْا فِی الصَّفِّ یَلْفِتُونَ وُجُوہَہُمْ حَتّٰی یُقْتَلُوا أُولَئِکَ یَنْطَلِقُونَ فِی الْغُرَفِ الْعُلٰی مِنَ الْجَنَّۃِ وَیَضْحَکُ إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ وَإِذَا ضَحِکَ رَبُّکَ إِلٰی عَبْدٍ فِی الدُّنْیَا فَلَا حِسَابَ عَلَیْہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۴۳)
۔ سیدنا نُعیم بن ہمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا کہ کون سے شہداء زیادہ فضیلت والے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ لو گ ہیں کہ جب صف میں دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے چہروں کو اُن ہی کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ شہید ہو جاتے ہیں، یہ وہ لوگ جو جنت کے بلند بالا خانوں میں چلتے ہیں اور ان کا ربّ ان کی طرف ہنستا ہے، اور جب تیرا ربّ دنیا میں ہی کسی کی طرف ہنس پڑتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4884

۔ (۴۸۸۴)۔ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ الْکِنْدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِلشَّہِیدِ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ الْحَکَمُ: سِتَّ خِصَالٍ أَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی أَوَّلِ دَفْعَۃٍ مِنْ دَمِہِ وَیَرٰی۔)) قَالَ الْحَکَمُ: ((وَیُرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَیُحَلّٰی حُلَّۃَ الْإِیمَانِ، وَیُزَوَّجَ مِنْ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُجَارَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیَأْمَنَ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ۔)) قَالَ الْحَکَمُ: ((یَوْمَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ، وَیُوضَعَ عَلٰی رَأْسِہِ تَاجُ الْوَقَارِ، الْیَاقُوتَۃُ مِنْہُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، وَیُزَوَّجَ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ زَوْجَۃً مِنْ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُشَفَّعَ فِی سَبْعِینَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِہ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۳۱۴)
۔ سیدنا مقدام بن معدی کرب کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لیے چھ خصلتیں ہیں: اس کو خون گرتے ہی اس کو بخش دیا جاتا ہے، اسی وقت وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے، اس کو ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتے ہے، آہو چشم حور سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے، اس کو عذابِ قبر سے پناہ دے دی جاتی ہے، وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتاہے، اس کے سر پر وقار کا ایسا تاج رکھا جاتا ہے کہ اس کا ایک موتی دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوتا ہے، بہتر آہو چشم حوروں سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے اور اس کے ستر رشتہ داروں کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4885

۔ (۴۸۸۵)۔ عَنْ قَیْسٍ الْجُذَامِیِّ رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُعْطَی الشَّہِیدُ سِتَّ خِصَالٍ، عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَۃٍ مِنْ دَمِہِ یُکَفَّرُ عَنْہُ کُلُّ خَطِیئَۃٍ، وَیُرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَیُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُؤْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیُحَلَّی حُلَّۃَ الْإِیمَانِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۹۳۶)
۔ سیدنا قیس جذامی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ ایسے آدمی تھے جن کو صحبت کا شرف حاصل تھا، سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہید کو چھ خصلتیں عطا کی جاتی ہیں: اس کے خون کے پہلے قطرے میں ہی اس کا ہر قسم کا گناہ معاف کر دیا جاتا ہے، اس کو اس کا جنت میں سے ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے، انتہائی سفید سیاہ رنگ والی سوتی آنکھوں والی عورتوں سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے، اس کو بڑی گھبراہٹ سے اور عذاب ِ قبر سے امن میں رکھا جاتا ہے اور اس کو ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4886

۔ (۴۸۸۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَلَہَا عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی خَیْرٌ، تُحِبُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْکُمْ إِلَّا الْمَقْتُولُ، (وَقَالَ رَوْحٌ إِلَّا الْقَتِیلُ) فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَإِنَّہُ یُحِبُّ أَنْ یَرْجِعَ فَیُقْتَلَ مَرَّۃً أُخْرٰی۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۸۶)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں ہے، جو وفات پائے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں خیر ہو اور وہ پھر بھی دنیا کی طرف لوٹنے کو پسند کرے، ما سوائے شہید فی سبیل اللہ کے، پس بیشک وہ یہ پسند کرتا ہے کہ وہ واپس لوٹے اور اس کو دوبارہ شہید کر دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4887

۔ (۴۸۸۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ: ذُکِرَ الشَّہِیدُ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((لَا تَجِفُّ الْأَرْضُ مِنْ دَمِ الشَّہِیدِ حَتّٰی یَبْتَدِرَہُ زَوْجَتَاہُ کَأَنَّہُمَا ظِئْرَانِ أَظَلَّتَا أَوْ أَضَلَّتَا فَصِیلَیْہِمَا بِبَرَاحٍ مِنَ الْأَرْضِ بِیَدِ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا حُلَّۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔)) (مسند أحمد: ۷۹۴۲)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شہید کا ذکر کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک زمین شہید کے خون سے خشک نہیں ہو پاتی کہ اس کی دو بیویاں اس کی طرف لپکتے ہوئے آتی ہیں، گویا کہ وہ دو دایاں ہیں، جوبے آب و گیاہ زمین میں اپنے بچے پر سایہ کر رہی ہوں یا غائب ہونے والے بچے کو پا لینے پر اس پر سایہ کر رہی ہوں، ان میں ہر ایک کے ہاتھ میں ایک پوشاک ہوتی ہے، اس کی قیمت دنیا وما فیہا سے زیادہ ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4888

۔ (۴۸۸۸)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ النَّاسَ، فَذَکَرَ الْإِیمَانَ بِاللّٰہِ وَالْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ مِنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَأَنَا صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللّٰہُ عَنِّی خَطَایَایَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَکَیْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَرَدَّ عَلَیْہِ الْقَوْلَ کَمَا قَالَ، قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَکَیْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَرَدَّ عَلَیْہِ الْقَوْلَ أَیْضًا، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللّٰہُ عَنِّی خَطَایَایَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، إِلَّا الدَّیْنَ فَإِنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام سَارَّنِی بِذٰلِکَ۔)) (مسند أحمد: ۸۰۶۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل عمل قرار دیا، ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو جاؤں، جبکہ میری کیفیت یہ ہو کہ میں صبر کرنے والا ہوں، ثواب کی نیت سے آیا ہوا ہوں اور آگے بڑھ رہا ہوں، نہ کہ پیٹھ پھیرنے والا، تو کیا اللہ تعالیٰ اس عمل کو میرے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کہا تم نے، ذرا بات کو لوٹانا؟ اس نے اپنی بات دوبارہ ذکر کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: تم نے کیا کہا؟ اس نے سہ بارہ اپنا بیان ذکر کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں کہہ رہا ہوں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو جاؤں، جبکہ میری کیفیت یہ ہو کہ میں صبر کرنے والا ہوں، ثواب کی نیت سے آیا ہوا ہوں اور آگے بڑھ رہا ہوں، نہ کہ پیٹھ پھیرنے والا، تو کیا اللہ تعالیٰ اس عمل کو میرے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، ما سوائے قرض کے، جبریل علیہ السلام نے ابھی مجھ سے یہ سرگوشی کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4889

۔ (۴۸۸۹)۔ عَنْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِی قَتَادَۃَ أَخْبَرَہُ، أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہِ خَطَایَایَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنْ قُتِلْتَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہِ خَطَایَاکَ اِلَّا الَّدَیْنَ، کَذٰلِکَ قَالَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۰۲)
۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو جاؤں، جبکہ میری کیفیت یہ ہو کہ میں صبر کرنے والا ہوں، ثواب کی نیت سے آیا ہوا ہوں اور آگے بڑھ رہا ہوں، نہ کہ پیٹھ پھیرنے والا، تو کیا اللہ تعالیٰ اس عمل کو میرے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو اس حال میں شہید ہو جائے کہ تو صبر کرنے والا ہو، ثواب کی نیت سے آیا ہو اور آگے بڑھنے والا ہو، نہ کہ پیٹھ پھیرنے والا تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو تیرے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا، ما سوائے قرض کے، جبریل علیہ السلام نے اسی طرح مجھے اطلاع دی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4890

۔ (۴۸۹۰)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہٗ وَفِیْہ: فَلَمَّا وَلّٰی دَعَاہٗ فَقَالَ: ((اِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ عَلَیْکَ دَیْنٌ لَیْسَ لَہٗ عِنْدَکَ وَفَائٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۸۵۶)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر سابقہ حدیث کی طرح کی حدیث ذکر کی، البتہ اس میں ہے: جب وہ آدمی جا رہا تھا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا: ما سوائے اس چیز کے کہ تجھ پر کوئی قرض ہو، جبکہ تیرے پاس اس کی ادائیگی کے لیے کوئی مال نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4891

۔ (۴۸۹۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُغْفَرُ لِلشَّہِیْدِ کُلُّ ذَنْبٍ اِلَّا الدَّیْنَ۔)) (مسند أحمد: ۷۰۵۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرض کے علاوہ شہید کا ہر گناہ بخش دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4892

۔ (۴۸۹۲)۔ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِیِّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْقَتْلُ ثَلَاثَۃٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ قَاتَلَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتّٰی إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ قَاتَلَہُمْ حَتّٰی یُقْتَلَ، فَذٰلِکَ الشَّہِیدُ الْمُفْتَخِرُ فِی خَیْمَۃِ اللّٰہِ تَحْتَ عَرْشِہِ، لَا یَفْضُلُہُ النَّبِیُّونَ إِلَّا بِدَرَجَۃِ النُّبُوَّۃِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ قَرَفَ عَلٰی نَفْسِہِ مِنْ الذُّنُوبِ وَالْخَطَایَا، جَاہَدَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتّٰی إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتّٰی یُقْتَلَ، مُحِیَتْ ذُنُوبُہُ وَخَطَایَاہُ، إِنَّ السَّیْفَ مَحَّائُ الْخَطَایَا، وَأُدْخِلَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَائَ، فَإِنَّ لَہَا ثَمَانِیَۃَ أَبْوَابٍ، وَلِجَہَنَّمَ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ، وَبَعْضُہَا أَفْضَلُ مِنْ بَعْضٍ، وَرَجُلٌ مُنَافِقٌ جَاہَدَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ حَتّٰی إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتّٰی یُقْتَلَ، فَإِنَّ ذٰلِکَ فِی النَّارِ السَّیْفُ لَا یَمْحُو النِّفَاقَ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۸۰۷)
۔ سیدنا عتبہ بن عبد سُلَمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابۂ رسول میں سے تھے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل کی تین اقسام ہیں: (۱) وہ مؤمن آدمی جو اپنے جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرتا ہے، جب دشمن سے اس کی ٹکر ہوتی ہے تو وہ اس سے لڑائی کرتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ وہ شہید ہے، جو اللہ کے عرش کے نیچے خیمۃ اللہ میں فخر کرنے والا ہو گا، انبیاء صرف نبوت کے درجے کی وجہ سے ایسے شہید سے فضیلت رکھتے ہوں گے، (۲) وہ مؤمن آدمی، جس نے اپنی جان پر گناہ کیے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مال وجان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، جب وہ دشمنوں سے ملتا ہے تو ان سے قتال کرتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، ایسے شہید کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، بیشک تلوار گناہوں کو مٹا دینے والی ہے، ایسا شہید جنت کے جس دروازے سے چاہے گا، داخل ہو جائے گا، جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جن میں سے بعض دروزے بعض سے افضل ہیں اور جہنم کے سات دروازے ہیں، اور (۳) وہ منافق آدمی جو اپنے جان ومال سے قتال کرتا ہے، جب دشمن سے اس کی ٹکر ہوتی ہے تو وہ راہِ خدا میں لڑتا ہے، یہاں تک کہ قتل کر دیا جاتا ہے، یہ شخص جہنم میں ہو گا، کیونکہ تلوار نفاق جیسے گناہ کو نہیں مٹا سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4893

۔ (۴۸۹۳)۔ عَنْ أَبِی یَزِیدَ الْخَوْلَانِیِّ، أَنَّہُ سَمِعَ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الشُّہَدَائُ ثَلَاثَۃٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَیِّدُ الْإِیمَانِ لَقِیَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللّٰہَ حَتَّی قُتِلَ، فَذٰلِکَ الَّذِی یَرْفَعُ إِلَیْہِ النَّاسُ أَعْنَاقَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) وَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسَہُ حَتّٰی وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُہُ أَوْ قَلَنْسُوَۃُ عُمَرَ، ((وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَیِّدُ الْإِیمَانِ لَقِیَ الْعَدُوَّ فَکَأَنَّمَا یُضْرَبُ جِلْدُہُ بِشَوْکِ الطَّلْحِ أَتَاہُ سَہْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَہُ ہُوَ فِی الدَّرَجَۃِ الثَّانِیَۃِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَیِّدُ الْإِیمَانِ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا لَقِیَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللّٰہَ حَتّٰی قُتِلَ فَذٰلِکَ فِی الدَّرَجَۃِ الثَّالِثَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۶)
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں: (۱) وہ مؤمن آدمی جو عمدہ ایمان والا ہوتا ہے، جب دشمن سے اس کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ وہ شہید ہے کہ قیامت کے دن لوگ جس کی طرف اپنی گردنیں اٹھائیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اوپر کو بلند کیا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ٹوپی گر گئی، (۲) وہ مؤمن آدمی، جس کا ایمان عمدہ ہوتا ہے، لیکن جب وہ دشمن سے مقابلے میں آتا ہے تو اس پرایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ گویا کیکر کے درخت کا کانٹا اس کی جِلد میں چبھو دیا گیا ہے، پھر اچانک ایک اجنبی تیر اس کو لگتا ہے اور وہ شہید ہو جاتا ہے، ایسا شخص دوسرے درجے میں ہو گا، اور (۳) وہ مؤمن آدمی ، جس کا ایمان تو عمدہ ہوتا ہے، لیکن اس نے نیک اور برے، دونوں قسم کے اعمال کیے ہوتے ہیں، جب اس کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ شہید تیسرے درجہ میں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4894

۔ (۴۸۹۴)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: سَمِعْتُ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَلشُّہَدَائُ أَرْبَعَۃٌ، (فَذَکَرَ الثَّلَاثَۃَ الْمُتَقَدِّمَۃَ ثُمَّ قَالَ) رَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلٰی نَفْسِہِ إِسْرَافًا کَثِیرًا، لَقِیَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللّٰہَ حَتّٰی قُتِلَ، فَذَاکَ فِی الدَّرَجَۃِ الرَّابِعَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۰)
۔ (دوسری سند) اس کے الفاظ یہ ہیں: شہدا چار قسم کے ہوتے ہیں … پھر سابق حدیث میں مذکورہ تین اقسام ذکر کیں اور پھر فرمایا: … (۴) وہ مؤمن آدمی جس نے گناہوں کے سلسلے میں اپنے آپ پر بہت زیادتی کی ہوتی ہے، جب وہ دشمن سے ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ چوتھے درجے کا شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4895

۔ (۴۸۹۵)۔ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ، أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ أَخْبَرَہٗ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، حَدَّثَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، أَنَّہٗ ذُکِرَ عِنْدَہُ الشُّہَدَائُ فَقَالَ: ((اِنَّ أَکْثَرَ شُہَدَائِ أُمَّتِیْ أَصْحَابُ الْفُرُشِ، وَرُبَّ قَتِیْلٍ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ، اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِنِیَّتِہِ۔)) (مسند أحمد: ۳۷۷۲)
۔ ابو محمد، جو سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اصحاب میں سے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس کو بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شہداء کا ذکر کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے اکثر شہداء بستروں والے ہوں گے اور دو صفوں کے درمیان قتل ہونے والے کئی افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی نیتوں کو بہتر جاننے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4896

۔ (۴۸۹۶)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اِیَّاکُمْ أَنْ تَقُوْلُوْا مَاتَ فُلَانٌ شَہِیْدٌ أَوْ قُتِلَ فَلَانٌ شَہِیْدٌ، فَإِنَّ الرَّجُلَ یُقَاتِلُ لِیَغْنَمَ، وَیُقَاتِلُ لِیُذْکَرَ، وَیُقَاتِلُ لِیُرٰی مَکَانُہُ، فَإِنْ کُنْتُمْ شَاہِدِینَ لَا مَحَالَۃَ، فَاشْہَدُوا لِلرَّہْطِ الَّذِینَ بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَرِیَّۃٍ فَقُتِلُوْا، فَقَالُوْا: اللّٰہُمَّ بَلِّغْ نَبِیَّنَا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنَّا أَنَّا قَدْ لَقِینَاکَ فَرَضِینَا عَنْکَ وَرَضِیتَ عَنَّا۔ (مسند أحمد: ۳۹۵۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اس طرح کہنے سے بچا کرو کہ فلاں کی وفات شہادت ہے، یا فلاں شہید ہو گیا ہے، کیونکہ کوئی آدمی غنیمت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شہرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے اور کوئی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اس کے مرتبے کا پتہ چل جائے، اگر تم نے لامحالہ طور پر گواہی دینی ہی ہے تو ان لوگوں کے لیے شہادت کی گواہی دو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن کو ایک سریّہ میں بھیجا تھا اور ان کو قتل کر دیا گیا تھا، انھوں نے قتل ہونے سے پہلے کہا تھا: اے اللہ! ہمارے نبی کو ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم تجھ کو مل چکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4897

۔ (۴۸۹۷)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: تَقُوْلُوْنَ لِمَنْ قُتِلَ فِی مَغَازِیکُمْ، قُتِلَ فُلَانٌ شَہِیدًا، مَاتَ فُلَانٌ شَہِیدًا، وَلَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِہِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِہِ ذَہَبًا وَفِضَّۃً یَبْتَغِی التِّجَارَۃَ، فَلَا تَقُولُوْا ذَاکُمْ، وَلٰکِنْ قُوْلُوْا کَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۳۴۰)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو آدمی تمہاری ان جنگوں میں مارا جاتا ہے تو تم اس کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہو گیا ہے، جبکہ ممکن ہے کہ اس نے تجارت کی خاطر اپنے چوپائے کی کمر پر یا سواری کے پہلوؤں پر سونا اور چاندی لاد رکھا ہو، لہذا کسی کے بارے میں یہ شہادت والی بات نہ کیا کرو، ہاں وہ بات کر سکتے ہو، جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کی ہے کہ جو آدمی اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا، وہ جنت میں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4898

۔ (۴۸۹۸)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیْدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ أَہْلِہِ فَہُوَ شَہِیْدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِیْنِہِ فَہُوَ شَہِیْدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِہِ فَہُوَ شَہِیْدٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۵۲)
۔ سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے مال کے تحفظ میں مارا گیا، وہ شہید ہے، جو آدمی اپنے اہل و عیال کا تحفظ کرتا ہوا قتل ہو گیا، وہ شہید ہے، جو آدمی اپنے دین کو بچاتے ہوئے مارا گیا، وہ شہید ہے اور جو آدمی اپنے خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا، وہ بھی شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4899

۔ (۴۸۹۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ أُرِیْدَ مَالُہٗ بِغَیْرِ حَقٍّ فَقُتِلَ دُوْنَہُ فَہُوَ شَہِیْدٌ۔)) (مسند أحمد: ۶۸۱۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا مال بغیر حق کے لے لینے کا ارادہ کر لیا اور وہ اس کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا تو وہ شہید ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4900

۔ (۴۹۰۰)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((نِعْمَ الْمِیْتَۃُ أَنْ یَّمُوْتَ الرَّجُلُ دُوْنَ حَقِّہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۹۸)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھی موت یہ ہے کہ آدمی اپنے حق کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4901

۔ (۴۹۰۱)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ، یُحَدِّثُ عَنْ عَمِّہِ، أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَرَادَ أَنْ یَأْخُذَ أَرْضًا لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو یُقَالُ لَہَا: الْوَہْطُ، فَأَمَرَ مَوَالِیَہُ فَلَبِسُوا آلَتَہُمْ، وَأَرَادُوا الْقِتَالَ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ، فَقُلْتُ: مَاذَا؟ فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُظْلَمُ بِمَظْلَمَۃٍ فَیُقَاتِلَ فَیُقْتَلَ إِلَّا قُتِلَ شَہِیدًا۔)) (مسند أحمد: ۶۹۱۳)
۔ سعد بن ابراہیم سے مروی ہے، انھوں نے بنومخزوم کے ایک آدمی سے سنا، وہ اپنے چچا سے بیان کرتا ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وہط نامی زمین لینا چاہی، لیکن انھوں نے اپنے غلاموں کو حکم دیا، پس انھوں نے اپنے آلات اٹھا لیے اور لڑنے کے لیے تیار ہو گئے، میں ان کے پاس گیا اور کہا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس مسلمان پر ظلم کیا جاتا ہے اور وہ آگے سے قتال کرتا ہے اور مارا جاتا ہے، تو وہ شہید ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4902

۔ (۴۹۰۲)۔ عَن حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ، أَنَّ رَجُلًا یُقَالُ لَہُ: حَمَمَۃُ، کَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، خَرَجَ إِلٰی أَصْبَہَانَ غَازِیًا فِی خِلَافَۃِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ: اللّٰہُمَّ إِنَّ حَمَمَۃَ یَزْعُمُ أَنَّہُ یُحِبُّ لِقَائَ کَ، فَإِنْ کَانَ حَمَمَۃُ صَادِقًا فَاعْزِمْ لَہُ صِدْقَہُ، وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا فَاعْزِمْ عَلَیْہِ وَإِنْ کَرِہَ، اللّٰہُمَّ لَا تَرُدَّ حَمَمَۃَ مِنْ سَفَرِہِ ہٰذَا، قَالَ: فَأَخَذَہُ الْمَوْتُ، وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّۃً: الْبَطْنُ، فَمَاتَ بأَصْبَہَانَ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو مُوسٰی فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّا وَاللّٰہِ مَا سَمِعْنَا فِیمَا سَمِعْنَا مِنْ نَبِیِّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا بَلَغَ عِلْمَنَا إِلَّا أَنَّ حَمَمَۃَ شَہِیدٌ۔ (مسند أحمد: ۱۹۸۹۳)
۔ حمید بن عبد الرحمن حمیری کہتے ہیں کہ حممہ نامی ایک آدمی جہاد کرنے کے لیے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت میں اصفہان کی طرف نکلا، یہ آدمی اصحاب ِ رسول میں سے تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ! بیشک حممہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تیری ملاقات کو پسند کرتا ہے، اگر حممہ سچا ہے تو تو اس کے سچ کو پورا کر دے اور اس کو شہید کر دے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر بھی تو اس کو شہید کر دے، اگرچہ یہ ناپسند کرتا ہو، اے اللہ! حممہ کو اس سفر سے واپس نہ لوٹانا۔ ایسے ہی ہوا اور وہ پیٹ کی بیماری کی وجہ سے اصبہان کے علاقے میں فوت ہو گیا۔ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! جو کچھ ہم نے تمہارے نبی سے سنا اور جتنا ہم نے علم حاصل کیا، اس کا یہ تقاضا یہ ہے کہ حممہ شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4903

۔ (۴۹۰۳)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَأُخْرِجَ بِجِنَازَتِہِ، فَلَمَّا رَجَعْنَا تَلَقَّانَا خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَۃَ وَسُلَیْمَانُ بْنُ صُرَدٍ وَکِلَاہُمَا قَدْ کَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ، فَقَالَا: سَبَقْتُمُونَا بِہٰذَا الرَّجُلِ الصَّالِحِ، فَذَکَرُوْا أَنَّہُ کَانَ بِہِ بَطْنٌ، وَأَنَّہُمْ خَشُوْا عَلَیْہِ الْحَرَّ، قَالَ: فَنَظَرَ أَحَدُہُمَا إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ قَتَلَہُ بَطْنُہُ لَمْ یُعَذَّبْ فِیْ قَبْرِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۵۰۲)
۔ ابو اسحق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک نیک سیرت آدمی فوت ہو گیا، جب اس کا جنازہ نکالا گیا تو ہمیں سیدنا خالد بن عرفطہ اور سیدنا سلیمان بن صرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ملے، یہ دونوں صحابی تھے، انھوں نے کہا: تم اس نیک آدمی سلسلے کے میں ہم سے سبقت لے گئے ہو، لوگوں نے کہا: اس کو پیٹ کی بیماری تھی اور ہمیں گرمی کی وجہ سے ڈر تھا، یہ سن کر ان دو میں سے ہر ایک نے دوسرے کو دیکھا اور کہا: کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ جو آدمی پیٹ کی وجہ سے فوت ہو گا، اس کو قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ (مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق دوسرے صحابی نے جواب دیا: جی کیوں نہیں۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4904

۔ (۴۹۰۴)۔ عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، بِمَا مَاتَ ابْنُ أَبِیْ عَمْرَۃَ؟ فَقَالُوْا: بِالطَّاعُوْنِ، فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلطَّاعُوْنُ شَہَادَۃٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۵۴۷)
۔ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ ابن ابی عمروہ کیسے فوت ہوا ہے، انھوں نے کہا: طاعون کے سبب سے، پھر انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: طاعون ہر مسلمان کی شہادت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4905

۔ (۴۹۰۵)۔ عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَخْتَصِمُ الشُّہَدَائُ، وَالْمُتَوَفَّوْنَ عَلٰی فُرُشِہِمْ إِلٰی رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ فِی الَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنَ الطَّاعُونِ، فَیَقُولُ: الشُّہَدَائُ إِخْوَانُنَا قُتِلُوا کَمَا قُتِلْنَا، وَیَقُولُ الْمُتَوَفَّوْنَ عَلٰی فُرُشِہِمْ: إِخْوَانُنَا مَاتُوا عَلٰی فُرُشِہِمْ کَمَا مِتْنَا عَلٰی فُرُشِنَا، فَیَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوْا إِلٰی جِرَاحِہِمْ، فَإِنْ أَشْبَہَتْ جِرَاحُہُمْ جِرَاحَ الْمَقْتُولِینَ فَإِنَّہُمْ مِنْہُمْ وَمَعَہُمْ، فَإِذَا جِرَاحُہُمْ قَدْ أَشْبَہَتْ جِرَاحَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۲۹۱)
۔ سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء اور بستروں پر طبعی موت فوت ہونے والے اللہ تعالیٰ کے پاس ان لوگوں کے بارے میں جھگڑیں گے، جو طاعون کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں، شہداء کہیں گے: یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہماری طرح شہید ہوئے ہیں، بستروں پر فوت ہونے والے کہیں گے: یہ ہمارے بھائی ہے اور بستروں پر ایسی ہی طبعی موت فوت ہوئے ہیں، جیسے ہم مرے ہیں، اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتے ہوئے کہے گا: تم لوگ ان کے زخموں کو دیکھ لو، اگر ان کے زخم شہداء کے زخموں کے مشابہ ہوئے تو یہ ان ہی میں سے اور ان کے ساتھ ہوں گے، پس ان کے زخم شہدا کے زخموں کے مشابہ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4906

۔ (۴۹۰۶)۔ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدِنِ السُّلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّٔبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَہٗ۔ (مسند أحمد: ۱۷۸۰۱)
۔ سیدنا عتبہ بن عبد سُلَمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4907

۔ (۴۹۰۷)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْمَیِّتُ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیْدٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۵۷۰)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اندرونی پھوڑے (کینسر و سرطان وغیرہ) سے مرجانے والا شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4908

۔ (۴۹۰۸)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْأَلْہَانِیِّ، قَالَ: ذُکِرَ عِنْدَ أَبِی عِنَبَۃَ الْخَوْلَانِیِّ الشُّہَدَائُ، فَذَکَرُوْا الْمَبْطُونَ وَالْمَطْعُونَ وَالنُّفَسَائَ، فَغَضِبَ أَبُو عِنَبَۃَ وَقَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ نَبِیِّنَا عَنْ نَبِیِّنَا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، أَنَّہُ قَالَ: ((إِنَّ شُہَدَائَ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ أُمَنَائُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ فِی خَلْقِہِ قُتِلُوْا أَوْ مَاتُوا۔)) (مسند أحمد: ۱۷۹۳۹)
۔ محمد بن زیاد الہانی کہتے ہیں: سیدنا ابو عنبہ خولانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس شہداء کا تذکرہ کیا گیا، لوگوں نے پیٹ اور طاعون کی بیماری سے مرنے والوں اور نفاس میں فوت ہونے والی خواتین کا ذکر کیا، سیدنا ابو عنبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا: ہمارے نبی کے اصحاب نے ہمارے نبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین میں اللہ تعالیٰ کے شہداء وہ ہیں، جو اس کی زمین میں اس کی مخلوق میں سے امانت والے ہیں، ان کو قتل کیا جائے یا وہ طبعی موت فوت ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4909

۔ (۴۹۰۹)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَتَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا مَرِیْضٌ، فِی نَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ یَعُودُونِی، فَقَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّہِیدُ؟)) فَسَکَتُوْا، فَقَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّہِیدُ؟)) فَسَکَتُوْا، قَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّہِیدُ؟)) فَقُلْتُ: لِامْرَأَتِی أَسْنِدِینِی فَأَسْنَدَتْنِی، فَقُلْتُ: مَنْ أَسْلَمَ ثُمَّ ہَاجَرَ ثُمَّ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ، الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہَادَۃٌ، وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ، وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ، وَالنُّفَسَائُ شَہَادَۃٌ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۷۸)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ انصاری لوگوں سمیت میری عیادت کے لیے میرے پاس تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ شہید کون ہوتا ہے؟ وہ جواباً خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ شہید کون ہوتا ہے؟ وہ اس بار بھی خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: میں کہہ رہا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ شہید کون ہوتا ہے؟ میں نے اپنی بیوی سے کہا: مجھے سہارا دے، پس اس نے مجھے سہارا دیا، پھر میں نے کہا: جی جو شخص اسلام لایا، پھر اس نے ہجرت کی اور پھر وہ اللہ کی راہ میں قتل ہو گیا، وہ شہید ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء کی تعداد کم ہو گی، بلکہ اللہ کی راہ میں قتل بھی شہادت ہے، پیٹ کی بیماری کی وجہ سے موت بھی شہادت ہے، ڈوبنا بھی شہادت ہے اور نفاس میں فوت ہو جانا بھی شہادت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4910

۔ (۴۹۱۰)۔ عَنْ رَاشِدِ بْنِ حُبَیْشٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ عَلٰی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ یَعُودُہُ فِی مَرَضِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَتَعْلَمُونَ مَنِ الشَّہِیدُ مِنْ أُمَّتِی؟)) فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ عُبَادَۃُ: سَانِدُونِی فَأَسْنَدُوہُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الصَّابِرُ الْمُحْتَسِبُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ، الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ شَہَادَۃٌ، وَالطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ، وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ، وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ، وَالنُّفَسَائُ یَجُرُّہَا وَلَدُہَا بِسَرَرِہِ إِلَی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: وَزَادَ فِیہَا أَبُو الْعَوَّامِ: سَادِنُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَالْحَرْقُ وَالسَّیْلُ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۹۴)
۔ سیدنا راشد بن حبیش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا عبادہ بن صامت کی تیمار داری کرنے کے لیے ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون ہیں؟ لوگ خاموش رہے، البتہ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے سہارا دو، پس لوگوں نے ان کو سہارا دیا، پھر انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء کم ہوں گے، سنو، اللہ کی راہ میں قتل بھی شہادت ہے، طاعون بھی شہادت ہے، ڈوبنا بھی شہادت ہے، پیٹ کی بیماری بھی شہادت ہے، اور نفاس والی خواتین کی صورتحال تو یہ ہو گی کہ ان کا بچہ اپنے ناف کے اس حصے کے ذریعے ان کو جنت کی طرف کھینچ کر لے جائے گا، جو ولادت کے وقت کاٹا جاتا ہے۔ ابو عوام کی روایت میں ان افراد کی زیادتی ہے: بیت المقدس کا خادم شہید ہے، آگ میں جل جانا شہادت ہے اور سیلاب میں مرجانا بھی شہادت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4911

۔ (۴۹۱۱)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَادَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ، قَالَ: فَمَا تَحَوَّزَ لَہُ عَنْ فِرَاشِہِ، فَقَالَ: ((أَتَدْرُونَ مَنْ شُہَدَائُ أُمَّتِی؟)) قَالُوْا: قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَہَادَۃٌ، قَالَ: ((إِنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ، قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَہَادَۃٌ، وَالطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ، وَالْمَرْأَۃُ یَقْتُلُہَا وَلَدُہَا جَمْعَائَ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۶۰)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا عبد اللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تیمارداری کرنے کیلئے تشریف لائے، وہ (شدت ِ مرض کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خاطر) اپنے بستر سے ہٹ نہ سکے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے شہداء کون کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: مسلمان کا قتل ہو جانا ہی شہادت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء کم ہوں گے، سنو، مسلمان کا قتل بھی شہادت ہے، طاعون بھی شہادت ہے اور وہ حاملہ خاتون بھی شہید ہے، جو اپنے پیٹ والے بچے کی وجہ سے فوت ہو جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4912

۔ (۴۹۱۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ؟)) قَالُوْا: الَّذِی یُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتّٰی یُقْتَلَ، قَالَ: ((إِنَّ الشَّہِیدَ فِی أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ، الْقَتِیلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدٌ، وَالطَّعِینُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدٌ، وَالْغَرِیقُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدٌ، وَالْخَارُّ عَنْ دَابَّتِہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدٌ، وَالْمَجْنُوبُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدٌ۔)) قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَجْنُوبُ صَاحِبُ الْجَنْبِ، زاد فی روایۃ: وَالْبَطْنُ شَھَادَۃٌ وَالنُّفَسَائُ شَھَادَۃٌ۔ (مسند أحمد: ۹۶۹۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو شہید شمار کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جو اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے قتل ہو جائے، وہ شہید ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء کم ہوں گے، اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا بھی شہید ہے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں طاعون کی وجہ سے مرنے والا بھی شہید ہے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں غرق ہونے والا بھی شہید ہے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے جانور سے گر کر وفات پانے والا بھی شہید ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں نمونیا کی بیماری سے فوت ہو جانے والا بھی شہید ہے۔ محمد راوی نے کہا: مَجْنُوب سے مراد صَاحِبُ الْجَنْب ہے، ایک روایت میں ان الفاظ کی بھی زیادتی ہے: پیٹ کی بیماری بھی شہادت ہے اور نفاس میں فوت ہونے والی خواتین بھی شہید ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4913

۔ (۴۹۱۳)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ، وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ، وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ، وَالنُّفَسَائُ شَہَادَۃٌ)) (مسند أحمد: ۱۵۳۸۱)
۔ سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: طاعون شہادت ہے، ڈوبنا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری شہادت ہے اور نفاس والی خواتین شہید ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4914

۔ (۴۹۱۴)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الشُّہَدَائُ خَمْسَۃٌ، الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْہَدْمِ، وَالشَّہِیدُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلََّ۔)) (مسند أحمد: ۸۲۸۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں: طاعون کی بیماری والا، پیٹ کی بیماری والا، ڈوبنے والا، دیوار کے نیچے آ کر فوت ہو جانے والا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہونے والا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4915

۔ (۴۹۱۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ ثَابِتٍ لَمَّا مَاتَ قَالَتِ ابْنَتُہُ: وَاللّٰہِ إِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَکُونَ شَہِیدًا، أَمَا إِنَّکَ کُنْتَ قَدْ قَضَیْتَ جِہَازَکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَہُ عَلٰی قَدْرِ نِیَّتِہِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّہَادَۃَ؟)) قَالُوْا: قَتْلٌ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ، وَالْغَرِقُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرْقِ شَہِیدٌ، وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ، وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَہِیدَۃٌ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۱۵۴)
۔ جابر بن عتیک سے مروی ہے کہ جب سیدنا عبد اللہ بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہونے لگے تو ان کی ایک بیٹی نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو یہ امید کرتی تھی کہ آپ شہید ہوں گے، بہرحال آپ نے اپنی تیاری تو کر رکھی تھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے مطابق اجر تو ثابت کر دیا ہے، اور تم یہ بتاؤ کہ تم لوگ کس چیز کو شہادت شمار کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں قتل کے علاوہ بھی شہادت کی سات قسمیں ہیں: طاعون کی بیماری میں فوت ہونے والا شہید ہے، ڈوبنے والا شہید ہے، اندرونی پھوڑے (کینسر و سرطان وغیرہ کی) وجہ سے وفات پانے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، جل کر فوت ہونے والا شہید ہے، گرنے والی دیوار کے نیچے آ کر فوت ہو جانے والا شہید ہے اور حمل کی وجہ سے فوت ہو جانے والی خاتون شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4916

۔ (۴۹۱۶)۔ عَنْ عَبدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُتِلَ قَتْلًا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَۃً أَنَّہُ لَمْ یُقْتَلْ، وَذٰلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَہُ نَبِیًّا وَاتَّخَذَہُ شَہِیدًا، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِإِبْرَاہِیمَ فَقَالَ: کَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّ الْیَہُودَ سَمُّوہُ وَأَبَا بَکْرٍ۔ (مسند أحمد: ۴۱۳۹)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اگر میں نو بار قسم اٹھا کر کہوں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شہید کیا گیا ہے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایک قسم اٹھا کر کہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شہید نہیں کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نبی بنایا اور بطورِ شہید کے لیا، اعمش راوی کہتے ہیں: جب میں نے یہ بات ابراہیم کو بتلائی تو انھوں نے کہا: ان لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہودیوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زہر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4917

۔ (۴۹۱۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أُمِّہِ أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، وَکَانَتْ قَدْ صَلَّتْ اِلَی الْقِبْلَتَیْنِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، دَخَلَتْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی وَجَعِہِ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، فَقَالَتْ: بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا تَتَّہِمُ بِنَفْسِکَ؟ فَإِنِّی لَا أَتَّہِمُ ابْنِیْ إِلَّا الطَّعَامَ الَّذِی أَکَلَ مَعَکَ بِخَیْبَرَ، وَکَانَ ابْنُہَا مَاتَ قَبْلَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((وَاَنَا لَا اَتَّھِمُ غَیْرَہٗ، ھٰذَا اَوَانُ قَطْعِ اَبْھَرِیْ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۳۰)
۔ سیدہ ام مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، جنھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، سے مروی ہے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے دوران آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کس چیز کو اپنی بیماری کا سبب قرار دیتے ہیں، میرا خیال تو یہی ہے کہ اس کی وجہ وہ کھانا ہے جو میرے بیٹے نے بھی آپ کے ساتھ خیبر میں کھایا تھا، ان کا بیٹا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے وفات پا چکا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز کو سبب نہیں سمجھتا، اب تو دل سے نکلنے والی رگ کے کٹ جانے کا وقت آ چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4918

۔ (۴۹۱۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ہَاجَرَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْیَمَنِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہَجَرْتَ الشِّرْکَ وَلٰکِنَّہُ الْجِہَادُ، ہَلْ بِالْیَمَنِ أَبَوَاکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَذِنَا لَکَ؟)) قَالَ: لَا، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ارْجِعْ إِلَی أَبَوَیْکَ فَاسْتَأْذِنْہُمَا فَإِنْ فَعَلَا وَإِلَّا فَبَرَّہُمَا۔)) (مسند أحمد: ۱۱۷۴۴)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے یمن سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ہجرت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تو نے شرک کو چھوڑ دیا ہے، لیکن اب جہاد باقی ہے، اچھا یہ بتا کہ کیا تیرے والدین یمن میں زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا انھوں نے تجھے اجازت دی ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو اپنے والدین کی طرف لوٹ جا اور ان سے اجازت طلب کر، اگر انھوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک، وگرنہ ان ہی کے ساتھ نیکی کرتے رہنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4919

۔ (۴۹۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَحْتَ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ، إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ ہٰذَا الشِّعْبِ، فَسَلَّمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ أَرَدْتُ الْجِہَادَ مَعَکَ أَبْتَغِی بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَ: ((ہَلْ مِنْ أَبَوَیْکَ أَحَدٌ حَیٌّ؟)) قَالَ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کِلَاہُمَا، قَالَ: ((فَارْجِعْ ابْرَرْ أَبَوَیْکَ۔)) (وَفِیْ لَفْظٍ: فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ) قَالَ: فَوَلّٰی رَاجِعًا مِنْ حَیْثُ جَائََ۔ (مسند أحمد: ۶۵۲۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کو اس درخت کے نیچے دیکھا ، اس گھاٹی میں سے ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام دیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، میں اس عمل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور آخرت کے گھر کو تلاش کرنا چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! دونوں زندہ ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو لوٹ جا اور ان کے ساتھ نیکی کر۔ ایک روایت میں ہے: ان میں جہاد کر۔ پس وہ جہاں سے آیا تھا، اسی جہت کی طرف لوٹ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4920

۔ (۴۹۲۰)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمَۃَ، جَائَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَدْتُ الْغَزْوَ وَجِئْتُکَ أَسْتَشِیرُکَ، فَقَالَ: ((ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: ((الْزَمْہَا فَإِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِہَا۔)) ثُمَّ الثَّانِیَۃَ ثُمَّ الثَّالِثَۃَ فِی مَقَاعِدَ شَتّٰی کَمِثْلِ ہٰذَا الْقَوْلِ۔ (مسند أحمد: ۱۵۶۲۳)
۔ سیدنا معاویہ بن جاہمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مشورہ کرنے کے لیے آیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں موجود ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی خدمت میں لگ جا، پس بیشک اس کے پاؤں کے پاس جنت ہے۔ پھر اس نے مختلف مجلسوں میں دوسری بار اور پھر تیسری بار یہی بات دوہرائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4921

۔ (۴۹۲۱)۔ حَدَّثَنَا خُبَیْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُرِیدُ غَزْوًا أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قَوْمِی وَلَمْ نُسْلِمْ، فَقُلْنَا: إِنَّا نَسْتَحْیِی أَنْ یَشْہَدَ قَوْمُنَا مَشْہَدًا لَا نَشْہَدُہُ مَعَہُمْ، قَالَ: ((أَوَ أَسْلَمْتُمَا؟)) قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَإِنَّا لَا نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔)) قَالَ: فَأَسْلَمْنَا وَشَہِدْنَا مَعَہُ، فَقَتَلْتُ رَجُلًا، وَضَرَبَنِی ضَرْبَۃً، وَتَزَوَّجْتُ بِابْنَتِہِ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَکَانَتْ تَقُولُ: لَا عَدِمْتَ رَجُلًا وَشَّحَکَ ہَذَا الْوِشَاحَ، فَأَقُولُ: لَا عَدِمْتِ رَجُلًا عَجَّلَ أَبَاکِ النَّارَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۵۵)
۔ سیدنا خبیب بن یساف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میری قوم کا ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک غزوے کے لیے جانا چاہ رہے تھے، ابھی تک ہم مسلمان نہیں ہوئے تھے، پس ہم نے کہا: بیشک ہم اس چیز سے شرم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری قوم ایک لڑائی میں شریک ہو اور ہم ان کے ساتھ شامل نہ ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہم مشرکوںکی مخالفت میں مشرکوں سے مدد طلب نہیں کرتے۔ یہ ارشاد سن کر ہم مسلمان ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس غزوے میں حاضر ہوئے، میں نے ایک آدمی کو قتل کیا اور اس نے بھی مجھے ایک ضرب لگائی تھی، پھر میں نے اس کی بیٹی سے شادی کر لی تھی، وہ کہا کرتی تھی: تو اس آدمی کو گم نہ پائے، جس نے تجھے کندھے اور پہلو کے درمیان ضرب لگائی تھی، اور میں اس کو کہتا تھا: تو اس آدمی کو گم نہ پائے، جس نے تیری باپ کو جلدی جلدی آگ میں بھیج دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4922

۔ (۴۹۲۲)۔ عَـنْ عُـرْوَۃَ، عَـنْ عَـائِشَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ إِلَی بَدْرٍ، فَتَبِعَہُ رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ، فَلَحِقَہُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ، فَقَالَ: إِنِّی أَرَدْتُ أَنْ أَتْبَعَکَ وَأُصِیبَ مَعَکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((ارْجِعْ فَلَنْ نَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَحِقَہُ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ، فَفَرِحَ بِذَاکَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ لَہُ قُوَّۃٌ وَجَلَدٌ، فَقَالَ: جِئْتُ لِأَتْبَعَکَ وَأُصِیبَ مَعَکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَحِقَہُ حِینَ ظَہَرَ عَلَی الْبَیْدَائِ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَخَرَجَ بِہِ۔ (مسند أحمد: ۲۵۶۷۳)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف نکلے، ایک مشرک آدمی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلا اور جمرہ کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پا لیا اور اس نے کہا: میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ مل کر لڑوں اور مالِ غنیمت حاصل کروں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو لوٹ جا، پس بیشک ہم کسی مشرک مدد طلب نہیں کرتے۔ لیکن پھر وہ درخت کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا ملا، صحابۂ کرام کو اس سے بڑی خوشی ہوئی، کیونکہ یہ بڑا مضبوط اور سخت آدمی تھا، اس نے کہا: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر لڑنے اور مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر لوٹ جا، پس بیشک میں ہرگز مشرک سے مدد طلب نہیں کرتا۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیداء مقام پر چڑھے تو وہی آدمی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آ ملا اور وہی بات کہی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس اس بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو لے کر آگے بڑھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4923

۔ (۴۹۲۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تَسْتَضِیئُوْا بِنَارِ الْمُشْرِکِینَ، وَلَا تَنْقُشُوا خَوَاتِیمَکُمْ عَرَبِیًّا۔)) (مسند أحمد: ۱۱۹۷۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرکوں کی آگ سے روشنی حاصل نہ کرو اور اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش نہ بنواؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4924

۔ (۴۹۲۴)۔ عَنْ ذِی مِخْمَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((سَیُصَالِحُکُمْ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا، ثُمَّ تَغْزُونَ وَہُمْ عَدُوًّا، فَتُنْصَرُونَ وَتَسْلَمُونَ وَتَغْنَمُونَ۔)) الحدیث (مسند أحمد: ۱۶۹۵۰)
۔ صحابی ٔ رسول سیدنا ذی مخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب رومیوں سے امن والی صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک دشمن سے لڑو گے، اور تمہاری مدد کی جائے گی اور تم سالم رہو گے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کرو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4925

۔ (۴۹۲۵)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا سَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَدْرٍ، خَرَجَ فَاسْتَشَارَ النَّاسَ، فَأَشَارَ عَلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ اسْتَشَارَہُمْ، فَأَشَارَ عَلَیْہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَسَکَتَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: إِنَّمَا یُرِیدُکُمْ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ، لَا نَکُونُ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام: {اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ} وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَوْ ضَرَبْتَ أَکْبَادَ الْإِبِلِ حَتّٰی تَبْلُغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَکُنَّا مَعَکَََََ۔ (مسند أحمد: ۱۲۰۴۵)
۔ سیدنا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بدر کی طرف جانے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، پہلے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مشورہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر مشورہ کیا، اس بار سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مشورہ دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، پھر ایک انصاری آدمی بولا اور اس نے کہا: انصاریو! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم سے جواب چاہتے ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ہے! ہم آپ کو وہ بات نہیں کہیں گے، جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تو جا اور تیرا ربّ جائے اور تم دونوں جا کرلڑو، بیشک ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اور لیکن ہم، اللہ کی قسم! اگر آپ اونٹوں کی سواری کرتے کرتے برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4926

۔ (۴۹۲۶)۔ عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: مَرِضَ مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ مَرَضًا ثَقُلَ فِیہِ، فَأَتَاہُ ابْنُ زِیَادٍ یَعُودُہُ، فَقَالَ: إِنِّی مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً، فَلَمْ یُحِطْہُمْ بِنَصِیحَۃٍ، لَمْ یَجِدْ رِیحَ الْجَنَّۃِ، وَرِیحُہَا یُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) قَالَ ابْنُ زِیَادٍ: أَلَا کُنْتَ حَدَّثْتَنِی بِہٰذَا قَبْلَ الْآنَ، قَالَ: وَالْآنَ لَوْلَا الَّذِی أَنْتَ عَلَیْہِ لَمْ أُحَدِّثْکَ بِہِ۔ وَفِیْ لَفْظٍ: ((لَا یَسْتَرْعِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَبْدًا رَعِیَّۃِ فَیَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَہُوَ لَہَا غَاشٌّ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ مِنْ رِوَایَۃٍ أَبِی الْأَسْوَدِ، عَنِ أَبِیہِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیُّمَا رَاعٍ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَغَشَّہَا فَہُوَ فِی النَّارِ۔))وَفِیْ لَفْظٍ: عَنْ ابْنَۃِ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِیہَا مَعْقِلٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَیْسَ مِنْ وَالِی أُمَّۃٍ قَلَّتْ أَوْ کَثُرَتْ لَا یَعْدِلُ فِیہَا إِلَّا کَبَّہُ عَلٰی وَجْھِہِ فِی النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۵۵۵، ۲۰۵۵۶، ۲۰۵۸۱)
۔ امام حسن بصری کہتے ہیں: سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے اور وہ بیماری ان پر کافی گراں گزری، ان کی عیادت کرنے کے لیے ابن زیاد ان کے پاس آیا، انھوں نے کہا: میں تجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کو عوام الناس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنایا گیا، لیکن اس نے ان کی خیرخواہی نہ کی تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا، جبکہ جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت پر پائی جاتی ہے۔ ابن زیاد نے کہا: تم نے یہ حدیث مجھے اس وقت سے پہلے بیان کیوں نہیں کی تھی؟ انھوں نے کہا: اور ابھی بھی اگر وہ کچھ نہ ہوتا، جس پر تو اترا ہوا ہے تو میں تجھے بیان نہ کرتا۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کو عوام الناس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بناتا ے، لیکن وہ اپنی موت والے دن اس حال میں مرتا ہے کہ وہ ان سے دھوکہ کرنے والا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے : سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رعایا کی دیکھ بھال جس نگہبان کے سپرد کی گئی، لیکن اس نے ان سے دھوکہ کیا تو وہ آگ میں ہو گا۔ ایک روایت میں ہے: سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امت تھوڑی ہو یا زیادہ، جو اس کا والی بنے گا اور پھر اس میں انصاف نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو چہرے کے بل جہنم میں گرائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4927

۔ (۴۹۲۷)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُہَنِیِّ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: نَزَلْنَا عَلَی حِصْنِ سِنَانٍ بِأَرْضِ الرُّومِ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ، فَضَیَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، وَقَطَعُوا الطَّرِیقَ، فَقَالَ مُعَاذٌ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ کَذَا وَکَذَا، فَضَیَّقَ النَّاسُ الطَّرِیقَ، فَبَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُنَادِیًا، فَنَادٰی مَنْ ضَیَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِیقًا فَلَا جِہَادَ لَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۷۳۳)
۔ سیدنا معاذ جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم عبد اللہ بن عبد الملک کے ساتھ روم کی سرزمین میں سِنان کے قلعہ کے پاس اترے، لوگوں نے پڑاؤ کے مقامات کو تنگ کردیا اور راستہ منقطع ہو گیا، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ فلاں فلاں غزوہ کیا، ایک دفعہ لوگوں نے راستے کو تنگ کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف مُنادِی بھیجا، اس نے یہ اعلان کیا کہ جس آدمی نے منزل کو تنگ کیا یا راستے کو منقطع کیا، اس کا کوئی جہاد نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4928

۔ (۴۹۲۸)۔ عن عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدٍ قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْقِتَالِ، فَرُمِیَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ بِسَہْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَوْجَبَ ہٰذَا۔)) وَقَالُوْا حِینَ أَمَرَہُمْ بِالْقِتَالِ: إِذَنْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَا نَقُولُ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ: {اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ} وَلٰکِنْ اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا مَعَکُمَا مِنْ الْمُقَاتِلِینَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۷۹۱)
۔ سیدنا عتبہ بن عبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قتال کا حکم دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک صحابی کو تیر لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اس نے جنت کو واجب کر لیا ہے۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو قتال کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر تو ہم وہ بات نہیں کریں گے، جو بنو اسرائیل نے کی تھی، انھوں نے کہا تھا: اے موسی! تو جا اور تیرا ربّ جائے، تم دونوں جا کر لڑو، بیشک ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ اور آپ کا ربّ چلے، بیشک ہم وہ جنگجو ہیں، جو آپ کے ساتھ چلیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4929

۔ (۴۹۲۹)۔ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَسِیرٍ لَہُ: ((إِنَّا مُدْلِجُونَ فَلَا یُدْلِجَنَّ مُصْعِبٌ وَلَا مُضْعِفٌ۔)) فَأَدْلَجَ رَجُلٌ عَلٰی نَاقَۃٍ لَہُ صَعْبَۃٍ، فَسَقَطَ فَانْدَقَّتْ فَخِذُہُ فَمَاتَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالصَّلَاۃِ عَلَیْہِ ثُمَّ أَمَرَ مُنَادِیًا یُنَادِی فِی النَّاسِ: ((إِنَّ الْجَنَّۃَ لَا تَحِلُّ لِعَاصٍ، إِنَّ الْجَنَّۃَ لَا تَحِلُّ لِعَاصٍ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند أحمد: ۲۲۷۲۲)
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ایک سفر کے دوران فرمایا: بیشک آج ہم ساری رات سفر کرنے والے ہیں، لہذا کوئی سرکش اور کمزور اونٹ والا آدمی رات کا یہ سفر نہ چلے۔ لیکن ایک آدمی اپنے سرکش اونٹ پر اس سفر میں چل دیا، لیکن وہ گر پڑا اور اس کی ران ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے تو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن پھر ایک مُنادِی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کرے: بیشک جنت نافرمان کے لیے حلال نہیں ہے، بیشک جنت نافرمان کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4930

۔ (۴۹۳۰)۔ عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیّ قَالَ: کَانَ النَّاسُ إِذَا نَزَلَ رَسُولُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْزِلًا فَعَسْکَرَ تَفَرَّقُوا عَنْہُ فِی الشِّعَابِ وَالْأَوْدِیَۃِ فَقَامَ فِیْھِمْ فَقَالَ: ((إِنَّ تَفَرُّقَکُمْ فِی الشِّعَابِ إِنَّمَا ذٰلِکُمْ مِنَ الشَّیْطَانِ۔)) قَالَ: فَکَانُوْا بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا نَزَلُوا انْضَمَّ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ حَتّٰی إِنَّکَ لَتَقُولُ لَوْ بَسَطْتُ عَلَیْہِمْ کِسَائً لَعَمَّہُمْ أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَََََ۔ (مسند أحمد: ۱۷۸۸۸)
۔ سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے اور رات انتہائی تاریک ہو جاتی تو صحابۂ کرام گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جاتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اُن میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ان گھاٹیوں میں تم لوگوں کا اس طرح بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔ اس فرمان کے بعد جب صحابہ کسی مقام پر اترتے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ یوں مل جاتے کہ تو کہہ سکتا ہے کہ اگر میں ان پر ایک چادر ڈالوں، تووہ ان کو سما لے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4931

۔ (۴۹۳۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجُوْا، قَالَ: وَجَدَ عَلَیْہِمْ فِی شَیْئٍ، فَقَالَ: قَالَ لَہُمْ: أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تُطِیعُونِی؟ قَالَ: قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: فَقَالَ: اجْمَعُوْا حَطَبًا ثُمَّ دَعَا بِنَارٍ فَأَضْرَمَہَا فِیہِ ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ لَتَدْخُلُنَّہَا، قَالَ: فَہَمَّ الْقَوْمُ أَنْ یَدْخُلُوہَا،قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ شَابٌّ مِنْہُمْ: إِنَّمَا فَرَرْتُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ النَّارِ، فَلَا تَعْجَلُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَإِنْ أَمَرَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوہَا فَادْخُلُوا، قَالَ: فَرَجَعُوا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ، فَقَالَ لَہُمْ: ((لَوْ دَخَلْتُمُوہَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْہَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلَّذِیْنَ اَرَادُوْا اَنْ یَدْخُلُوْھَا: ((لَوْ دَخَلْتُمُوْھَا لَمْ تَزَالُوْا فِیْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) وَقَالَ لِلْآخَرِیْنَ قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ: ((لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((لَا طَاعَۃَ لِبَشَرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ۔)) (مسند أحمد: ۶۲۲)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک لشکر روانہ کیا اور ایک انصاری آدمی کو ان کا امیر بنایا، جب وہ لشکر روانہ ہو گیا تو کسی وجہ سے ان کا امیر ان سے ناراض ہو گیا، پس اس نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم کو یہ حکم دیا تھا کہ تم نے میری اطاعت کرنی ہے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اس نے کہا: تو پھر لکڑیاں جمع کرو، پھر اس نے آگ منگوا کر ان کو جلایا اور ان سے کہا: میں تم سے پر زور کہتا ہوں کہ تم ضرور ضرور اس آگ میں داخل ہو جاؤ، لوگوں نے تو اس میں گھس جانے کا ارادہ کر لیا، لیکن ان میں سے ایک نوجوان نے کہا: (ذرا ہوش تو کرو) تم لوگ آگ سے بچنے کے لیے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، پس اس معاملے میںجلدی نہ کرو، یہاں تک کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مل لو (اور اس بارے میںپوچھ لو)، اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم کو اس آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا تو داخل ہو جانا، پس جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو واقعہ کی خبر دی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ اس میں داخل ہو جاتے تو پھر کبھی بھی اس سے نہ نکل سکتے، صرف اور صرف امیر کی اطاعت تو نیکی والے امور میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آگ میں گھس جانے کا ارادہ کرنے والوں سے فرمایا: اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو پھر روزِ قیامت تک اسی میں رہتے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسرے لوگوں کے حق میں اچھی بات کی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف نیک امور میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ کی معصیت میں کسی بشر کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4932

۔ (۴۹۳۲)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلْقَمَۃَ بْنَ مُجَزِّزٍ عَلٰی بَعْثٍ أَنَا فِیہِمْ حَتّٰی انْتَہَیْنَا إِلٰی رَأْسِ غَزَاتِنَا، أَوْ کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ، أَذِنَ لِطَائِفَۃٍ مِنَ الْجَیْشِ، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حُذَافَۃَ بْنِ قَیْسٍ السَّہْمِیَّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ، وَکَانَتْ فِیہِ دُعَابَۃٌ یَعْنِی مِزَاحًا، وَکُنْتُ مِمَّنْ رَجَعَ مَعَہُ، فَنَزَلْنَا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ، قَالَ: وَأَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِیَصْنَعُوا عَلَیْہَا صَنِیعًا لَہُمْ أَوْ یَصْطَلُونَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ: أَلَیْسَ لِی عَلَیْکُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ؟ قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: فَمَا أَنَا بِآمِرِکُمْ بِشَیْئٍ إِنْ صَنَعْتُمُوہُ؟ قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: أَعْزِمُ عَلَیْکُمْ بِحَقِّی وَطَاعَتِی لَمَا تَوَاثَبْتُمْ فِی ہٰذِہِ النَّارِ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوْا حَتّٰی إِذَا ظَنَّ أَنَّہُمْ وَاثِبُونَ، قَالَ: احْبِسُوا أَنْفُسَکُمْ، فَإِنَّمَا کُنْتُ أَضْحَکُ مَعَکُمْ، فَذَکَرُوا ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ أَنْ قَدِمُوا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ أَمَرَکُمْ مِنْہُمْ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا تُطِیعُوہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۱۶۶۲)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا علقمہ بن مجزز ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک جہادی لشکر کا امیر بنا کر روانہ کیا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب ہم اپنے غزوے کے مقام تک پہنچ گئے، یا راستے میں تھے، اس امیر نے ایک گروہ کو علیحدہ کیا اور سیدنا عبد اللہ بن حذافہ سہمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کا امیر بنایا، یہ بدری صحابی تھے اور ان کے مزاج میں مذاق کا عنصر پایا جاتا تھا، جو لوگ ان کے ساتھ لوٹے تھے، میں بھی ان میں تھا، جب ہم نے راستے میں پڑاؤ ڈالا اور لوگوں نے کھانا بنانے کے لیے یا آگ سے حرارت حاصل کرنے کے لیے آگ جلائی تو سیدنا عبد اللہ بن حذافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم لوگوں پر فرض نہیں ہے کہ تم میری بات سنو اور اطاعت کرو؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اس نے کہا: تو پھر میں تم اپنے اور اپنی اطاعت کے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو، لوگ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اپنی کمر پر کپڑا باندھا، جب اس امیر نے دیکھا کہ یہ تو واقعی آگ میں کودنے لگے ہیں تو اس نے کہا: رک جاؤ، میں تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا، جب ان لوگوں نے واپس آ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ ماجرا سنایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان امراء میں سے جو آدمی تم کو نافرمانی کا حکم دے، تو اس کی اطاعت نہ کیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4933

۔ (۴۹۳۳)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ وَکَانَ مِنْ رَہْطِہِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَسَلَحْتُ رَجُلًا سَیْفًا، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: مَا رَأَیْتُ مِثْلَ مَا لَامَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ((أَعَجَزْتُمْ إِذْ بَعَثْتُ رَجُلًا فَلَمْ یَمْضِ لِأَمْرِی أَنْ تَجْعَلُوا مَکَانَہُ مَنْ یَمْضِی لِأَمْرِی۔))(مسند أحمد: ۱۷۱۳۲)
۔ بشر بن عاصم لیثی کہتے ہیں: سیدنا عقبہ بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ میں بشر کی قوم میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، میں نے ایک آدمی کو تلوار دی، جب وہ لوٹا تو اس نے کہا: اس بار رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو ملامت کی ہے، میں نے پہلے اس کی مثال نہیں دیکھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں ایک آدمی کو بھیجتا ہوں اور وہ میرے حکم کو نافذ نہیں کرتا تو کیا تم اس چیز سے عاجز آ گئے کہ اس کی جگہ ایسے آدمی کا تقرر کر دو، جو میرا حکم نافذ کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4934

۔ (۴۹۳۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَا قَاتَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْمًا حَتّٰی یَدْعُوْھُمْ۔ (مسند أحمد: ۲۰۵۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب کسی قوم سے لڑائی کی، پہلے ان کو اسلام کی دعوت دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4935

۔ (۴۹۳۵)۔ عَنْ أَبِی حَازِمٍ، أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ: ((لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا، فَقَالَ: ((أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ؟)) فَقَالَ: ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ فَأُتِیَ بِہِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عَیْنَیْہِ وَدَعَا لَہُ، فَبَرَأَ حَتّٰی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُقَاتِلُہُمْ حَتّٰی یَکُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: ((انْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیہِ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَہْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ))(مسند أحمد: ۲۳۲۰۹)
۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر والے دن فرمایا: کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ وہ غور و فکر کرتے رہے کہ کس شخص کو یہ جھنڈا دیا جائے گا، جب صبح ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو ہر ایک کو جھنڈا ملنے کی امید تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہے؟ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھ خراب ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی طرف پیغام بھیج کر ان کا بلاؤ۔ پس ان کو لایا گیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوکا اور ان کے لیے دعا کی، وہ یوں شفایاب ہوئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف ہی نہ تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جھنڈا عطا کر دیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان سے قتال کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلامتی کے ساتھ چل، یہاں تک کہ ان کے صحن میں جا اتر اور ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ کا کون سا حق ان پر واجب ہے، اللہ کی قسم ہے! اگر اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے کسی ایک بندے کو بھی ہدایت دے دی تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4936

۔ (۴۹۳۶)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلٰی سَرِیَّۃٍ أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللّٰہِ، وَمَنْ مَعَہُ مِنْ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا، وَقَالَ: ((اغْزُوا بِسْمِ اللّٰہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ، فَإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إِلٰی إِحْدٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ، فَأَیَّتُہُنَّ مَا أَجَابُوکَ إِلَیْہَا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ، ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلٰی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ، وَأَعْلِمْہُمْ إِنْ ہُمْ فَعَلُوا ذٰلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ، وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ، فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوْا دَارَہُمْ، فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ، یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللّٰہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَلَا یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلَّا أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَادْعُہُمْ إِلٰی إِعْطَائِ الْجِزْیَۃِ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنِ اللّٰہَ ثُمَّ قَاتِلْہُمْ)) وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ: ((وَإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوکَ أَنْ تَجْعَلَ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَذِمَّۃَ نَبِیِّکَ، فَلَا تَجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَلَا ذِمَّۃَ نَبِیِّہِ، وَلٰکِنْ اجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّتَکَ وَذِمَّۃَ أَبِیکَ وَذِمَمَ أَصْحَابِکَ، فَإِنَّکُمْ إِنْ تُخْفِرُوْا ذِمَمَکُمْ وَذِمَمَ آبَائِکُمْ أَہْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوکَ أَنْ تُنْزِلَہُمْ عَلَی حُکْمِ اللّٰہِ، فَلَا تُنْزِلْہُمْ عَلٰی حُکْمِ اللّٰہِ، وَلٰکِنْ أَنْزِلْہُمْ عَلٰی حُکْمِکَ، فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَتُصِیبُ حُکْمَ اللّٰہِ فِیہِمْ أَمْ لَا۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: ھٰذَا اَوْنَحْوُہٗ۔ (مسند أحمد: ۲۳۴۱۸)
۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی شخص کو چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر بنا کر بھیجتے تو خاص طور پر اس کو اللہ سے ڈرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو خیر و بھلائی کی نصیحت کرتے اور فرماتے: اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کر، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے قتال کر، جب تو اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے آئے تو ان کو تین خصلتوں میں سے ایک کی طرف دعوت دے، وہ ان میں سے جس چیز کا مثبت جواب دیں، تو ان سے وہ قبول کر لے اور ان پر حملہ کرنے سے رک جا، سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دے، اگر وہ قبول کر لیں تو تو ان سے اس چیز کو قبول کر لے، پھر ان کو دعوت دے کہ وہ اپنے گھروں سے مہاجروں کے گھروں کی طرف ہجرت کریں اور ان کو یہ بتلا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو وہ حقوق ملیں گے، جو مہاجرین کو ملے ہوئے ہیں اور ان پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں، اگر وہ اس طرح ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو تو ان کو بتلا دے کہ ان کا حکم بدو مسلمانوں کا ہو گا، ان پر اللہ تعالیٰ کا وہی حکم چلے گا، جو اس قسم کے مسلمانوں پر چلتا ہے، ان کے لیے مالِ فے اور مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو جزیہ دینے کی دعوت دے، اگر وہ مان جائیں تو تو ان سے یہ جزیہ قبول کر لے اور ان سے رک جا اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور ان سے قتال شروع کر دے۔ دوسری سند: اسی قسم کا متن مروی ہے، البتہ اس میں ہے: اور جب تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ تجھ سے یہ چاہیں کہ تو ان کو اللہ کا ذمہ اور اپنے نبی کا ذمہ دے، تو تونے ایسے نہیں کرنا، ان کو اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ نہیں دینا،ہاں ان کو اپنا، اپنے باپ کا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دے سکتے ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نے اپنے اور اپنے آباء کے ذموں کو توڑ دیا تو یہ فعل اس سے ہلکا ہو گا کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ توڑ دو، اسی طرح اگر تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ یہ ارادہ کریں کہ تو ان کو اللہ کے حکم پر اتارے تو تو نے ان کو اللہ کے حکم پر نہیں اتارنا، بلکہ اپنے حکم پر اتارنا ہے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو پا لے گا یا نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4937

۔ (۴۹۳۷)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ: حَاصَرَ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! أَلَا تَنْہَدُ إِلَیْہِمْ؟ قَالَ: لَا، حَتّٰی أَدْعُوَہُمْ کَمَا کَانَ یَدْعُوہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ فَکَلَّمَہُمْ، قَالَ: أَنَا رَجُلٌ فَارِسِیٌّ، وَأَنَا مِنْکُمْ وَالْعَرَبُ یُطِیعُونِی، فَاخْتَارُوا إِحْدٰی ثَلَاثٍ، إِمَّا أَنْ تُسْلِمُوا، وَإِمَّا أَنْ تُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ غَیْرُ مَحْمُودِینَ، وَإِمَّا أَنْ نُنَابِذَکُمْ فَنُقَاتِلَکُمْ، قَالُوا لَا نُسْلِمُ، وَلَا نُعْطِی الْجِزْیَۃَ، وَلٰکِنَّا نُنَابِذُکُمْ، فَرَجَعَ سَلْمَانُ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالُوْا: أَلَا تَنْہَدُ إِلَیْہِمْ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَدَعَاہُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فَلَمْ یَقْبَلُوْا فَقَاتَلَہُمْ فَفَتَحَہَا۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۴۰)
۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فارس کے محلات میں ایک محل کا محاصرہ کر لیا، ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! کیا تو ان کی طرف کھڑا ہو کر (ان پر حملہ نہیں) کرتا؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، یہاں تک کہ میں ان کو دعوت دے لوں، جیسا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دعوت دیتے تھے، پس وہ ان کے پاس آئے اور ان سے یوں بات کی: میں فارسی آدمی ہوں، میں تم میں سے ہی ہوں، یہ عرب میری اطاعت کرنے والے ہیں، تین امور میں سے ایک کو پسند کر لو، یا اسلام قبول کر لو، یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دو، اس حال میں کہ تم ذلیل ہو گے اور تمہیں سراہا نہیں جائے گا، یا پھر ہم تم سے اعلانِ جنگ کر کے قتال شروع کر تے ہیں، انھو ں نے کہا: نہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں اور نہ جزیہ دیتے ہیں، بلکہ ہم تم سے اعلانِ جنگ کرتے ہیں، سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ آئے، انھوں نے کہا: کیا اب آپ ان کی طرف کھڑے نہیں ہوتے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، پس انھوں نے ان کو تین دن دعوت دی، لیکن انھوں نے قبول نہ کی، پھر انھوں نے ان سے لڑائی شروع کر دی اور اس محل کو فتح کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4938

۔ (۴۹۳۸)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ، أَنَّ سَلْمَانَ حَاصَرَ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: دَعُونِی حَتّٰی أَفْعَلَ مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَفْعَلُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی امْرُؤٌ مِنْکُمْ، وَإِنَّ اللّٰہَ رَزَقَنِی الْإِسْلَامَ، وَقَدْ تَرَوْنَ طَاعَۃَ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَہَاجَرْتُمْ إِلَیْنَا، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَتِنَا، یَجْرِی عَلَیْکُمْ مَا یَجْرِی عَلَیْنَا، وَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَأَقَمْتُمْ فِی دِیَارِکُمْ، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْأَعْرَابِ، یَجْرِی لَکُمْ مَا یَجْرِی لَہُمْ، وَیَجْرِی عَلَیْکُمْ مَا یَجْرِی عَلَیْہِمْ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ وَأَقْرَرْتُمْ بِالْجِزْیَۃِ، فَلَکُمْ مَا لِأَہْلِ الْجِزْیَۃِ، وَعَلَیْکُمْ مَا عَلٰی أَہْلِ الْجِزْیَۃِ، عَرَضَ عَلَیْہِمْ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِہِ: انْہَدُوا إِلَیْہِمْ فَفَتَحَہَا۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۳۵)
۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فارس کے محلّات میں سے ایک محل کا محاصرہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: مجھے چھوڑ دو، تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ کیا تھا، وہ کچھ میں کر لوں، پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: میں تم میں سے ایک آدمی ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام عطا کیا ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ عرب لوگ میری اطاعت میں ہیں، اب اگر تم بھی اسلام قبول کر لو اور ہماری طرف ہجرت کرو تو تم ہمارے قائم مقام ہو گے اور ہمارے والے حقوق اور احکام تم کو مل جائیں گے، اور اگر تم اسلام قبول کر لو، لیکن اپنے علاقے میں ہی ٹھہرے رہو تو تم بدوؤں کے قائمقام ہو گے اور تم کو بدوؤں والے حقوق ملیں گے اور تم پر ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو بدوؤں پر عائد ہوتی ہیں، اور اگر تم اسلام کا انکار کر دو اور جزیہ کا اقرار کر لو تو تم کو وہ حقوق ملیں گے، جو اہل جزیہ کو ملتے ہیں اور تم پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو اہل جزیہ پر عائد ہوتی ہیں، انھوں یہ باتیں تین دن ان پر پیش کیں، چونکہ وہ نہ مانے، اس لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اب کھڑے ہو جاؤ اور ان پر حملہ کر دو، پس انھوں نے اس کو فتح کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4939

۔ (۴۹۳۹)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْن قَالَ: کَتَبْتُ إِلٰی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ الْغَزْوِ أَوْ عَنِ الْقَوْمِ، إِذَا غَزَوْا بِمَا یَدْعُونَ الْعَدُوَّ قَبْلَ أَنْ یُقَاتِلُوہُمْ، وَہَلْ یَحْمِلُ الرَّجُلُ إِذَا کَانَ فِی الْکَتِیبَۃِ بِغَیْرِ إِذْنِ إِمَامِہِ؟، فَکَتَبَ إِلَیَّ، إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ کَانَ یَغْزُو وَلَدُہُ وَیَحْمِلُ عَلَی الظَّہْرِ، وَکَانَ یَقُولُ: إِنَّ أَفْضَلَ الْعَمَلِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْغَزْوِ إِلَّا وَصَایَا لِعُمَرَ، وَصِبْیَانٌ صِغَارٌ، وَضَیْعَۃٌ کَثِیرَۃٌ، وَقَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ یَسْقُونَ عَلٰی نَعَمِہِمْ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ، وَسَبٰی سَبَایَاہُمْ، وَأَصَابَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، قَالَ: فَحَدَّثَنِی بِہٰذَا الْحَدِیثِ ابْنُ عُمَرَ، وَکَانَ فِی ذٰلِکَ الْجَیْشِ، وَإِنَّمَا کَانُوا یُدْعَوْنَ فِی أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَا یَحْمِلُ عَلَی الْکَتِیبَۃِ إِلَّا بِإِذْنِ إِمَامِہِ۔ (مسند أحمد: ۴۸۷۳)
۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے امام نافع سے بذریعہ کتابت یہ سوالات کیے کہ کس چیز نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غزوے سے یا جہاد کرنے والے لوگوں سے پیچھے بٹھا دیا ہے، دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے پہلے سب سے پہلے ان کو کس چیز کی دعوت دی جائے گی اور کیا آدمی امام کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حمل کر سکتا ہے؟ انھوں نے تحریری جواب دیتے ہوئے لکھا: سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیٹا جہاد کر رہا ہے اور وہ سواریاں دے رہے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں کہ نماز کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، لیکن سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غزوے سے پیچھے کر دینے والی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وصیتیں، چھوٹے بچے اور مالِ کثیر ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق پر شب خون مارا تھا، جبکہ وہ غافل تھے اور اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے جنگ جوؤں کو قتل کر دیا اور ان کے باقی افراد کو قیدی بنا لیا، اسی جنگ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ بنت ِ حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بطورِ قیدی حاصل کیا تھا، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ اس لشکر میں بھی موجو د تھے، کافروں کو سب سے پہلے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور آدمی کو امام کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4940

۔ (۴۹۴۰)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ سَمَّی الْحَرْبَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہِ خُدْعَۃً، قَالَ رَحْمَوَیْہِ فِی حَدِیثِہِ: عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ۔ (مسند أحمد: ۶۹۶)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان پر لڑائی کا نام دھوکہ رکھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4941

۔ (۴۹۴۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً۔ (مسند أحمد: ۸۰۹۷)
۔ سیدنا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لڑائی کو دھوکے کا نام دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4942

۔ (۴۹۴۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ)) (مسند أحمد: ۱۳۳۷۵)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4943

۔ (۴۹۴۳)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ(مسند أحمد: ۱۴۲۲۶)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4944

۔ (۴۹۴۴)۔ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزْوَۃً یَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتّٰی کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ کَثِیرٍ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمَرَہُمْ، لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، أَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِی یُرِیدُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۸۲)
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بھی غزوے کا ارادہ کرتے تو توریہ کرتے ہوئے کسی اور چیز کا اظہار کرتے، یہاں تک کہ غزوۂ تبوک کا موقع آ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شدید گرمی میں یہ جنگ لڑی تھی، دور کا سفر کرنا تھا، ہلاکت گاہوں سے گزرنا تھا اور دشمنوں کی کثیر تعداد سے مقابلہ کرنا تھا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر ان کا معاملہ واضح کر دیا، تاکہ دشمن کے مطابق تیاری کر لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس طرف جانا تھا، اس کی واضح طور پر خبر دے دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4945

۔ (۴۹۴۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اشْتَدَّ الْأَمْرُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَا رَجُلٌ یَأْتِینَا بِخَبَرِ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَانْطَلَقَ الزُّبَیْرُ فَجَائَ بِخَبَرِہِمْ، ثُمَّ اشْتَدَّ الْأَمْرُ أَیْضًا فَذَکَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَاِنَّ الزُّبَیْرَ حَوَارِیَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۴۲۸)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب غزوۂ خندق کے موقع پر معاملے میں شدت آئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے، جو ہمیں بنوقریظہ کے حالات سے مطلع کرے؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلے اور ان کے حالات سے آگاہ کیا، پھر جب معاملے میں مزید سختی پیدا ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی، (آگے سے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہی جواب دیا)، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4946

۔ (۴۹۴۶)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُسَیْسَۃَ عَیْنًا یَنْظُرُ مَا فَعَلَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ، فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: لَا أَدْرِی مَا اسْتَثْنَی بَعْضَ نِسَائِہِ، فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَکَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا۔)) فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَہُ فِی ظَہْرٍ لَہُمْ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((لَا، إِلَّا مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا۔)) فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَتّٰی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلٰی بَدْرٍ۔ (مسند أحمد: ۱۲۴۲۵)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بُسیسہ کو بطورِ جاسوس بھیجا، تاکہ وہ دیکھیں کہ ابو سفیان کے قافلے کا کیا بنا ہے، پس جب وہ لوٹے تو گھر میں میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے علاوہ کوئی نہیں تھا، ثابت راوی کہتے ہیں: مجھے اس چیز کا علم نہ ہو سکا کہ راوی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعض بیویوں کا استثنا کیا تھا یا نہیں، بہرحال سیدنا بُسیسہ نے حالات سے آگاہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ہم نے کوئی چیز تلاش کرنی ہے، جس کے پاس سواری موجود ہے، وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی کہ ان کی سواریاں مدینہ منورہ کے بالائی حصے میں ہے (جبکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، لہذا ان کا انتظار کیا جائے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، صرف وہی آ جائیں، جن کے پاس سواریاں موجود ہیں۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ چل پڑے اور مشرکوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4947

۔ (۴۹۴۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ّّخَیْرُ الصَّحَابَۃِ أَرْبَعَۃٌ، وَخَیْرُ السَّرَایَا أَرْبَعُ مِائَۃٍ، وَخَیْرُ الْجُیُوشِ أَرْبَعَۃُ آلَافٍ، وَلَا یُغْلَبُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّۃٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۶۸۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہترین ساتھی چار ہیں، بہترین سریّہ چارسو افراد کا ہے، بہترین لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار افراد کا لشکر محض تعداد کی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4948

۔ (۴۹۴۸)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ الْبَکْرِیِّ، قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ فَإِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ، وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَیْنَ یَدَیْہِ مُتَقَلِّدٌ السَّیْفَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَإِذَا رَایَاتٌ سُودٌ، وَسَأَلْتُ مَا ہٰذِہِ الرَّایَاتُ؟ فَقَالُوْا: عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاۃٍ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۴۸)
۔ سیدنا حارث بن حسان بکری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم مدینہ منورہ آئے اور دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما ہیں، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑے ہیں اور کئی کالے جھنڈے نظر آ رہے ہیں، میں نے پوچھا: یہ جھنڈے کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا: سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوے سے واپس آئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4949

۔ (۴۹۴۹)۔ وَعَنْہُ فِیْ رِوَایَۃٍ اُخْرٰی: فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا ہُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ، وَإِذَا رَایَۃٌ سَوْدَائُ تَخْفِقُ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ الْیَوْمَ؟ قَالُوْا: ہَذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرِیدُ أَنْ یَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْہًا۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۵۰)
۔ (دوسری روایت) سیدنا حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا، وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور ایک کالے رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا، میں نے کہا: آج لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جہاد کے لیے کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4950

۔ (۴۹۵۰)۔ عن یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ، مَوْلٰی مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: بَعَثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ إِلَی الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، أَسْأَلُہُ عَنْ رَایَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَتْ؟ قَالَ: کَانَتْ سَوْدَائَ مُرَبَّعَۃً مِنْ نَمِرَۃٍ۔ (مسند أحمد: ۱۸۸۳۰)
۔ یونس بن عبید کہتے ہیں: محمد بن قاسم نے مجھے سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بھیجا، تاکہ میں ان سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جھنڈے کے بارے میں سوال کر سکوں کہ وہ کیسا تھا، انھوں نے کہا: وہ مربع شکل کا اور کالے رنگ کا دھاری دار تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4951

۔ (۴۹۵۱)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((لَأَنْ اُشَیِّعُ مُجَاھِدًا فِیْ سَبِیلِ اللّٰہِ، فَأَکْتَفَّہُ عَلٰی رَاحِلَۃٍ غَدْوَۃً أَوْ رَوْحَۃً أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۵۷۲۸)
۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنے والے کو الوداع کہوں اور اس کی ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کروں، اس کی روانگی کے وقت یا اس کی واپس کے وقت تو یہ مجھے دنیا و ما فیہا سے زیادہ پسند ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4952

۔ (۴۹۵۲)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ الصِّبْیَانِ اِلٰی ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ، نَتَلَقّٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: اَذْکُرُ مَقْدَمَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ تَبُوْکَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۱۲)
۔ سیدنا سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بچوں کے ساتھ ثنیۃ الوداع کی طرف نکلا، ہم دراصل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملنے کے لیے گئے تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ سفیان راوی نے ایک بار کہا: مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا آنا یاد ہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تبوک سے واپس لوٹے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4953

۔ (۴۹۵۳)۔ قَالَ صَفْوَانُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَرِیَّۃٍ، قَالَ: ((سِیرُوا بِاسْمِ اللّٰہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، تُقَاتِلُونَ أَعْدَائَ اللّٰہِ، لَا تَغُلُّوْا وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیدًا، وَلِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیہِنَّ یَمْسَحُ عَلٰی خُفَّیْہِ إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَیْہِ عَلٰی طُہُورٍ، وَلِلْمُقِیمِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۲۶۶)
۔ سیدنا صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک سریّہ میں بھیجا اور فرمایا: اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں چلو، اللہ کے دشمنوں سے لڑا، نہ خیانت کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو، مسافر تین دنوں تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے، جبکہ اس نے وضو کی حالت میں موزے پہنے ہوں اور مقیم ایک دن رات تک ان پر مسح کر سکتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4954

۔ (۴۹۵۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَشٰی مَعَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَقِیعِ الْغَرْقَدِ، ثُمَّ وَجَّہَہُمْ، وَقَالَ: ((انْطَلِقُوا عَلَی اسْمِ اللّٰہِ، اللّٰہُمَّ أَعِنْہُمْ)) یَعْنِی النَّفَرَ الَّذِینَ وَجَّہَہُمْ إِلٰی کَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۹۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرقد تک ان کے ساتھ چلے، پھر ان کو الوداع کہا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نام پر چلو، اے اللہ! ان لوگوں کی مدد فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد وہ لوگ تھے، جن کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4955

۔ (۴۹۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ جُیُوشَہُ، قَالَ: ((اخْرُجُوا بِسْمِ اللّٰہِ، تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ، لَا تَغْدِرُوْا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا أَصْحَابَ الصَّوَامِع۔)) (مسند أحمد: ۲۷۲۸)
۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو فرماتے: اللہ کے نام کے ساتھ نکلو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے اللہ کی راہ میں لڑو، نہ دھوکہ کرو، نہ خیانت کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ بچوں اور گرجاگھروں والوں کو قتل کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4956

۔ (۴۹۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا قَاتَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْہَ)) (مسند أحمد: ۸۵۵۶)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی لڑے تو وہ چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4957

۔ (۴۹۵۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ یُّتَعَاطَی السَّیْفُ مَسْلُوْلًا۔ (مسند أحمد: ۱۴۲۵۰)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ تلوار کو میان سے نکال کر پکڑا جائے (تاکہ کسی کو لگ نہ جائے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4958

۔ (۴۹۵۸)۔ عن حَشْرَجَ بْنِ زِیَادٍ الْأَشْجَعِیِّ، عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ أَبِیہِ، أَنَّہَا قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزَاۃِ خَیْبَرَ، وَأَنَا سَادِسَۃُ سِتِّ نِسْوَۃٍ، فَبَلَغَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ مَعَہُ نِسَائً، فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا (وَفِیْ لَفْظٍ: فَدَعَانَا قَالَتْ: فَرَاَیْنَا فِیْ وَجْھِہِ الْغَضَبَ) فَقَالَ: ((مَا أَخْرَجَکُنَّ وَبِأَمْرِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟)) فَقُلْنَا: خَرَجْنَا نُنَاوِلُ السِّہَامَ، وَنَسْقِی النَّاسَ السَّوِیقَ، وَمَعَنَا مَا نُدَاوِی بِہِ الْجَرْحٰی، وَنَغْزِلُ الشَّعْرَ، وَنُعِینُ بِہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، قَالَ: قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ، أَخْرَجَ لَنَا سِہَامًا کَسِہَامِ الرَّجُلِ (وَفِیْ لَفْظٍ: کَسِھَامِ الرِّجَالِ) قُلْتُ: یَا جَدَّۃُ! مَا أَخْرَجَ لَکُنَّ قَالَتْ: تَمْرًا۔ (مسند أحمد: ۲۲۶۸۸)
۔ حشرج بن زیاد اشجعی اپنے دادی جان سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلی، جبکہ میں چھ خواتین میں سے چھٹی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چلا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ عورتیں بھی جا رہی ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بلایا، ہمیں محسوس ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غضب کے آثار ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کس نے تم کو نکالا ہے اور کس کے حکم سے تم نکلی ہو؟ ہم نے کہا: جی ہم خود نکلی ہیں، تاکہ مجاہدوں کو تیر پکڑا سکیں، لوگوں کو ستو پلا سکیں، ہم میں بعض خواتین زخمیوں کا علاج بھی کر سکتی ہیں اور بالوں کو بٹ کر اللہ کی راہ میں مدد کریں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اٹھو اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر خیبر کو فتح کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بھی مردوں کی طرح کا حصہ دیا، میں حشرج نے کہا: اے دادی جان! تمہیں حصے میں کیا دیا تھا؟ انھوں نے کہا: کھجور۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4959

۔ (۴۹۵۹)۔ عَنْ رُبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کُنَّا نَغْزُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَسْقِی الْقَوْمَ وَنَخْدُمُھُمْ، وَنَرُدُّ الْجَرْحٰی وَالْقَتْلٰی اِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔ (مسند أحمد: ۲۷۵۵۷)
۔ سیدہ ربیع بنت ِ معوذ بن عفراء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جہاد کرتی تھیں، جس میں ہم لوگوں کو پانی پلاتیں، ان کی خدمت کرتیں اور زخمی لوگوں اور شہداء کو مدینہ منورہ میں منتقل کرتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4960

۔ (۴۹۶۰)۔ عَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ، اُدَاوِی الْمَرْضٰی، وَاَقُوْمُ عَلٰی جَرَاحَاتِھِمْ، فَاُخَلِّفُھُمْ فِی رِحَالِھِمْ، اَصْنَعُ لَھُمُ الطَّعَامَ۔ (مسند أحمد: ۲۷۸۴۳)
۔ سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سات غزوات میںشریک ہوئی، میں مریضوں کا دوا دارو کرتی، زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی، مجاہدین کی رہائش گاہوں میں پیچھے رہتی اور ان کے لیے کھانا تیار کرتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4961

۔ (۴۹۶۱)۔ عَنْ أُمَیَّۃَ بِنْتِ أَبِی الصَّلْتِ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، وَقَدْ سَمَّاہَا لِی، قَالَتْ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نِسْوَۃٍ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَقُلْنَا لَہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ مَعَکَ إِلٰی وَجْہِکَ ہٰذَا، وَہُوَ یَسِیرُ إِلٰی خَیْبَرَ، فَنُدَاوِیَ الْجَرْحٰی، وَنُعِینَ الْمُسْلِمِینَ بِمَا اسْتَطَعْنَا، فَقَال:َ عَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہِ، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا مَعَہُ، وَکُنْتُ جَارِیَۃً حَدِیثَۃً، فَأَرْدَفَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی حَقِیبَۃِ رَحْلِہِ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ، لَنَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الصُّبْحِ فَأَنَاخَ وَنَزَلْتُ عَنْ حَقِیبَۃِ رَحْلِہِ، وَإِذَا بِہَا دَمٌ مِنِّی، فَکَانَتْ أَوَّلَ حَیْضَۃٍ حِضْتُہَا، قَالَتْ: فَتَقَبَّضْتُ إِلَی النَّاقَۃِ وَاسْتَحْیَیْتُ، فَلَمَّا رَأٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بِی وَرَأَی الدَّمَ، قَالَ: ((مَا لَکِ لَعَلَّکِ نَفِسْتِ؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَأَصْلِحِی مِنْ نَفْسِکِ، وَخُذِی إِنَائً مِنْ مَائٍ فَاطْرَحِی فِیہِ مِلْحًا، ثُمَّ اغْسِلِی مَا أَصَابَ الْحَقِیبَۃَ مِنْ الدَّمِ، ثُمَّ عُودِی لِمَرْکَبِکِ۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، رَضَخَ لَنَا مِنْ الْفَیْئِ، وَأَخَذَ ہٰذِہِ الْقِلَادَۃَ الَّتِی تَرَیْنَ فِی عُنُقِی، فَأَعْطَانِیہَا وَجَعَلَہَا بِیَدِہِ فِی عُنُقِی، فَوَاللّٰہِ، لَا تُفَارِقُنِی أَبَدًا، قَالَ: وَکَانَتْ فِی عُنُقِہَا حَتّٰی مَاتَتْ، ثُمَّ أَوْصَتْ أَنْ تُدْفَنَ مَعَہَا، فَکَانَتْ لَا تَطْہُرُ مِنْ حَیْضَۃٍ إِلَّا جَعَلَتْ فِی طَہُورِہَا مِلْحًا، وَأَوْصَتْ أَنْ یُجْعَلَ فِی غُسْلِہَا حِینَ مَاتَتْ۔ (مسند أحمد: ۲۷۶۷۷)
۔ بنو غفار کی ایک خاتون (سیدہ ام زیاد اشجعی) سے مروی ہے، وہ کہتی ہے: میں بنو غفار کی چند خواتین سمیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم بھی آپ کے ساتھ اس طرف نکلنا چاہتی ہیں، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر کی طرف جا رہے تھے، ہم زخمیوں کا علاج کریں گی اور حسب ِ استطاعت مسلمانوں کی مدد کریں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی برکت پر نکلو۔ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکل پڑیں، میں نو عمر لڑکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی سواری پر پالان کے پچھلے حصے میں بٹھا لیا، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صبح کے وقت اترے، اونٹ کو بٹھایا اور میں بھی پالان کے پچھلے حصے سے اتر آئی، اچانک دیکھا کہ اس میں تو مجھ سے بہنے والا خون تھا، یہ میرا پہلا حیض تھا، میں گھبرا کر اونٹنی کی طرف کودی اور شرما گئی، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اور میرے ساتھ لگے ہوئے خون کو دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہو گیا، شاید تجھے ماہواری آ گئی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اپنے آپ کو سنوار لے اور ایک برتن میں پانی لے، اس میں نمک ڈال اور پالان کو جو خون لگا ہے، اس کو دھو دے، پھر اپنی سواری پر بیٹھ جا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر فتح کر لیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بھی مالِ فے میں تھوڑی مقدار والے عطیے دیئے، یہ جو ہار میری گردن میں نظر آ رہا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ ہار پکڑا اور مجھے دے دیا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے میری گردن میں ڈالا، اللہ کی قسم! اب یہ ہار مجھ سے کبھی بھی جدا نہیں ہو گا۔ راوی کہتے ہیں: پھر ان کی موت تک یہ ہار ان کی گردن میں رہا، بلکہ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اس ہار کو ان کے ساتھ دفن کیا جائے، نیز اس خاتون کو بعد میں جب بھی حیض آتا تھا تو اس سے پاکیزگی حاصل کرتے وقت وہ پانی میں نمک ڈالتی تھیں اور انھوں نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ ان کے غسل کے پانی میں بھی نمک ڈالا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4962

۔ (۴۹۶۲)۔ عَنْ حُمَیْدٍ یَعْنِی ابْنَ ہِلَالٍ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ مِنْ الطُّفَاوَۃِ طَرِیقُہُ عَلَیْنَا، فَأَتٰی عَلَی الْحَیِّ فَحَدَّثَہُمْ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فِی عِیرٍ لَنَا فَبِعْنَا بِیَاعَتَنَا، ثُمَّ قُلْتُ: لَأَنْطَلِقَنَّ إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ فَلَآتِیَنَّ مَنْ بَعْدِی بِخَبَرِہِ، قَالَ: فَانْتَہَیْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ یُرِینِی بَیْتًا، قَالَ: إِنَّ امْرَأَۃً کَانَتْ فِیہِ، فَخَرَجَتْ فِی سَرِیَّۃٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، وَتَرَکَتْ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ عَنْزًا لَہَا وَصِیصِیَتَہَا کَانَتْ تَنْسِجُ بِہَا، قَالَ: فَفَقَدَتْ عَنْزًا مِنْ غَنَمِہَا وَصِیصِیَتَہَا، فَقَالَتْ: یَا رَبِّ إِنَّکَ قَدْ ضَمِنْتَ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِکَ أَنْ تَحْفَظَ عَلَیْہِ، وَإِنِّی قَدْ فَقَدْتُ عَنْزًا مِنْ غَنَمِی وَصِیصِیَتِی، وَإِنِّی أَنْشُدُکَ عَنْزِی وَصِیصِیَتِی، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُ شِدَّۃَ مُنَاشَدَتِہَا لِرَبِّہَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَأَصْبَحَتْ عَنْزُہَا وَمِثْلُہَا وَصِیصِیَتُہَا وَمِثْلُہَا۔)) وَہَاتِیکَ فَأْتِہَا فَاسْأَلْہَا إِنْ شِئْتَ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ أُصَدِّقُکَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۹۴۰)
۔ حُمید بن ہلال سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں :طفاوہ قبیلے کے ایک آدمی کا راستہ ہمارے پاس سے گزرتا تھا، وہ ایک قبیلے کے پاس آیا اور ان کو یہ واقعہ بیان کیا: میں اپنے قافلے میں مدینہ منورہ گیا، وہاں اپنا سامان فروخت کیا، پھر میں نے کہا: میں ضرور ضرور اس آدمی (محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس جاؤں گا اور اپنے پیچھے والوں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کروں گا، جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک گھر دکھایا اور فرمایا: بیشک ایک خاتون اس گھر میں رہتی تھی، وہ مسلمانوں کے ایک سریّہ میں چلی گئی اور گھر میں بارہ بکریاں اور کاتنے کا ایک تکلا چھوڑ کر گئی، وہ اس تکلے سے بننے کا کام کرتی تھی، جب وہ واپس آئی تو اس نے ایک بکری اور اس تکلے کو گم پایا، پھر اس نے کہا: اے میرے ربّ! جو آدمی تیرے راستے میں جاتا ہے، اس کی چیزوں کی حفاظت کی ضمانت تو خود لیتا ہے، اب میرے ایک بکری اور تکلا گم ہے، میں تجھے وہی وعدہ یاد کروا کر کہتی ہوں کہ میری بکری اور میرا تکلا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے مطالبے اور اپیل کی شدت کا ذکر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر ہوا یوں کہ اس کی بکری اور اس کی مثل ایک اور بکری اور اس کا تکلا اور اس کی مثل ایک اور تکلا اس کے پاس پہنچا دیئے گئے۔اور تو خود اس کے پاس جا اور اگر چاہتا ہے تو اس سے پوچھ لے۔ میں نے کہا: جی میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4963

۔ (۴۹۶۳)۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَقَلَّمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْرُجُ اِذَا اَرَادَ سَفْرًا اِلَّا یَوْمَ الْخَمِیْسِ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۷۳)
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو جمعرات کے علاوہ کسی اور دن کم ہی نکلتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4964

۔ (۴۹۶۴)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ یَوْمَ الْخَمِیْسِ فِیْ عَزْوَۃِ تَبُوْکَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۷۱)
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر جمعرات کے دن نکلے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4965

۔ (۴۹۶۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِاُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھَا)) (مسند أحمد: ۱۳۲۰)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے دن کے شروع والے اوقات میں برکت فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4966

۔ (۴۹۶۶)۔ عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِیِّ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِی فِی بُکُورِہِمْ)) قَالَ: فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً بَعَثَہَا أَوَّلَ النَّہَارِ، وَکَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، وَکَانَ لَا یَبْعَثُ غِلْمَانَہُ إِلَّا مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ، فَکَثُرَ مَالُہُ حَتّٰی کَانَ لَا یَدْرِی أَیْنَ یَضَعُ مَالَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۵۱۷)
۔ سیدنا صخر غامدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے دن کے شروع والے اوقات میں برکت فرما۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی سریّہ بھیجتے تو اس کو دن کے شروع والے حصے میں بھیجتے۔ سیدنا صخر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود تاجر آدمی تھے، وہ اپنے لڑکوں کو صرف دن کے شروع میں بھیجا کرتے تھے، پس ان کا مال اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ وہ یہ نہ جان سکتے کہ اپنا مال کہاں رکھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4967

۔ (۴۹۶۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحِبُّ اَنْ یَنْھَضَ اِلٰی عَدُوِّہِ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ۔ (مسند أحمد: ۱۹۳۵۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زوالِ آفتاب کے وقت دشمن سے لڑائی کا آغاز کرنے کو پسند کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4968

۔ (۴۹۶۸)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ عُمَرَ اسْتَعْمَلَ النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ،قَالَ یَعْنِی النُّعْمَانَ: وَلٰکِنِّی شَہِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّہَارِ أَخَّرَ الْقِتَالَ حَتّٰی تَزُولَ الشَّمْسُ، وَتَہُبَّ الرِّیَاحُ، وَیَنْزِلَ النَّصْرُ۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۴۵)
۔ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا نعمان بن مقرن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عامل بنایا، … پھر باقی حدیث ذکر کی…، سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لیکن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ موجود تھا، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دن کے شروع میں قتال نہ کرتے تو پھر لڑائی کو مؤخر کر دیتے، یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا، ہوائیں چل پڑتیں اور تائید و نصرت کا نزول شروع ہو جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4969

۔ (۴۹۶۹)۔ عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: صَفَفْنَا یَوْمَ بَدْرٍ، فَبَدَرَتْ مِنَّا بَادِرَۃٌ اَمَامَ الصَّفِّ، فَنَظَرَ اِلَیْھِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَعِیَ مَعِیَ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۹۶۵)
۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے بدر والے دن صفیں بنائیں، کچھ لوگ صف سے آگے بڑھ گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا اور فرمایا: میرے ساتھ رہو، میرے ساتھ رہو (یعنی آگے نہ بڑھو)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4970

۔ (۴۹۷۰)۔ حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ جَدِّ أَبِیہِ الْمُخَارِقِ، قَالَ: لَقِیتُ عَمَّارًا یَوْمَ الْجَمَلِ، وَہُوَ یَبُولُ فِی قَرْنٍ، فَقُلْتُ: أُقَاتِلُ مَعَکَ فَأَکُونُ مَعَکَ، قَالَ: قَاتِلْ تَحْتَ رَایَۃِ قَوْمِکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَسْتَحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُقَاتِلَ تَحْتَ رَایَۃِ قَوْمِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۸۵۰۶)
۔ عقبہ بن مغیرہ اپنے باپ کے دادا مخارق سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں جنگ ِ جمل والے دن سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا، جبکہ وہ سینگ میں پیشاب کر رہے تھے، میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مل کر لڑنا چاہتا ہوں، تاکہ تمہارے ساتھ رہوں، لیکن انھوں نے کہا: تو اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے رہ کر لڑائی کر، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ پسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے رہ کر قتال کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4971

۔ (۴۹۷۱)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ الْعَدُوَّ غَدًا وَاِنَّ شِعَارَکُمْ {ھُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ}۔)) (مسند أحمد: ۱۸۷۴۸)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے فرمایا: بیشک تم کل دشمنوں سے ملنے والے ہو، تمہارا شعار یہ ہو گا: {ھُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4972

۔ (۴۹۷۲)۔ عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ شِعَارُنَا لَیْلَۃَ بَیَّتْنَا فِی ہَوَازِنَ مَعَ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ، وَأَمَّرَہُ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، أَمِتْ أَمِتْ، وَقَتَّلْتُ بِیَدَیَّ لَیْلَتَئِذٍ سَبْعَۃً أَہْلَ أَبْیَاتٍ۔ (مسند أحمد: ۱۶۶۱۲)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے جس رات کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ہوازن پر حملہ کیا تھا، اس دن ہمارا شعار أَمِتْ أَمِتْ (تو مار دے،، تو مار دے) تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہمارا امیر بنایا تھا اور میں نے اس دن اپنے ہاتھوں سے سات افراد کو قتل کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4973

۔ (۴۹۷۳)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ أَنَّ ابْنَ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ مِنْ الْغَیْرَۃِ مَا یُحِبُّ اللّٰہُ،وَمِنْہَا مَا یُبْغِضُ اللّٰہُ، وَمِنْ الْخُیَلَائِ مَا یُحِبُّ اللّٰہُ، وَمِنْہَا مَا یُبْغِضُ اللّٰہُ، فَالْغَیْرَۃُ الَّتِی یُحِبُّ اللّٰہُ الْغَیْرَۃُ فِی الرِّیبَۃِ، وَالْغَیْرَۃُ الَّتِی یُبْغِضُ اللّٰہُ الْغَیْرَۃُ فِی غَیْرِ رِیبَۃٍ، وَالْخُیَلَائُ الَّتِی یُحِبُّ اللّٰہُ اخْتِیَالُ الْعَبْدِ بِنَفْسِہِ لِلّٰہِ عِنْدَ الْقِتَالِ، وَاخْتِیَالُہُ بِالصَّدَقَۃِ، وَالْخُیَلَائُ الَّتِی یُبْغِضُ اللّٰہُ الْخُیَلَائُ فِی الْفَخْرِ وَالْکِبْرِ)) أَوْ کَالَّذِی قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۵۱)
۔ سیدنا جابر بن عتیک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کی بعض صورتوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند ، اسی طرح وہ فخر کی بعض قسموں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند، وہ جس غیرت کو پسند کرتا ہے، اس کا تعلق تہمت سے ہے اور جس غیرت کو ناپسند کرتاہے، اس میں کوئی تہمت اور گمان نہیں ہوتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ جس فخر کو پسند کرتا ہے، وہ ہے بندے کا قتال کے وقت اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے نفس کے ساتھ فخر کرنا اور صدقہ کے ساتھ فخر کرنا اور وہ جس فخر کو ناپسند کرتا ہے، اس کا تعلق تکبر سے ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4974

۔ (۴۹۷۴)۔ قَیْسُ بْنُ بِشْرٍ التَّغْلِبِیُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی وَکَانَ جَلِیسًا لِأَبِی الدَّرْدَائِ، قَالَ: کَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ، وَکَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا، قَلَّمَا یُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا ہُوَ فِی صَلَاۃٍ فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا یُسَبِّحُ وَیُکَبِّرُ حَتّٰی یَأْتِیَ أَہْلَہُ، فَمَرَّ بِنَا یَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّکَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً فَقَدِمْتُ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْہُمْ، فَجَلَسَ فِی الْمَجْلِسِ الَّذِی فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ لِرَجُلٍ إِلٰی جَنْبِہِ: لَوْ رَأَیْتَنَا حِینَ الْتَقَیْنَا نَحْنُ وَالْعَدُوَّ، فَحَمَلَ فُلَانٌ فَطَعَنَ فَقَالَ: خُذْہَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْغِفَارِیُّ، کَیْفَ تَرٰی فِی قَوْلِہِ؟ قَالَ: مَا أُرَاہُ إِلَّا قَدْ أَبْطَلَ أَجْرَہُ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ آخَرُ، فَقَالَ: مَا أَرٰی بِذٰلِکَ بَأْسًا، فَتَنَازَعَا حَتّٰی سَمِعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((سُبْحَان اللّٰہِ لَا بَأْسَ أَنْ یُحْمَدَ وَیُؤْجَرَ۔)) قَالَ: فَرَأَیْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ سُرَّ بِذٰلِکَ، وَجَعَلَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ إِلَیْہِ وَیَقُولُ: آنْتَ سَمِعْتَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَمَا زَالَ یُعِیدُ عَلَیْہِ حَتَّی إِنِّی لَأَقُولُ لَیَبْرُکَنَّ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ۔ (مسند أحمد: ۱۷۷۶۷)
۔ قیس بن بشر تغلبی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے مجھے بتایا، جبکہ وہ سیدنا ابو درداء کے ہم نشیں تھے، انھوں نے کہا: دمشق میں ایک صحابی تھا، اس کو ابن حنظلیہ کہا جاتا تھا، یہ خلوت پسند آدمی تھا اور لوگوں کے ساتھ بہت کم بیٹھتا تھا، بس ہر وقت نماز میں لگا رہتا، جب اس سے فارغ ہوتا تو تسبیح و تکبیر شروع کر دیتا، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کے پاس آ جاتا، ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرا، جبکہ ہم سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے کہا کہ ایک ایسی بات بتائیں، جو ہمیں فائدہ دے اور تجھے نقصان نہ دے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک سریہ بھیجا، پس جب میں پہنچا تو اس سریہ میں سے ایک آدمی بھی پہنچ گیا اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مجلس میں بیٹھ گیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی سے کہا: اس کے بارے میں تیرا خیال ہے کہ ہماری دشمن سے ٹکر ہو جاتی ہے، فلاں مسلمان آدمی حملہ کرتا ہے اور نیزہ مارتے ہوئے کہتا ہے: یہ لے نا اور میں غفاری جوان ہوں، اس کی اس بات کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ اس نے اپنے اجر کو ضائع کر دیا ہے، لیکن جب تیسرے آدمی نے بات سنی تو اس نے کہا: ایسا کہنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، ان کا تو اس میں جھگڑا ہونے لگا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات سن لی اور فرمایا: بڑا تعجب ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی کی تعریف بھی کی جائے اور اس کو اجر بھی دیا جائے۔ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابو درداء کو اس بات سے خوشی ہوئی اور وہ اس آدمی کی طرف سر اٹھا کر دیکھنے لگے اور پوچھا: کیا تو نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پھر وہ اس بات کو دوہراتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے اس بات کو اتنی بار دوہرایا کہ میں نے کہا: وہ ضرور ضرور اس کے گھٹنوں پر ٹیک لگا دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4975

۔ (۴۹۷۵)۔ عن أَبی حَیَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ شَیْخًا بِالْمَدِینَۃِ یُحَدِّثُ: أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِی أَوْفَی کَتَبَ إِلٰی عُبَیْدِ اللّٰہِ إِذْ أَرَادَ أَنْ یَغْزُوَ الْحَرُورِیَّۃَ، فَقُلْتُ لِکَاتِبِہِ وَکَانَ لِی صَدِیقًا: انْسَخْہُ لِی، فَفَعَلَ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُولُ: ((لَا تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ الْعَافِیَۃَ، فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوْا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوفِ۔)) قَالَ: فَیَنْظُرُ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ نَہَدَ إِلٰی عَدُوِّہِ، ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، وَمُجْرِیَ السَّحَابِ، وَہَازِمَ الْأَحْزَابِ، اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۳۲۴)
۔ ابو حیان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں ایک بزرگ سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبید اللہ کی طرف ایک خط لکھا، یہ اس وقت کی بات ہے، جب اس نے حروریہ یعنی خوارج سے لڑنا چاہا تھا، اس کا کاتب میرا دوست تھا، میں نے اس سے کہا: تو اس کو میرے لیے بھی حرف بہ حرف لکھ، اس نے ایسے ہی کیا، بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دشمنوں سے لڑنے کی تمنا نہ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو، ہاں جب ان سے ٹکر ہو جائے تو پھر صبر کیا کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتظار کرتے، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا تو دشمن کی طرف کھڑے ہوتے اور یہ دعا کرتے: اَللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، وَمُجْرِیَ السَّحَابِ، وَہَازِمَ الْأَحْزَابِ، اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ۔(اے اللہ! اے کتاب کو نازل کرنے والے! بادلوں کو چلانے والے! لشکروں کو شکست دینے والے! تو ان کو شکست دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4976

۔ (۴۹۷۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَا تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ، فَإِذَا لَقِیتُمُوہُ فَاصْبِرُوا)) وفی لفظ: ((فَاِنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ مَا یَکُوْنُ فِیْ ذٰلِکَ۔)) (مسند أحمد: ۱۰۷۸۴)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دشمنوں سے ملنے کی تمنا نہ کیا کرو، لیکن جب ان سے مقابلہ ہو جائے تو صبر کیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس لڑائی میں کیا ہو گا (اس لیے تمنا نہ کیا کرو)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4977

۔ (۴۹۷۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا صَلّٰی ہَمَسَ شَیْئًا لَا أَفْہَمُہُ وَلَا یُخْبِرُنَا بِہِ، قَالَ: ((أَفَطِنْتُمْ لِی۔)) قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: ((إِنِّی ذَکَرْتُ نَبِیًّا مِنْ الْأَنْبِیَائِ، أُعْطِیَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِہِ، فَقَالَ: مَنْ یُکَافِئُ ہٰؤُلَائِ؟ أَوْ مَنْ یَقُومُ لِہٰؤُلَائِ؟ أَوْ غَیْرَہَا مِنْ الْکَلَامِ، فَأُوحِیَ إِلَیْہِ أَنِ اخْتَرْ لِقَوْمِکَ إِحْدٰی ثَلَاثٍ، إِمَّا أَنْ نُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ أَوْ الْجُوعَ أَوْ الْمَوْتَ، فَاسْتَشَارَ قَوْمَہُ فِی ذٰلِکَ، فَقَالُوْا: أَنْتَ نَبِیُّ اللّٰہِ فَکُلُّ ذٰلِکَ إِلَیْکَ خِرْ لَنَا، فَقَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ، وَکَانُوْا إِذَا فَزِعُوا فَزِعُوا إِلَی الصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی مَا شَائَ اللّٰہُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَیْ رَبِّ! أَمَّا عَدُوٌّ مِنْ غَیْرِہِمْ فَلَا، أَوْ الْجُوعُ فَلَا، وَلٰکِنِ الْمَوْتُ، فَسُلِّطَ عَلَیْہِمُ الْمَوْتُ، فَمَاتَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا، فَہَمْسِی الَّذِی تَرَوْنَ أَنِّی أَقُولُ: اللّٰہُمَّ بِکَ أُقَاتِلُ، وَبِکَ أُصَاوِلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۱۴۵)
۔ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھتے تو چپکے چپکے کچھ کلمات کہتے، نہ میں سمجھ سکا اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بتایا۔ (ایک دن) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم سمجھ گئے ہو کہ میں کچھ کلمات کہتا ہوں؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ایک ایسے نبی کی یاد آئی جسے اپنی قوم میں سے کئی لشکر دیے گئے، اس نے اپنی امت پر اتراتے ہوئے کہا: کون ہے جو ان کے ہم پلہ ہو گا؟ یا کون ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے گا؟ یا اس قسم کی بات کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے اِن تین امور میں سے ایک کو اختیار کر: ہم تیری امت پر ان کا دشمن مسلط کر دیں یا بھوک یا موت۔ اس نے اپنی قوم سے مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا: تو اللہ کا نبی ہے، معاملہ تیرے سپر دہے، تو خود اختیار کر لے۔ اس نے نماز شروع کر دی، جب وہ گھبرا جاتے تو نماز کا سہارا لیتے تھے، اس نے نماز پڑھی جتنی کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھی، پھر کہا: اے میرے ربّ: ان پر ان کے دشمن کو بھی مسلط نہیں کرنا اور بھوک کو بھی، چلو موت ہی سہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر موت مسلط کر دی، ایک دن میں ان میں سے ستر ہزار افراد مر گئے۔ یہ تھا میرا گنگنانا، جیسا کہ تم دیکھ رہے تھے، میں نے کہا: اللّٰہُمَّ بِکَ أُقَاتِلُ، وَبِکَ أُصَاوِلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ۔ (اے اللہ! میں تو تیری توفیق سے حائل ہوتا ہوں، تیری توفیق سے حملہ کرتا ہوں اور تیری توفیق سے لڑتا ہوں۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4978

۔ (۴۹۷۸)۔ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُغِیرُ عِنْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَیَسْتَمِعُ فَإِذَا سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ وَإِلَّا أَغَارَ، قَالَ: فَتَسَمَّعَ ذَاتَ یَوْمٍ، قَالَ: فَسَمِعَ رَجُلًا یَقُولُ: اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَقَالَ: ((عَلَی الْفِطْرَۃِ۔)) فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَقَالَ: ((خَرَجْتَ مِنْ النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۳۷۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ طلوع فجر کے بعد شب خون مارتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کان لگاتے، اگر اذان کی آواز آ جاتی تو رک جاتے، وگرنہ حملہ کر دیتے، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کان لگائے ہوئے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مؤذن کو یہ کہتے ہوئے سنا: اَللَّہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فطرت پر ہیں۔ پھر جب اس نے کہا: أَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو آگ سے نکل گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4979

۔ (۴۹۷۹)۔ عَنْ عِصَامٍ الْمُزَنِیِّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ السَّرِیَّۃَ یَقُولُ: ((إِذَا رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُنَادِیًا فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا۔)) قَالَ ابْنُ عِصَامٍ عَنْ أَبِیہِ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَرِیَّۃٍ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۰۵)
۔ سیدنا عصام مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحاب ِ رسول میں سے تھے، سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کوئی سریّہ روانہ کرتے تو فرماتے: جب تم مسجد دیکھ لو یا اذان سن لو تو کسی کو قتل نہ کرنا۔ ابن عصام راوی کے الفاظ یہ ہیں: سیدنا عصام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک سریّہ میں بھیجا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4980

۔ (۴۹۸۰)۔ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ، قَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الْحَیِّ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ حَدَّثَہُ: أَنَّ عُبَیْسًا أَوْ ابْنَ عُبَیْسٍ فِی أُنَاسٍ مِنْ بَنِی جُشَمٍ أَتَوْہُ، فَقَالَ لَہُ أَحَدُہُمْ: الَا تُقَاتِلُ حَتّٰی لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ، قَالَ: لَعَلِّی قَدْ قَاتَلْتُ حَتّٰی لَمْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُکُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ وَلَا أُرَاہُ یَنْفَعُکُمْ فَأَنْصِتُوا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اغْزُوا بَنِی فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ۔)) قَالَ: فَصُفَّتِ الرِّجَالُ وَکَانَتِ النِّسَائُ مِنْ وَرَائِ الرِّجَالِ، ثُمَّ لَمَّا رَجَعُوا قَالَ رَجُلٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ اسْتَغْفِرْ لِی غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، قَالَ: ہَلْ أَحْدَثْتَ؟ قَالَ: لَمَّا ہُزِمَ الْقَوْمُ وَجَدْتُ رَجُلًا بَیْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَائِ فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ أَوْ قَالَ أَسْلَمْتُ فَقَتَلْتُہُ، قَالَ: تَعَوُّذًا بِذٰلِکَ حِینَ غَشِیَہُ الرُّمْحُ، قَالَ: ((ہَلْ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ تَنْظُرُ إِلَیْہِ۔)) فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! مَا فَعَلْتُ فَلَمْ یَسْتَغْفِرْ لَہُ أَوْ کَمَا قَالَ، وَقَالَ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اغْزُوا بَنِی فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ۔)) فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِی مَعَہُمْ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! اسْتَغْفِرْ اللّٰہَ لِی غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، قَالَ: ((وَہَلْ أَحْدَثْتَ؟)) قَالَ: لَمَّا ہُزِمَ الْقَوْمُ أَدْرَکْتُ رَجُلَیْنِ بَیْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَائِ فَقَالَا: إِنَّا مُسْلِمَانِ أَوْ قَالَا: أَسْلَمْنَا فَقَتَلْتُہُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَمَّا أُقَاتِلُ النَّاسَ إِلَّا عَلَی الْإِسْلَامِ وَاللّٰہِ لَا أَسْتَغْفِرُ لَکَ۔)) أَوْ کَمَا قَالَ، فَمَاتَ بَعْدُ فَدَفَنَتْہُ عَشِیرَتُہُ فَأَصْبَحَ قَدْ نَبَذَتْہُ الْأَرْضُ، ثُمَّ دَفَنُوہُ وَحَرَسُوہُ ثَانِیَۃً فَنَبَذَتْہُ الْأَرْضُ، ثُمَّ قَالُوْا: لَعَلَّ أَحَدًا جَائَ وَأَنْتُمْ نِیَامٌ فَأَخْرَجَہُ، فَدَفَنُوہُ ثَالِثَۃً ثُمَّ حَرَسُوہُ فَنَبَذَتْہُ الْأَرْضُ ثَالِثَۃً، فَلَمَّا رَأَوْا ذٰلِکَ أَلْقَوْہُ أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۷۹)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عُبیس یا ابن عُبیس سمیت بنو جشم قبیلے کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان میں ایک آدمی نے ان سے کہا: کیا تم فتنہ دب جانے تک لڑائی نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: شاید میں اس مقصد کے لیے قتال کر چکا ہوں کہ فتنہ نہ رہے، کیا میں تمہیں وہ بات بیان نہ کر دوں، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمائی ہو؟ اور میرا خیال ہے کہ شایدہ وہ تم کو نفع نہ دے، بہرحال خاموش ہو جاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو فلاں! تم بنو فلاں سے قتال کرو۔ پس یہ فرمانا ہی تھا کہ مردوں کی صفیں بنا دی گئیں اور ان کے پیچھے ان کی خواتین بھی تھیں، پھر جب وہ لوگ لوٹے تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ میرے لیے بخشش طلب کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بخش دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تو نے کوئی نیا کام کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جی جب دشمن قوم کو شکست ہو رہی تھی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک آدمی پایا، اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، یا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، لیکن میں نے اس کو قتل کر دیا، دراصل جب اس نے نیزوں کی بوچھاڑ دیکھی تو ان سے بچنے کے لیے یہ بات کہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چاک کر کے اس کو دیکھا تھا؟ اس نے کہا: جی نہیں، اللہ کی قسم! ایسے تو میں نے نہیں کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کے لیے استغفار نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو فلاں! تم لوگ بنوفلاں سے جہاد کرو۔ میرے رشتہ داروں میں سے ایک آدمی بھی ان کے ساتھ چل پڑا، لیکن جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹا تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تو نے کوئی نیا کام کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جب دشمنوں کو شکست ہو گئی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان دو آدمیوں کو پایا، انھوں نے یہ تو کہا کہ وہ مسلمان ہیں یا انھوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن میں نے ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے لوگوں سے اسلام پر ہی جہاد کرنا ہے، اللہ کی قسم! میں تیرے لیے بخشش طلب نہیں کروں گا۔ بعد میں یہ آدمی فوت ہو گیا اور اس کے رشتہ داروں نے اس کو دفن کیا، لیکن جب صبح ہوئی تو صورتحال یہ تھی کہ زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا، انھوں نے پھر اس کو دفن کیا اور باقاعدہ اس کا پہرہ دیا، لیکن زمین نے اس کو باہر پھینک دیا، انھوں نے پہرہ داروں سے کہا: شاید کسی آدمی نے آ کر اس کو نکال دیا ہو، جبکہ تم سو رہے ہو، پس انھوں نے تیسری بار اس کو دفن کیا اور پہرہ بھی دیا، لیکن زمین نے اس بار بھی اس کو باہر پھینک دیا، جب انھوں نے یہ صورتحال دیکھی تو اس کو ایسے ہی باہر ڈال دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4981

۔ (۴۹۸۱)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ قَالَ: جَمَعَ بَیْنِی وَبَیْنَ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ رَجُلٌ فَحَدَّثَنِی عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ سَرِیَّۃً لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَشُوا أَہْلَ مَائٍ صُبْحًا، فَبَرَزَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَائِ، فَحَمَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ فَقَتَلَہُ، فَلَمَّا قَدِمُوْا أَخْبَرُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذٰلِکَ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطِیبًا فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ الْمُسْلِمِ؟ یَقْتُلُ الرَّجُلَ وَہُوَ یَقُولُ إِنِّی مُسْلِمٌ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّمَا قَالَہَا مُتَعَوِّذًا، فَصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجْہَہُ وَمَدَّ یَدَہُ الْیُمْنٰی (وَفِیْ لَفْظٍ: فَاَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَعْرِفُ الْمَسَائَۃَ فِیْ وَجْھِہِ) فَقَالَ: ((أَبَی اللّٰہُ عَلَیَّ مَنْ قَتَلَ مُسْلِمًا۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۳۴)
۔ حمید بن ہلال سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے مجھے اور بشر بن عاصم کو جمع کر کے سیدنا عقبہ بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بات بیان کی: رسول للہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک سریہ کے لوگ صبح کے وقت پانی والوں کے پاس پہنچے، جب ان میں سے ایک آدمی باہر آیا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے اس پر حملہ کر دیا، اس نے آگے سے کہا کہ وہ مسلمان ہے، لیکن اس نے اس کو قتل کر دیا، جب یہ لوگ واپس آئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: أَمَّا بَعْدُ،اس مسلمان کا کیا حال ہو گا، جو ایسے آدمی کو قتل کر دیتا ہے، جویہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اس آدمی نے کہا: جی اس نے یہ بات بچاؤ کی خاطر کہی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور اپنا دایاںہاتھ لمبا کیا، ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تو برائی کو اس کے چہرے میں پہچان لیتا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کو قتل کر دیا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکار کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4982

۔ (۴۹۸۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلٰی بَنِی أَحْسِبُہُ قَالَ: جَذِیمَۃَ، فَدَعَاہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوْا: أَسْلَمْنَا، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ: صَبَأْنَا صَبَأْنَا، وَجَعَلَ خَالِدٌ بِہِمْ أَسْرًا وَقَتْلًا، قَالَ: وَدَفَعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرًا حَتّٰی إِذَا أَصْبَح یَوْمًا أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ یَقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرَہُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ، لَا أَقْتُلُ أَسِیرِی، وَلَا یَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِی أَسِیرَہُ، قَالَ: فَقَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرُوا لَہُ صَنِیعَ خَالِدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَفَعَ یَدَیْہِ: ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ)) مَرَّتَیْنِ۔ (مسند أحمد: )
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بنو جذِیمہ کی طرف روانہ کیا، انھوں نے اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دی، وہ آگے سے اچھے انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ بلکہ انھوں نے أَسْلَمْنَا کے بجائے اس طرح کہنا شروع کر دیا: صَبَأْنَا صَبَأْنَا ۔ اُدھر سے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو قید کرنا اور قتل کرنا
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4983

۔ (۴۹۸۳)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ، عَنْ ابْنِ مُعَیْزٍ السَّعْدِیِّ، قَالَ: خَرَجْتُ أَسْقِی فَرَسًا لِی فِی السَّحَرِ، فَمَرَرْتُ بِمَسْجِدِ بَنِی حَنِیفَۃَ، وَہُمْ یَقُولُونَ إِنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَأَتَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَبَعَثَ الشُّرْطَۃَ فَجَائُ وْا بِہِمْ فَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابُوا فَخَلّٰی سَبِیلَہُمْ، وَضَرَبَ عُنُقَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ النَّوَّاحَۃِ، فَقَالُوْا: آخَذْتَ قَوْمًا فِی أَمْرٍ وَاحِدٍ، فَقَتَلْتَ بَعْضَہُمْ وَتَرَکْتَ بَعْضَہُمْ، قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدِمَ عَلَیْہِ ہٰذَا وَابْنُ أُثَالِ بْنِ حَجَرٍ، فَقَالَ: ((أَتَشْہَدَانِ أَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ۔)) فَقَالَا: نَشْہَدُ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ لَوْ کُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا لَقَتَلْتُکُمَا۔)) قَالَ: فَلِذٰلِکَ قَتَلْتُہٗ۔ (مسند أحمد: ۳۸۳۷)
۔ ابن معیز سعدی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سحری کی وقت اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے لیے نکلا، جب میں بنو حنیفہ مسجد کے پاس سے گزرا تو ان کو یہ کہتے ہوئے سنا: بیشک مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، میں سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور ان کو اس واقعہ کی خبردی، انھوں نے لشکر کو بھیجا، وہ ان کو پکڑ کر لے آئے، انھوں نے ان سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا اور انھوں نے توبہ کر لی اور انھوں نے ان کو آزاد کر دیا، لیکن عبد اللہ بن نواحہ کا سر قلم کر دیا، انھوں نے کہا: یہ کیا ہوا کہ تم نے ایک قوم کو ایک جرم میں پکڑا، پھر کسی کو قتل کر دیا اور کسی کو چھوڑ دیا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، یہ آدمی اور ابن اثال بن حجر ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے کہا: کیا تم دونوں یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ بیشک مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، اگر میں نے کسی وفد کو قتل کرنا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ انھوں نے کہا: اسی وجہ سے تو میں نے اس کو قتل کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4984

۔ (۴۹۸۴)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ حَیْثُ قُتِلَ ابْنُ النَّوَّاحَۃِ: إِنَّ ہٰذَا وَابْنَ أُثَالٍ کَانَا أَتَیَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَسُولَیْنِ لمُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ، فَقَالَ لَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَتَشْہَدَانِ أَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَا: نَشْہَدُ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((لَوْ کُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا۔)) قَالَ: فَجَرَتْ سُنَّۃً أَنْ لَا یُقْتَلَ الرَّسُولُ، فَأَمَّا ابْنُ أُثَالٍ فَکَفَانَاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، وَأَمَّا ہٰذَا فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ فِیہِ حَتّٰی أَمْکَنَ اللّٰہُ مِنْہُ الْآنَ۔ (مسند أحمد: ۳۷۰۸)
۔ (دوسری سند) جب ابن نواحہ کو قتل کیا گیا تو سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا؛ یہ اور ابن اثال دونوں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، یہ دونوں مسیلمہ کذاب کے قاصد تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم تو یہ شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی قاصد کو قتل کرنا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں قلم کر دیتا۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان سے یہ طریقہ نافذ ہو گیا کہ قاصد کو قتل نہیںکیا جائے گا، رہا مسئلہ ابن اثال کا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے کفایت کیا ہے اور یہ آدمی، یہ اسی نظرے میں لگا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اب مجھے قدرت دی (اور میں نے اس کو قتل کر دیا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4985

۔ (۴۹۸۵)۔ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ لِابْنِ النَّوَّاحَۃِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَوْلَا أَنَّکَ رَسُولٌ لَقَتَلْتُکَ۔)) فَأَمَّا الْیَوْمَ فَلَسْتَ بِرَسُولٍ یَا خَرَشَۃُ قُمْ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ۔ قَالَ: فَقَامَ إِلَیْہِ فَضَرَبَ عُنُقَہُ۔ (مسند أحمد: ۳۶۴۲)
۔ حارثہ بن مضرب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔ آج تو قاصد نہیں ہے، خرشہ! اٹھو اور اس کا سر قلم کر دو۔ پس وہ اٹھے اور اس کو قتل کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4986

۔ (۴۹۸۶)۔ عن نُعَیْمِ بْنِ مَسْعُودٍ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ حِینَ قَرَأَ کِتَابَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ، قَالَ لِلرَّسُولَیْنِ: ((فَمَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا؟۔)) قَالَا: نَقُولُ کَمَا قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۸۵)
۔ سیدنا نعیم بن مسعود اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسیلمہ کذاب کا خط پڑھا تو اس کے دو قاصدوں سے فرمایا: تم خود کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں، جو مسیلمہ کہتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل نہ کیا جاتا ہوتا، تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4987

۔ (۴۹۸۷)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہُ صَحِبَ قَوْمًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، فَوَجَدَ مِنْہُمْ غَفْلَۃً، فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ، فَجَائَ بِہَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَبٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقْبَلَہَا۔ (مسند أحمد: ۱۸۳۳۴)
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ مشرکوں کی ایک قوم کے ساتھی بنے، لیکن جب انھوں نے ان کو غافل پایا تو ان سب کو قتل کر دیا اور ان کا مال لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مال قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4988

۔ (۴۹۸۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَۃَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الدَّارُ مِنْ دُورِ الْمُشْرِکِینَ نُصَبِّحُہَا لِلْغَارَۃِ، فَنُصِیبُ الْوِلْدَانَ تَحْتَ بُطُونِ الْخَیْلِ، وَلَا نَشْعُرُ، فَقَالَ: ((إِنَّہُمْ مِنْہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۸۰۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مشرکوں کی بستی ہو اور ہم اس پر صبح کے وقت اچانک حملہ کر دیں اور ان کے بچے گھوڑوں کے نیچے آ کر مارے جائیں، جبکہ ہمیں سمجھ ہی نہ آئے تو (ان بچوں کا قتل کیسا ہو گا)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ان کے بچے بھی ان ہی میں سے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4989

۔ (۴۹۸۹)۔ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَیَّتْنَا ھَوَازَنَ مَعَ اَبِیْ بَکْرِنِالصِّدِّیْقِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَکَانَ اَمَّرَہُ عَلَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسندأحمد:۱۶۶۱۱)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قیادت میں ہوازن پر رات کو حملہ کیا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4990

۔ (۴۹۹۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قِیْلَ لَہٗ: لَوْ اَنَّ خَیْلًا اَغَارَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَاَصَابَتْ مِنْ اَبْنَائِ الْمُشْرِکِیْنَ؟ قَالَ: ((ھُمْ مِنْ آبَائِھِمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۵۳۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: اگر مسلمانوں کا کوئی لشکر رات کو حملہ کر دے اور بیچ میںمشرکوں کے بچے بھی رگڑے جائیں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ بچے اپنے آباء میں سے ہی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4991

۔ (۴۹۹۱)۔ عَنِ الْمُھْلَبِ بْنِ اَبِیْ صُفْرَۃَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا اَرَاھُمُ اللَّیْلَۃَ اِلَّا سَیُبَیِّتُوْنَکُمْ، فَاِنْ فَعَلُوْا فَشِعَارُکُمْ حم لَا یُنْصَرُوْنَ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۵۹۱)
۔ مہلب بن ابو صفرہ، ایک صحابی ٔ رسول (سیدنا براء بن عازب) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا خیال یہی ہے کہ وہ لوگ (یعنی ابو سفیان اور اس کی قوم) رات کو تم پر حملہ کر دیں گے، اگر ایسے ہوا تو تمہارا شعار یہ ہو گا: {حم لَا یُنْصَرُوْنَ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4992

۔ (۴۹۹۲)۔ عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ،سُئِلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ اَھْلِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یُبَیِّتُوْنَ فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِھِمْ وَذَرَارِیِّھِمْ، فَقَالَ: ((ھُمْ مِنْھُمْ۔)) ثُمَّ یَقُوْلُ الزُّھْرِیُّ: ثُمَّ نَھٰی عَنْ ذٰلِکَ بَعْدُ۔ (مسند أحمد: ۱۶۷۹۰)
۔ سیدنا صعب بن جثامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشرکوں کے ان گھروںکے بارے میں سوال کیا گیا، جن پر رات کو حملہ کیا جاتا ہے اور اس طرح ان کی عورتیں اور بچے بھی قتل کر دیئے جاتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ بھی ان میں سے ہی ہیں۔ امام زہری کہتے ہیں: لیکن اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4993

۔ (۴۹۹۳)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاٰی فِیْ بَعْضِ مَغَازِیْہِ امْرَاَۃً مَقْتُوْلَۃً فَنَھٰی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ۔ (مسند أحمد: ۵۴۵۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے بعض غزووں میں ایک عورت کو قتل شدہ پایا اور پھر عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4994

۔ (۴۹۹۴)۔ عَنْ رَبَاحِ بْنِ الرَّبِیعِ أَخِی حَنْظَلَۃَ الْکَاتِبِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا، وَعَلَی مُقَدِّمَتِہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، فَمَرَّ رَبَاحٌ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی امْرَأَۃٍ مَقْتُولَۃٍ مِمَّا أَصَابَتِ الْمُقَدِّمَۃُ، فَوَقَفُوا یَنْظُرُونَ إِلَیْہَا، وَیَتَعَجَّبُونَ مِنْ خَلْقِہَا حَتّٰی لَحِقَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی رَاحِلَتِہِ، فَانْفَرَجُوْا عَنْہَا، فَوَقَفَ عَلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((مَا کَانَتْ ہٰذِہِ لِتُقَاتِلَ، فَقَالَ لِأَحَدِہِمْ: ((الْحَقْ خَالِدًا فَقُلْ لَہُ لَا تَقْتُلُونَ ذُرِّیَّۃً وَلَا عَسِیفًا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۸۸)
۔ سیدنا رباح بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ حنظلہ کاتب کے بھائی تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے، لشکر کے مقدمہ پر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مامور تھے، جب رباح اور دوسرے صحابہ ایک مقتول عورت کے پاس سے گزرے، جس کو مقدمہ نے قتل کیا تھا، تو وہ کھڑے ہو گئے، اس کو دیکھنے لگ گئے اور اس کی جسامت پر تعجب کرنے لگے، یہاں تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اس عورت کے پاس ٹھہر گئے اور فرمایا: یہ تو قتال کرنے والی نہیں تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: خالد کو ملو اور اس کو کہو کہ عورت اور بچے اور مزدور کو قتل مت کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4995

۔ (۴۹۹۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَجُلًا اَخَذَ اِمْرَاۃً فَنَازَعَتْہٗ قَائِمَ سَیْفِہِ فَقَتَلَھَا، فَمَرَّ عَلَیْھَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاُخْبِرَ بِاَمْرِھَا فَنَھٰی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۱۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت کو بطورِ قیدی لیا، جب اس خاتون نے اس مرد سے اس کی تلوار کا دستہ پکڑ کر تلوار کھینچنا چاہا تو اس نے اس کو قتل کر دیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس سے گزرے اور آپ کو بتلایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کوقتل کرنے سے منع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4996

۔ (۴۹۹۶)۔ عَنْ اَیُّوْبَ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَّا یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْہِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ سَرِیَّۃً کُنْتُ فِیْھَا، فَنَھَانَا اَنْ نَقْتُلَ الْعُسَفَائَ وَالْوُصَفَائَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۴۹۸)
۔ ایوب راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے قبیلے کے آدمی سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کر رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک سریّہ روانہ کیا، وہ بھی اس میں تھا، پسآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں مزدوروں،غلاموں اور لونڈیوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4997

۔ (۴۹۹۷)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَغَزَوْتُ مَعَہُ، فَأَصَبْتُ ظَہْرًا، فَقَتَلَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍ حَتّٰی قَتَلُوا الْوِلْدَانَ، وَقَالَ مَرَّۃً: الذُّرِّیَّۃَ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا بَالُ أَقْوَامٍ جَاوَزَہُمُ الْقَتْلُ الْیَوْمَ، حَتّٰی قَتَلُوا الذُّرِّیَّۃَ۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا ہُمْ أَوْلَادُ الْمُشْرِکِینَ؟ فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ خِیَارَکُمْ أَبْنَائُ الْمُشْرِکِینَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا لَا تَقْتُلُوا ذُرِّیَّۃً أَلَا لَا تَقْتُلُوا ذُرِّیَّۃً۔)) قَالَ: ((کُلُّ نَسَمَۃٍ تُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتّٰی یُعْرِبَ عَنْہَا لِسَانُہَا فَأَبَوَاہَا یُہَوِّدَانِہَا وَیُنَصِّرَانِہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۵۶۷۴)
۔ سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کرجہاد کیا، مجھے ایک سواری بھی مل گئی، اس دن لوگوں نے قتل کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ بچوں اور عورتوںکو بھی قتل کر دیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، آج قتل تجاوز کر گیا ہے، یہاں تک کہ انھوں نے عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر دیا ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مشرکوں کی اولاد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! تم میں سے پسندیدہ افراد بھی مشرکوں کی ہی اولاد ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! تم بچوں اور عورتوں کو قتل مت کرو، خبردار! تم بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔ پھر فرمایا: ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کی اپنی زبان وضاحت کرنے لگ جائے اور اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4998

۔ (۴۹۹۸)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ سَرِیَّۃً یَوْمَ حُنَیْنٍ، فَقَاتَلُوا الْمُشْرِکِینَ، فَأَفْضٰی بِہِمْ الْقَتْلُ إِلَی الذُّرِّیَّۃِ، فَلَمَّا جَائُ وْا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی قَتْلِ الذُّرِّیَّۃِ؟)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا کَانُوا أَوْلَادَ الْمُشْرِکِینَ؟ قَالَ: ((أَوَہَلْ خِیَارُکُمْ إِلَّا أَوْلَادُ الْمُشْرِکِینَ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا مِنْ نَسَمَۃٍ تُولَدُ إِلَّا عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتّٰی یُعْرِبَ عَنْہَا لِسَانُہَا)) (مسند أحمد: ۱۵۶۷۳)
۔ سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حنین والے دن ایک سریّہ بھیجا، اس نے مشرکوں سے قتال کیا اور اس میں قتل کا سلسلہ بچوں اور عورتوں تک جا پہنچا، جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کو بچے اور عورتیں قتل کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مشرکوںکی اولاد ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پسندیدہ افراد بھی تو مشرکوں کی ہی اولاد ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے! ہر جان فطرت ِ اسلام پر پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کی زبان اس کی طرف سے وضاحت کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 4999

۔ (۴۹۹۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ جُیُوشَہُ، قَالَ: ((اخْرُجُوا بِسْمِ اللّٰہِ، تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ، لَا تَغْدِرُوْا، وَلَا تَغُلُّوْا، وَلَا تُمَثِّلُوْا، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَلَا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ)) (مسند أحمد: ۲۷۲۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو فرماتے: اللہ کے نام کے ساتھ نکلو، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے ساتھ کفر کرنے والوں سے قتال کرو، نہ دھوکہ کرو، نہ خیانت کرو، نہ مثلہ کرو، نہ بچوں کو قتل کرو اور نہ گرجا گھروالوں کو۔ ‘
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5000

۔ (۵۰۰۰)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اقْتُلُوا شُیُوخَ الْمُشْرِکِینَ، وَاسْتَحْیُوا شَرْخَہُمْ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: سَأَلْتُ أَبِی عَنْ تَفْسِیرِ ہٰذَا الْحَدِیثِ: اقْتُلُوا شُیُوخَ الْمُشْرِکِینَ، قَالَ: یَقُولُ الشَّیْخُ: لَا یَکَادُ أَنْ یُسْلِمَ وَالشَّابُّ أَیْ یُسْلِمُ کَأَنَّہُ أَقْرَبُ إِلَی الْإِسْلَامِ مِنْ الشَّیْخِ، قَالَ: الشَّرْخُ الشَّبَابُ۔ (مسند أحمد: ۲۰۴۰۷)
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مشرکوں کے بہادری اور جنگ والے قوی افراد کو قتل کرو اور نابالغ بچوں کو چھوڑ دو۔ عبد اللہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ امام احمد i سے اس کی حدیث اُقْتُلُوا شُیُوخَ الْمُشْرِکِینَ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: شیخ کا مسئلہ یہ ہے کہ قریب نہیں ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہو جائے، جبکہ لڑکا، شیخ کی بہ نسبت اسلام قبول کرنے کے قریب ہوتا ہے۔ اَلشَّرْح سے مراد لڑکے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5001

۔ (۵۰۰۱)۔ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ قَتَلَ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اَوْ اَحْرَقَ نَخْلًا اَوْ قَطَعَ شَجَرَۃً مُثْمِرَۃً اَوْ ذَبَحَ شَاۃً لِاِھَابِھَا لَمْ یَرْجِعْ کَفَافًا)) (مسند أحمد: ۲۲۷۲۶)
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے چھوٹے بچے، یا بوڑھے آدمی کو قتل کیا، یا کھجوروں کے درخت جلائے، یا پھل دار درخت کاٹے اور چمڑے کی خاطر بکری کو ذبح کر دیا تو وہ اس جہاد سے برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5002

۔ (۵۰۰۲)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَا قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطِیْبًا اِلَّا اَمَرَنَا بِالصَّدَقَۃِ وَنَھَانَا عَنِ الْمُثْلَۃِ، قَالَ: قَالَ: ((اَلَا وَاِنَّ الْمُثْلَۃَ اَنْ یَنْذُرَ الرَّجُلُ اَنْ یَخْرُمَ اَنْفَہٗ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۱۸۱)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بھی ہمیں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تو ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیتے اور مثلہ سے منع کرتے اور فرماتے: خبرادار! یہ بھی مثلہ ہے کہ آدمی یہ نذر مانے کہ وہ اپنی ناک میں سوراخ کرے گا یا اس کو پھاڑے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5003

۔ (۵۰۰۳)۔ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْمُثْلَۃِ۔ (مسند أحمد: ۱۸۳۳۳)
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مثلہ سے منع فرمایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5004

۔ (۵۰۰۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَطَعَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیْرِ وَحَرَّقَ۔ (مسند أحمد: ۵۵۲۰)
۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے درخت کاٹے بھی تھے اور جلائے بھی تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5005

۔ (۵۰۰۵)۔ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیِدَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ وَجَّھَہٗ وِجْھَۃً فَقُبِضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَاَلَہٗ اَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مَا الَّذِیْ عَھِدَ اِلَیْکَ؟ قَالَ: عَھِدَ اِلَیَّ اَنْ اُغِیْرَ عَلٰی اَبْنٰی صَبَاحًا ثُمَّ اُحَرّقَ۔ (مسند أحمد: ۲۲۱۶۷)
۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک طرف بھیجا تھا، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے تھے، پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے سوال کیا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں کون سی نصیحت کی تھی؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ میں اَبْنٰی بستی پر صبح کے وقت حملہ کروں اور پھر جلادوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5006

۔ (۵۰۰۶)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی قَرْیَۃٍ یُقَالُ لَھَا: اَبْنٰی، فَقَالَ: ((ائْتِھَا صَبَاحًا ثُمَّ حَرِّقْ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۱۲۸)
۔ (دوسری سند) سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اَبْنٰی نامی ایک گاؤں کی طرف بھیجا تھا اور فرمایا تھا: تم صبح کے وقت وہاں جانا اور اس کو جلا دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5007

۔ (۵۰۰۷)۔ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَا تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ۔)) وَکَانَ بَیْتًا فِی خَثْعَمَ یُسَمّٰی کَعْبَۃَ الْیَمَانِیَّۃَ، فَنَفَرْتُ إِلَیْہِ فِی سَبْعِینَ وَمِائَۃِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، قَالَ: فَأَتَاہَا فَحَرَّقَہَا بِالنَّارِ، وَبَعَثَ جَرِیرٌ بَشِیرًا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَتَیْتُکَ حَتّٰی تَرَکْتُہَا، کَأَنَّہَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَرَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خَیْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِہَا خَمْسَ مَرَّاتٍ۔ (مسند أحمد: ۱۹۴۰۲)
۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تم مجھے ذو خلصہ سے راحت نہیں پہنچاتے؟ یہ خثعم قبیلے کا ایک گھر تھا، اس کو کعبۂ یمانیہ کہا جاتا تھا، میں احمس قبیلے کے ایک سو ستر گھوڑ سوار لے کر اس کی طرف گیا، وہ وہاں گئے اور آگ لگا کر اس کو جلا دیا، پھر سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ایک خوشخبری دینے والا بھیجا اور اس نے آ کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اس گھر کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آپ کو خوشخبری دینے کے لیے آیا ہوں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احمس قبیلے کے گھوڑ سواروں اور پیادہ لوگوں کے لیے پانچ بار برکت کی دعا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5008

۔ (۵۰۰۸)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَعْثٍ، فَقَالَ: ((إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا وَفُلَانًا لِرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ، فَأَحْرِقُوہُمَا بِالنَّارِ)) ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ: ((إِنِّی کُنْتُ أَمَرْتُکُمْ أَنْ تُحْرِقُوْا فُلَانًا وَفُلَانًا بِالنَّارِ، وَإِنَّ النَّارَ لَا یُعَذِّبُ بِہَا إِلَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمَا فَاقْتُلُوہُمَا)) (مسند أحمد: ۸۴۴۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور فرمایا: اگر تم قریش کے فلاں فلاں دو آدمیوں کو پا لو تو ان کو آگ کے ساتھ جلا دینا۔ پھر جب ہم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو فلاں فلاں آدمیوں کو آگ کے ساتھ جلا دینے کا حکم دیا تھا، جبکہ آگ کے ساتھ عذاب دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے اگر تم ان کو پا لو تو ان کو قتل کر دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5009

۔ (۵۰۰۹)۔ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِیِّ، صَاحِبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَہُ وَرَہْطًا مَعَہُ إِلَی رَجُلٍ مِنْ عُذْرَۃَ، فَقَالَ: ((إِنْ قَدَرْتُمْ عَلَی فُلَانٍ فَأَحْرِقُوہُ بِالنَّارِ۔)) فَانْطَلَقُوْا حَتّٰی إِذَا تَوَارَوْا مِنْہُ، نَادَاہُمْ أَوْ أَرْسَلَ فِی أَثَرِہِمْ فَرَدُّوہُمْ ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ أَنْتُمْ قَدَرْتُمْ عَلَیْہِ فَاقْتُلُوہُ، وَلَا تُحْرِقُوہُ بِالنَّارِ، فَإِنَّمَا یُعَذِّبُ بِالنَّارِ رَبُّ النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۱۳۱)
۔ صحابی ٔ رسول سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک لشکر سمیت عُذرہ قبیلے کے ایک آدمی کی طرف بھیجا اور فرمایا: اگر تم نے فلاں پر غلبہ پا لیا تو اس کو آگ کے ساتھ جلا دینا۔ پس وہ چل پڑے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اوجھل ہونے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور کسی آدمی کو بھیج کر ان کو واپس بلا لیا اور پھر فرمایا: اگر تم نے اس آدمی پر غلبہ پا لیا تو اس کو قتل کرنا، آگ کے ساتھ جلانا نہیں ہے، کیونکہ آگ کا ربّ ہی ہے، جو آگ کے ذریعے عذاب دے سکتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5010

۔ (۵۰۱۰)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَأَدّٰی زَکَاۃَ مَالِہِ طَیِّبًا بِہَا نَفْسُہُ مُحْتَسِبًا، وَسَمِعَ وَأَطَاعَ فَلَہُ الْجَنَّۃُ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَخَمْسٌ لَیْسَ لَہُنَّ کَفَّارَۃٌ، الشِّرْکُ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَقَتْلُ النَّفْسِ بِغَیْرِ حَقٍّ، أَوْ بَہْتُ مُؤْمِنٍ، أَوْ الْفِرَارُ یَوْمَ الزَّحْفِ، أَوْ یَمِینٌ صَابِرَۃٌ، یَقْتَطِعُ بِہَا مَالًا بِغَیْرِ حَقٍّ۔)) (مسند أحمد: ۸۷۲۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملا کہ اس نے اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، دل کی خوشی کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے زکوۃ ادا کی ہو اور امام کی بات سنی ہو اور اس کی اطاعت کی ہو تو اس کے لیے جنت ہو گی، یا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ پانچ گناہ ہیں، ان کا کوئی کفارہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق جان کو قتل کرنا، مؤمن پر تہمت لگانا، لڑائی والے دن بھاگ جانا اور جھوٹی قسم، جس کے ذریعے وہ ناحق مال حاصل کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5011

۔ (۵۰۱۱)۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو رُہْمٍ السَّمَعِیُّ: أَنَّ أَبَا أَیُّوبَ حَدَّثَہُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ جَائَ یَعْبُدُ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَیُقِیمُ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ، وَیَصُومُ رَمَضَانَ، وَیَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ، فَإِنَّ لَہُ الْجَنَّۃَ۔)) وَسَأَلُوہُ مَا الْکَبَائِرُ؟ قَالَ: ((الْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الْمُسْلِمَۃِ، وَفِرَارٌ یَوْمَ الزَّحْفِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۸۹۸)
۔ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں آیا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، نماز قائم کی ہو، زکوۃ ادا کی ہو، رمضان کے روزے رکھے ہوں اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا ہو تو اس کے لیے جنت ہو گی۔ جب لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کبائر کے بارے میں پوچھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، مسلمان نفس کو قتل کرنا اور لڑائی والے دن بھاگ جانا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5012

۔ (۵۰۱۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: کُنْتُ فِی سَرِیَّۃٍ مِنْ سَرَایَا رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَاصَ النَّاسُ حَیْصَۃً، وَکُنْتُ فِیمَنْ حَاصَ، فَقُلْنَا: کَیْفَ نَصْنَعُ وَقَدْ فَرَرْنَا مِنْ الزَّحْفِ وَبُؤْنَا بِالْغَضَبِ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ دَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ فَبِتْنَا ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَإِنْ کَانَتْ لَہُ تَوْبَۃٌ وَإِلَّا ذَہَبْنَا، فَأَتَیْنَاہُ قَبْلَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، فَخَرَجَ فَقَالَ: ((مَنِ الْقَوْمُ؟)) قَالَ: فَقُلْنَا نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، قَالَ: ((لَا بَلْ أَنْتُمْ الْعَکَّارُونَ، أَنَا فِئَتُکُمْ، وَأَنَا فِئَۃُ الْمُسْلِمِینَ۔)) قَالَ: فَأَتَیْنَاہُ حَتّٰی قَبَّلْنَا یَدَہُ۔ (مسند أحمد: ۵۳۸۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بھیجے ہوئے سرایا میں سے ایک سریّہ کی بات ہے، میں خود بھی اس میں تھا، لوگوں نے بھاگنا شروع کر دیا اور میں بھی فرار اختیار کرنے والوں میں سے تھا، پھر ہم نے کہا: اب ہم کیا کریں، ہم تو لڑائی سے بھاگے ہیں اور غضب ِ الہی کے ساتھ لوٹے ہیں، پھر ہم نے کہا: اب ہم مدینہ میں داخل ہو جائیں اور اندر جا کر رات گزاریں، لیکن پھر ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پیش کرتے ہیں، اگر توبہ کا حق ہوا تو ٹھیک، وگرنہ ہم چلے جائیں گے، پس ہم نمازِ فجر سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے تو پوچھا: کون لوگ ہیں؟ ہم نے کہا: جی ہم ہیں، لڑائی سے بھاگ کر آ جانے والے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں، بلکہ تم تو قتال کی طرف پلٹ جانے والے ہو اور میں تمہارا مدد گار ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی پناہ گاہ اور ان کا مددگار ہوں۔ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بوسہ لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5013

۔ (۵۰۱۳)۔ عَنْ اَبِیْ طَلْحَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا قَاتَلَ قَوْمًا فَھَزَمَھُمْ اَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثًا، وَفِیْ لَفْظٍ: لَمَّا فَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ اَھْلِ بَدْرٍ اَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثًا۔ (مسند أحمد: ۱۶۴۶۹) ]
۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی قوم سے لڑتے اور ان کو شکست دے دیتے تو وہاں کھلے میدان میں تین دن قیام کرتے۔ ایک روایت میںہے: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل بدر سے فارغ ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھلے میدان میں تین دن قیام کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5014

۔ (۵۰۱۴)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا غَلَبَ قَوْمًا اَحَبَّ اَنْ یُّقِیْمَ بِعَرْصَتِھِمْ ثَلَاثًا، وَفِیْ لَفْظٍ: ثَلَاثَ لِیَالٍ۔ (مسند أحمد: ۱۶۴۶۸)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی قوم پر غالب آ جاتے تو پسند کرتے کہ ان کے کھلے میدان میں تین دن تک قیام کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5015

۔ (۵۰۱۵)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍ مِنْ قَبْلِیْ)) (مسند أحمد: ۱۴۳۱۴)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئی ہیں،جبکہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5016

۔ (۵۰۱۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِقَوْمٍ سُودِ الرُّئُ وْسِ قَبْلَکُمْ، کَانَتْ تَنْزِلُ النَّارُ مِنَ السَّمَائِ فَتَأْکُلُہَا۔)) کَانَ یَوْمَ بَدْرٍ أَسْرَعَ النَّاسُ فِی الْغَنَائِمِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ، فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا} [الانفال: ۶۸،۶۹] (مسند أحمد: ۷۴۲۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے کالے سروں والی قوم یعنی بنو آدم کے لیے غنیمتیں حلال نہیںتھیں، بلکہ ان کے ہاں یوں ہوتا تھا کہ آگ آسمان سے نازل ہوتی تھی اور غنائم کو کھا جاتی تھی۔ جب بدر والے دن لوگوں نے غنیمتیں حاصل کرنے میں جلدی کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ، فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا} اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمھیں کوئی بڑی سزا ہوتی، پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ۔ (سورۂ انفال: ۶۸، ۶۹)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5017

۔ (۵۰۱۷)۔ عَنْ اَبِیْ لَبِیْدٍ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ کَابُلَ فَأَصَابَ النَّاسُ غَنِیْمَۃً، فَانْتَہَبُوہَا فَأَمَرَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ مُنَادِیًا یُنَادِی إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنِ انْتَہَبَ نُہْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا۔)) فَرُدُّوا ہٰذِہِ الْغَنِیْمَۃَ فَرَدُّوہَا فَقَسَمَہَا بِالسَّوِیَّۃِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۹۰۷)
۔ ابو لبید کہتے ہیں: ہم نے سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ کابل میںجہاد کیا، جب لوگوں نے غنیمت حاصل کی تو انھوں نے تقسیم سے پہلے اس کو لوٹنا شروع کر دیا، سیدنا عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک مُنادِی کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے لوٹ مار کی، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ لہذا یہ غنیمتیں واپس کر دو، پس انھوں نے واپس کر دیں، پھر انھوں نے برابری کے ساتھ ان میں تقسیم کر دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5018

۔ (۵۰۱۸)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَرَ مُعَاوِیَۃَ حِینَ سَأَلَہُ عَنِ الرَّجُلِ الَّذِی سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِقَالًا قَبْلَ أَنْ یَقْسِمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اتْرُکْہُ حَتّٰی یُقْسَمَ۔)) وَقَالَ عَتَّابٌ: ((حَتّٰی نَقْسِمَ ثُمَّ إِنْ شِئْتَ أَعْطَیْنَاکَ عِقَالًا، وَإِنْ شِئْتَ أَعْطَیْنَاکَ مِرَارًا۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۱۹)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا، جس نے تقسیمِ غنائم سے پہلے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معمولی سی چیز کا سوال کیا تھا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے یہ جواب دیا تھا: اس کو چھوڑ دے، یہاں تک کہ ان کو تقسیم کر دیا جائے۔ عتاب راوی کے یہ الفاظ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو رکھ دے، یہاں تک کہ ہم خود تقسیم کریں گے، پھر اگر تو نے چاہا تو تجھے اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی رسی دے دیں گے اور اگر تو نے چاہا تو ہم تجھے رسی دے دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5019

۔ (۵۰۱۹)۔ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیِّ قَرْیَۃً مِنْ قُرَی الْمَغْرِبِ، یُقَالُ لَہَا: جَرَبَّۃُ، فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی لَا أَقُولُ فِیکُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: قَامَ فِینَا یَوْمَ حُنَیْنٍ، فَقَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَائَہُ زَرْعَ غَیْرِہِ، یَعْنِی إِتْیَانَ الْحُبَالٰی مِنَ السَّبَایَا، وَأَنْ یُصِیبَ امْرَأَۃً ثَیِّبًا مِنَ السَّبْیِ حَتّٰی یَسْتَبْرِئَہَا، یَعْنِی إِذَا اشْتَرَاہَا، وَأَنْ یَبِیعَ مَغْنَمًا حَتّٰی یُقْسَمَ، وَأَنْ یَرْکَبَ دَابَّۃً مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتّٰی إِذَا أَعْجَفَہَا، رَدَّہَا فِیہِ وَأَنْ یَلْبَسَ ثَوْبًا مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتّٰی إِذَا أَخْلَقَہُ رَدَّہُ فِیہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۱۲۲)
۔ حنش صنعانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا رویفع بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مغرب کی جَرَبَّہ نامی بستی والوں سے جنگ کی، وہ خطاب کرنے کے لیے ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! میں تم سے وہی بات کروں گا، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حنین والے دن ہمارے اندر کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے بندے کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو پلائے، یعنی استعمال شدہ لونڈی خریدنے کی صورت میں استبرائے رحم سے پہلے اس سے جماع کرے، تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت بیچ دے، مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی سواری لے کر اس پر سواری کرے اور اس کو لاغر کر کے اسے مال غنیمت میں چھوڑ دے اور مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے کپڑا لے کر پہن لے اور پھر اس کو بوسیدہ کر کے مال غنیمت میں رکھ دے۔ دوسرے کی کھتی کو پانی پلانے کی ممانعت سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ استبرائے رحم سے پہلے حاملہ قیدی خواتین سے خاص تعلق قائم نہ کیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5020

۔ (۵۰۲۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْغَنَائِمِ حَتّٰی تُقْسَمَ، وَعَنْ بَیْعِ الثَّمَرَۃِ حَتّٰی تُحْرَزَ مِنْ کُلِّ عَامٍ، وَاَنْ یُصَلِّی الرَّجُلُ حَتّٰی یَحْتَزِمَ۔ (مسند أحمد: ۹۰۰۵)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت کو فروخت کرنے سے، آفت سے محفوظ ہونے سے پہلے پھلوں کو فروخت کرنے سے اورپیٹی کسنے سے پہلے آدمی کو نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5021

۔ (۵۰۲۱)۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: شَھِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَتْحَ خَیْبَرَ، فَلَمَّا انْھَزَمُوْا وَقَعْنَا فِیْ رِحَالِھِمْ، فَاَخَذَ النَّاسُ مَا وَجَدُوْا مِن خُرْثَیٍّ فَلَمْ یَکُنْ اَسْرَعَ مِنْ اَنْ فَارَتِ الْقُدُوْرُ، قَالَ: فَاَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْقِدْرِ فَاُکْفِئَتْ وَقَسَمَ بَیْنَنَا فَجَعَلَ لِکُلِّ عَشْرَۃٍ شَاۃً۔(مسندأحمد:۱۹۲۶۸)
۔ سیدنا ابولیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خیبر کی فتح کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر تھا، جب وہ یہودی شکست کھا گئے تو ہم ان کے گھروں میں گھس گئے اور گھروں سے ساز و سامان حاصل کرنے لگے، بہت جلدی ہنڈیاں ابلنے لگیں، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہنڈیوں کے متعلق حکم دیا تو ہنڈیاں انڈیل دی گئیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مالِ غنیمت تقسیم کیا اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری عطا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5022

۔ (۵۰۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: کُنَّا مُحَاصِرِینَ قَصْرَ خَیْبَرَ، فَأَلْقٰی إِلَیْنَا رَجُلٌ جِرَابًا فِیہِ شَحْمٌ، فَذَہَبْتُ آخُذُہُ، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَحْیَیْتُ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸۲۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے خیبر کے محل کا محاصرہ کیا ہوا تھا، ایک آدمی نے چربی کا مشکیزہ ہماری طرف پھینکا، میں اس کو لینے کے لیے گیا، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر شرما گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5023

۔ (۵۰۲۳)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: دُلِّیَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمِ یَوْمَ خَیْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُہٗ قُلْتُ: لَا اُعْطِیْ اَحَدًا مِنْہٗ شَیْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتُّ فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَبَسَّمُ۔ قَالَ بَھَزَ: اِلَیَّ۔ (مسند أحمد: ۱۶۹۱۴)
۔ (دوسری سند)خیبر والے دن چربی کا ایک مشکیزہ لٹکایا گیا، میں اس کو چمٹ گیا اور کہا: میں کسی کو اس میں سے کچھ بھی نہیں دوں گا، پھر جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5024

۔ (۵۰۲۴)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھَلِیِّ قَالَ: سَأَلْتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ عَنْ الْأَنْفَالِ فَقَالَ: فِینَا مَعْشَرَ أَصْحَابِ بَدْرٍ نَزَلَتْ حِینَ اخْتَلَفْنَا فِی النَّفْلِ، وَسَائَ تْ فِیہِ أَخْلَاقُنَا، فَانْتَزَعَہُ اللّٰہُ مِنْ أَیْدِینَا، وَجَعَلَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، عَنْ بَوَائٍ، یَقُولُ: عَلَی السَّوَائِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۱۳۳)
۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبادہ بن صامت سے انفال والی آیت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: ہم بدر والوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، جب ہم نے مالِ غنیمت میں اختلاف کیا اور اس بارے میں ہم سے بداخلاقی ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں سے یہ چیز چھین لی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مال مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5025

۔ (۵۰۲۵)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَشَہِدْتُ مَعَہُ بَدْرًا، فَالْتَقَی النَّاسُ، فَہَزَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَۃٌ فِی آثَارِہِمْ یَہْزِمُونَ وَیَقْتُلُونَ، فَأَکَبَّتْ طَائِفَۃٌ عَلَی الْعَسْکَرِ یَحْوُونَہُ وَیَجْمَعُونَہُ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُصِیبُ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ وَفَائَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ الَّذِینَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَیْنَاہَا وَجَمَعْنَاہَا فَلَیْسَ لِأَحَدٍ فِیہَا نَصِیبٌ، وَقَالَ الَّذِینَ خَرَجُوا فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ نَفَیْنَا عَنْہَا الْعَدُوَّ وَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَالَ الَّذِینَ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخِفْنَا أَنْ یُصِیبَ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً وَاشْتَغَلْنَا بِہِ، فَنَزَلَتْ: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَنْفَالِ، قُلِ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَوَاقٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَغَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَقْبَلَ رَاجِعًا وَکُلَّ النَّاسِ نَفَلَ الثُّلُثَ، وَکَانَ یَکْرَہُ الْأَنْفَالَ، وَیَقُولُ: ((لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی ضَعِیفِہِم۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۴۲)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، میں غزوۂ بدر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب لوگوں کا مقابلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو شکست دی، لشکر ِ اسلام کا ایک حصہ دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے اور ان کو قتل کرتے ہوئے ان کاپیچھا کرنے لگ گے اور ایک حصہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اس کو جمع کرنے لگا اور ایک حصے نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے میں لے لیا، تاکہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور سارے لوگ لوٹ آئے، غنیمتیں جمع کرنے والوں نے کہا: ہم نے یہ مال جمع کیا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، دشمن کا پیچھا کرنے والے گروہ نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کے مستحق نہیں ہو، ہم نے اس مال سے دشمن کو ہٹایا اور اس کو شکست دی، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حفاظت کرنے والوں نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کا حق نہیں رکھتے، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرا دیا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نقصان پہنچا دے اور اس طرح ہم اُدھر مصروف رہے، پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَنْفَالِ، قُلِ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} … وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کے فَوَاق کی مقدار کے برابر وقت میں اس مال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی سرزمین میں حملہ کرتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے تھے اور اگر واپسی پر ایسا ہوتا ہے تو مجاہدین کی تھکاوٹ کی وجہ سے ایک تہائی حصہ زائد دیتے تھے، ویسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کو ناپسند کرتے تھے کہ لوگ زائد حصے کی حرص رکھیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: قوی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کمزوروں کو زائد حصوں میں شریک کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5026

۔ (۵۰۲۶)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَلرَّجُلُ یَکُوْنُ حَامِیَۃَ الْقَوْمِ یَکُوْنُ سَھْمُہٗ وَسَھْمُ غَیْرِہِ سَوَائً؟ قَالَ: ((ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ ابْنَ اُمِّ سَعْدٍ، وَھَلْ تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۹۳)
۔ سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی بوقت شکست لوگوں کی حفاظت کا کام سرانجام دیتا ہے، کیا اس کا اور دوسرے مجاہدین کا حصہ برابر برابر ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: او سعد کی ماں کے بیٹے! تیری ماں تجھے گم پائے، صرف تمہارے کمزوروں کی وجہ سے تم کو رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5027

۔ (۵۰۲۷)۔ عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ: ((ابْغُوْنِیْ ضُعَفَائَکُمْ، فَاِنَّکُمْ اِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۰۷۴)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے لیے اپنے کمزوروں کو تلاش کر کے لاؤ۔ کیونکہ تم لوگوں کو صرف اپنے ضعیفوں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5028

۔ (۵۰۲۸)۔ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ الْکِنْدِیِّ، أَنَّہُ جَلَسَ مَعَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَأَبِی الدَّرْدَائِ وَالْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْکِنْدِیِّ، فَتَذَاکَرُوْا حَدِیثَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ لِعُبَادَۃَ: یَا عُبَادَۃُ! کَلِمَاتُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا فِی شَأْنِ الْأَخْمَاسِ، فَقَالَ عُبَادَۃُ: قَالَ إِسْحَاقُ فِی حَدِیثِہِ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَّی بِہِمْ فِی غَزْوِہِمْ إِلَی بَعِیرٍ مِنْ الْمُقَسَّمِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَنَاوَلَ وَبَرَۃً بَیْنَ أُنْمُلَتَیْہِ، فَقَالَ: ((إِنَّ ہٰذِہِ مِنْ غَنَائِمِکُمْ، وَإِنَّہُ لَیْسَ لِی فِیہَا إِلَّا نَصِیبِی مَعَکُمْ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ، فَأَدُّوا الْخَیْطَ وَالْمِخْیَطَ، وَأَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَأَصْغَرَ)) الحدیث۔(مسند أحمد: ۲۳۱۵۷)
۔ سیدنا مقدام بن معدی کرب کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ سیدنا عبادہ بن صامت ، سیدنا ابو درداء اور سیدنا حارث بن معاویہ کندی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث کا ذکر کیا، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے عبادہ: فلاں فلاں غزوے میں خمس کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باتیں، سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک غزوے کے دوران ہمیں نماز پڑھائی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس مالِ غنیمت کا ایک اونٹ تھا، جس کو ابھی تک تقسیم نہیںکیا گیا تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوگئے،اپنے دو پوروں میں اونٹ کے بال پکڑے اور فرمایا: یہ بال بھی تمہاری غنیمتوں میں سے ہیں اور اس مال میں تمہارے ساتھ میرا حصہ نہیں ہے، مگر خمس، اور وہ خمس بھی تم پر لوٹا دیا جائے گا، لہذا دھاگہ اور سوئی اور ان سے چھوٹی بڑی چیزیں، سب کچھ ادا کر دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5029

۔ (۵۰۲۹)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَاَیْتُ الْمَغَانِمَ تُجْزَئُ خَمْسَۃَ اَجْزَائٍ ثُمَّ یُسْھَمُ عَلَیْھَا، فَمَا کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَھُوَ لَہٗ یَتَخَیَّرُ۔ (مسند أحمد: ۵۳۹۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ غنیمتوں کے پانچ حصے بنائے جاتے تھے، پھر ان کے حصے بنائے جاتے تھے، جو حصہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہوتا تھا، اس کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود منتخب کرتے تھے، (یعنی جس کو چاہتے دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5030

۔ (۵۰۳۰)۔ عَنْ اَبِی الزُّیَبْرِ قَالَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ بِالْخُمُسِ؟ قَالَ: کَانَ یَحْمِلُ الرَّجُلَ مِنْہُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ الرَّجُلَ ثُمَّ الرَّجُلَ۔ (مسند أحمد: ۱۴۹۹۴)
۔ ابو زبیر سے مروی ہے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خمس کا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک آدمی کو سواری دیتے، پھر ایک آدمی کو دیتے اور پھر ایک آدمی کو دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5031

۔ (۵۰۳۱)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمَ الْقُرْبٰی مِنْ خَیْبَرَ بَیْنَ بَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ، جِئْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَؤُلَائِ بَنُو ہَاشِمٍ لَا یُنْکَرُ فَضْلُہُمْ لِمَکَانِکَ الَّذِی وَصَفَکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ مِنْہُمْ، أَرَأَیْتَ إِخْوَانَنَا مِنْ بَنِی الْمُطَّلِبِ أَعْطَیْتَہُمْ وَتَرَکْتَنَا، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَہُمْ مِنْکَ بِمَنْزِلَۃٍ وَاحِدَۃٍ، قَالَ: ((إِنَّہُمْ لَمْ یُفَارِقُونِی فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَإِنَّمَا ہُمْ بَنُو ہَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَیْئٌ وَاحِدٌ۔)) قَالَ ثُمَّ شَبَّکَ بَیْنَ اَصَابِعِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۸۶۲)
۔ سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں :جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا تو میں (جبیر) اور سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو ہاشم ہیں، ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس مقام کی وجہ سے، جو ان سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا، لیکن آپ غور کریں کہ یہ جو ہمارے بھائی بنو مطلب ہیں، آپ نے ان کو دے دیا اور ہمیں چھوڑ دیا، جبکہ ہم اور بنو مطلب آپ سے ایک مقام پر ہیں، (یعنی آپ سے ہمارا اور ان کا رشتہ داری کا درجہ ایک ہے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگ نہ مجھ سے جاہلیت میں جدا ہوئے ہیں اور نہ اسلام میں، بس بنو ہاشم اور بنومطلب ایک ہی چیز ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیوں میں تشبیک ڈالی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5032

۔ (۵۰۳۲)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) جَائَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ یُکَلِّمَانِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَیْنٍ بَیْنَ بَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِی الْمُطَّلِبِ وَبَنِی عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَیْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّمَا أَرَی ہَاشِمًا وَالْمُطَّلِبَ شَیْئًا وَاحِدًا۔)) قَالَ جُبَیْرٌ: وَلَمْ یَقْسِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِبَنِی عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِی نَوْفَلٍ مِنْ ذٰلِکَ الْخُمُسِ کَمَا قَسَمَ لِبَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۹۰۴)
۔ (دوسری سند) سیدنا جبیر اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کرنے کے لیے آئے، اس بات کی وجہ یہ تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کا خمس بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا تھا، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب اور بنو عبد مناف میں مال تقسیم کیا ہے، لیکن ہمیں کچھ نہیں دیا، جبکہ آپ سے ہماری اور ان کی رشتہ داری ایک جیسی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک چیز خیال کرتا ہو۔ سیدنا جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ مال بنو ہاشم اور بنو مطلب میںتقسیم کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5033

۔ (۵۰۳۳)۔ (وَعَنْہٗ اَیْضًا): أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَقْسِمْ لِعَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِی نَوْفَلٍ مِنْ الْخُمُسِ شَیْئًا، کَمَا کَانَ یَقْسِمُ لِبَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ، وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرَ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یُعْطِی قُرْبٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، کَمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِیہِمْ، وَکَانَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یُعْطِیہِمْ وَعُثْمَانُ مِنْ بَعْدِہِ مِنْہُ۔ (مسند أحمد: ۱۶۸۹۰)
۔ سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا اور یہ مال بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تقسیم کی طرح خمس کو تقسیم کیا کرتے تھے، البتہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قرابتداروں کو اس طرح نہیں دیتے تھے، جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دیتے تھے (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم برابر برابر تقسیم کر دیتے تھے، لیکن سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حاجت کے مطابق کسی کو کم دیتے تھے اور کسی کو زیادہ)، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس مال کا بعض حصہ ان کو دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5034

۔ (۵۰۳۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، قَالَ: سَمِعْتُ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَفَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وَالْعَبَّاسُ وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَبِرَ سِنِّی وَرَقَّ عَظْمِی وَکَثُرَتْ مُؤْنَتِی، فَإِنْ رَأَیْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَنْ تَأْمُرَ لِی بِکَذَا وَکَذَا وَسْقًا مِنْ طَعَامٍ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ۔)) فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ رَأَیْتَ أَنْ تَأْمُرَ لِی کَمَا أَمَرْتَ لِعَمِّکَ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کُنْتَ أَعْطَیْتَنِی أَرْضًا کَانَتْ مَعِیشَتِی مِنْہَا ثُمَّ قَبَضْتَہَا، فَإِنْ رَأَیْتَ أَنْ تَرُدَّہَا عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ)) قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ رَأَیْتَ أَنْ تُوَلِّیَنِی ہٰذَا الْحَقَّ الَّذِی جَعَلَہُ اللّٰہُ لَنَا فِی کِتَابِہِ مِنْ ہٰذَا الْخُمُسِ، فَأَقْسِمُہُ فِی حَیَاتِکَ کَیْ لَا یُنَازِعَنِیہِ أَحَدٌ بَعْدَکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ ذَاکَ۔)) فَوَلَّانِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَسَمْتُہُ فِی حَیَاتِہِ، ثُمَّ وَلَّانِیہِ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَسَمْتُہُ فِی حَیَاتِہِ، ثُمَّ وَلَّانِیہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَسَمْتُ فِی حَیَاتِہِ، حَتّٰی کَانَتْ آخِرُ سَنَۃٍ مِنْ سِنِی عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَإِنَّہُ أَتَاہُ مَالٌ کَثِیرٌ۔ (مسند أحمد: ۶۴۶)
۔ عبد الرحمن بن ابو لیلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے امیر المؤمنین سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: میں، سیدہ فاطمہ، سیدنا عباس اور سیدنا زید بن حارثہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہوئے، سیدنا عباس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، میری ہڈیاں کمزور پڑ گئی ہیں، جبکہ مجھ پر کلفت اور بوجھ زیادہ ہے، اس لیے اگر آپ میرے لیے اتنے اتنے وسق اناج کا حکم دینا مناسب سمجھتے ہیں تو دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ایسے ہی کریں گے۔ پھر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! جیسے آپ نے اپنے چچا جان کے لیے حکم دیا ہے، اسی طرح اگر میرے لیے مناسب سمجھتے ہیں تو حکم دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ایسا بھی کر دیں گے۔ پھر سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے ایک زمین دی تھی، میری معیشت کا انحصار اسی پر تھا، لیکن پھر آپ نے مجھ سے لے لی ہے، اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو وہ زمین مجھے واپس کر دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہم کریں گے۔ پھر میں (علی) نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اس حق کا والی بنا دیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خمس کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے، میں ہی آپ کی زندگی میں اس کی تقسیم کروں، تاکہ کوئی شخص آپ کے بعد یہ حق ہم سے چھین نہ سکے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ایسے ہی کریں گے۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کا ذمہ دار بنا دیا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں اس کو تقسیم کرتا رہا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ حق میرے ہی سپرد کیے رکھا اور میں ان کی خلافت میں اس کو تقسیم کرتا رہا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی مجھے اس کا والی بنایا اور میں ان کی خلافت میں تقسیم کرتا رہا، یہاں تک کہ ان کے دورِ خلافت کا آخری سال شروع ہو گیا، اس وقت ان کے پاس بہت زیادہ مال آیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5035

۔ (۵۰۳۵)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَۃَ الْحَرُورِیَّ حِینَ خَرَجَ مِنْ فِتْنَۃِ ابْنِ الزُّبَیْرِ، أَرْسَلَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ سَہْمِ ذِی الْقُرْبٰی لِمَنْ تَرَاہُ، قَالَ: ہُوَ لَنَا لِقُرْبٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَہُمْ، وَقَدْ کَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَیْنَا مِنْہُ شَیْئًا، رَأَیْنَاہُ دُونَ حَقِّنَا فَرَدَدْنَاہُ عَلَیْہِ وَأَبَیْنَا أَنْ نَقْبَلَہُ، وَکَانَ الَّذِی عَرَضَ عَلَیْہِمْ أَنْ یُعِینَ نَاکِحَہُمْ، وَأَنْ یَقْضِیَ عَنْ غَارِمِہِمْ، وَأَنْ یُعْطِیَ فَقِیرَہُمْ، وَأَبَی أَنْ یَزِیدَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۹۴۱)
۔ یزید بن ہرمز سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نجدہ حروری نے سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی امارت سے خروج کیا تو اس نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے قرابتداروں کے حصے کے بارے میں سوال کیا کہ ان کے علم کے مطابق وہ کس کو دیا جائے گا، انھوں نے کہا: وہ ہمارے لیے ہے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رشتہ دار ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس حصے کو ہم لوگوں میں تقسیم کیا تھا، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس مال میں کچھ حصہ ہمیں دیا اور ہم نے اس کو اپنے حق سے کم خیال کیا تو ہم نے ان کو واپس کر دیا اور قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جو حصہ ان پر پیش کیا تھا، اس کی تفصیل یہ تھی کہ وہ نکاح کرنے والے کا تعاون کریں گے، ان کے قرض داروں کا قرضہ ادا کریں گے اور ان کے فقیر لوگوں کو دیں گے، انھوں نے اس سے زیادہ دینے سے انکار کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5036

۔ (۵۰۳۶)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشِّخِّیرِ، قَالَ: کُنَّا بِہٰذَا الْمِرْبَدِ بِالْبَصْرَۃِ، قَالَ: فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ مَعَہُ قِطْعَۃُ أَدِیمٍ أَوْ قِطْعَۃُ جِرَابٍ، فَقَالَ: ہٰذَا کِتَابٌ کَتَبَہُ لِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ أَبُو الْعَلَائِ: فَأَخَذْتُہُ فَقَرَأْتُہُ عَلَی الْقَوْمِ فَإِذَا فِیہِ ((بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، ہٰذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِبَنِی زُہَیْرِ بْنِ أُقَیْشٍ، إِنَّکُمْ إِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاۃَ، وَأَدَّیْتُمُ الزَّکَاۃَ، وَأَعْطَیْتُمْ مِنْ الْمَغَانِمِ الْخُمُسَ، وَسَہْمَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالصَّفِیَّ، فَأَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللّٰہِ وَأَمَانِ رَسُولِہِ۔)) قَالَ: قُلْنَا: مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((صَوْمُ شَہْرِ الصَّبْرِ وَثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ یُذْہِبْنَ وَحَرَ الصَّدْرِ)) (مسند أحمد: ۲۳۴۶۶)
۔ یزید بن عبد اللہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم بصرہ کے اس باڑے میں تھے، ایک بدّو آیا، اس کے پاس چمڑے یا مشکیزے کا ایک ٹکڑا تھا، اس نے کہا: یہ خط ہے، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے لیے لکھا تھا، ابو العلاء کہتے ہیں: میں نے وہ خط پکڑا اور لوگوں کو پڑھ کر سنایا، اس کی عبارت یہ تھی: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ، یہ خط محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے بنو زہیر بن اقیش کو لکھا گیا ہے، اگر تم لوگ نماز ادا کرتے رہے، زکوۃ دیتے رہے، غنیمتوں میں سے خمس، اپنے نبی کا حصہ اور منتخب حصہ دیتے رہے تو تم اللہ کی امان اور اس کے رسول کی امان کے ساتھ باامن رہو گے۔ پھر ہم نے اس سے کہا: تو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا سنا، اس نے کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: صبر والے مہینے کے روزے اور ہر ماہ میں سے تین روزے سینے کے کینے کو ختم کر دیتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5037

۔ (۵۰۳۷)۔ عَنْ اَبِیْ عَمْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ أَرْبَعَۃُ نَفَرٍ، وَمَعَنَا فَرَسٌ، فَأَعْطٰی کُلَّ إِنْسَانٍ مِنَّا سَہْمًا، وَأَعْطَی الْفَرَسَ سَہْمَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۱۷۳۷۱)
۔ سیدنا عمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم چار افراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، ہمارے ساتھ ایک گھوڑا بھی تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم میں سے ہرآدمی کو ایک حصہ اور گھوڑے کے دو حصے دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5038

۔ (۵۰۳۸)۔ عَنِ الْمُنْذَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَعْطَی الزُّبَیْرَ سَھْمًا وَاُمَّہٗ سَھْمًا وَفَرَسَہٗ سَھْمَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۱۴۲۵)
۔ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود زبیر کو ایک حصہ، اس کی ماں کو ایک حصہ اور اس کے گھوڑے کے دو حصے دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5039

۔ (۵۰۳۹)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَعَلَ یَوْمَ خَیْبَرَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ وَلِلرَّجُلِ سَہْمًا، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ: أَسْہَمَ لِلرَّجُلِ، وَلِفَرَسِہِ ثَلَاثَۃَ أَسْہُمٍ، سَہْمًا لَہُ، وَسَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ۔ (مسند أحمد: ۴۴۴۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر والے دن گھوڑے کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ رکھا۔ ابو معاویہ راوی کے الفاظ یہ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آدمی اور اس کے گھوڑے کے لیے کل تین حصے رکھے، ایک آدمی کا اور دو اس کے گھوڑے کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5040

۔ (۵۰۴۰)۔ عَنْ مَجْمَعِ بْنِ جَارِیَۃَ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: فَقُسِمَتْ خَیْبَرُ عَلَی أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ لَمْ یُدْخِلْ مَعَہُمْ فِیہَا أَحَدًا إِلَّا مَنْ شَہِدَ الْحُدَیْبِیَۃَ، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا، وَکَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَۃٍ، فِیہِمْ ثَلَاثُ مِائَۃِ فَارِسٍ، فَأَعْطَی الْفَارِسَ سَہْمَیْنِ، وَأَعْطَی الرَّاجِلَ سَہْمًا۔ (مسند أحمد: ۱۵۵۴۹)
۔ سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خیبر کو اہل حدیبیہ پر تقسیم کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کیا، بس صرف وہی جو حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے اٹھارہ حصے بنائے، لشکر کی تعداد پندرہ سو(۱۵۰۰) تھی، ان میں تین سو گھوڑ سوار تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھوڑ سوار کو دو حصے دیئے اور پیادہ کو ایک۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5041

۔ (۵۰۴۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی الْمَرْأَۃَ وَالْمَمْلُوْکَ مِنَ الْغَنَائِمَ مَا یُصِیْبُ الْجَیْشَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: دُوْنَ مَا یُصِیْبُ الْجَیْشَ۔ (مسند أحمد: ۲۹۲۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مالِ غنیمت میں سے عورت اور غلام کو اتنا حصہ دیتے تھے، جتنا لشکر والے افراد کو ملتا تھا، لیکن ایک روایت میں ہے: لشکر والے افراد سے کم حصہ عورت اور غلام کو دیا جاتاتھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5042

۔ (۵۰۴۲)۔ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّھُمْ کَانُوْا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ غَزْوَۃٍ، قَالَ: وَفِیْنَا مَمْلُوْکِیْنَ فَلَا یُقْسَمَ لَھُمْ۔ (مسند أحمد: ۲۴۴۶۱)
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں تھے، ہم میں غلام بھی تھے، مالِ غنیمت میں سے ان کو کچھ نہیں دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5043

۔ (۵۰۴۳)۔ وَعَنْ اِمْرَأَۃٍ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ قَالَتْ: لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ خَیْبَرَ رَضَّخَ لَنَا مِنَ الْفَیْئِ، اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند أحمد: ۲۷۶۷۷)
۔ بنوغفار کی ایک خاتون سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر فتح کیا تو ہمیں بھی مالِ غنیمت میں سے تھوڑی مقدار میں عطیے دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5044

۔ (۵۰۴۴)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وَقَدْ کَتَبَ اِلَیْہِ نَجْدَۃُ الْحَرُوْرِیُّ یَسْأَلُہٗ عَنْ خَمْسِ خِصَالٍ مِنْھَا: ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَغْزُو بِالنِّسَائِ مَعَہُ؟ فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ کَانَ یَغْزُو بِالنِّسَائِ مَعَہُ، فَیُدَاوِینَ الْمَرْضٰی وَلَمْ یَکُنْ یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ، وَلٰکِنَّہُ کَانَ یُحْذِیہِنَّ مِنَ الْغَنِیمَۃِ۔ (مسند أحمد: ۲۸۱۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، جبکہ نجدہ حروری نے ان کی طرف خط لکھا اور پانچ امور کے بارے میں پوچھا، ایک سوال یہ تھا: کیا عورتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جہاد کرتی تھیں؟ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواباً لکھا: بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ عورتیں جہاد میں جاتی تھیں اور مریضوں کا دوا دارو کرتی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے لیے دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ مقرر نہیں کرتے تھے، البتہ مالِ غنیمت میں سے تھوڑا بہت بطورِ عطیہ دے دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5045

۔ (۵۰۴۵)۔ عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلٰی آبِی اللَّحْمِ قَالَ: شَھِدْتُ خَیْبَرَ مَعَ سَادَتِیْ فَکَلَّمُوْا فِیَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَاَمَرَبِیْ فَقَلَّدْتُ سَیْفًا فَاِذَا اَنَا اَجُرُّہٗ، فَاُخْبِرَ اَنَّیْ مَمْلُوْکٌ فَاَمَرَ لِیْ بِشَیْئٍ مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ۔ (مسند أحمد: ۲۲۲۸۶)
۔ مولائے آبی اللحم سیدنا عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے آقاؤں کے ساتھ غزوۂ خیبر میں حاضر ہوا، جب انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرے بارے میں بات کی توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بارے میں حکم دے دیا، میں نے اپنے ساتھ اس طرح تلوار لٹکائی کہ وہ گھسٹ رہی تھی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ میں غلام ہوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ مالِ غنیمت میں سے تھوڑی سی مقدار میں گھریلو ساز و سامان مجھے دے دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5046

۔ (۵۰۴۶)۔ عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ: رَأَیْتُ رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلَانِ مُسْلِمٌ وَمُشْرِکٌ، وَإِذَا رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ یُرِیدُ أَنْ یُعِینَ صَاحِبَہُ الْمُشْرِکَ عَلَی الْمُسْلِمِ، فَأَتَیْتُہُ فَضَرَبْتُ یَدَہُ فَقَطَعْتُہَا وَاعْتَنَقَنِی بِیَدِہِ الْأُخْرٰی، فَوَاللّٰہِ! مَا أَرْسَلَنِی حَتّٰی وَجَدْتُ رِیحَ الْمَوْتِ، فَلَوْلَا أَنَّ الدَّمَ نَزَفَہُ لَقَتَلَنِی فَسَقَطَ فَضَرَبْتُہُ فَقَتَلْتُہُ وَأَجْہَضَنِی عَنْہُ الْقِتَالُ، وَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ، فَسَلَبَہُ فَلَمَّا فَرَغْنَا وَوَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَسَلَبُہُ لَہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ قَتَلْتُ قَتِیلًا وَأُسْلِبَ فَاَجْھَضَنِیْ عَنْہُ الْقِتَالُ، فَلَا اَدْرِیْ مَنِ اسْتَلَبَہُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ: صَدَقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا سَلَبْتُہُ فَارْضِہِ عَنِّی مِنْ سَلَبِہِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: تَعْمِدُ إِلٰی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللّٰہِ، یُقَاتِلُ عَنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، تُقَاسِمُہُ سَلَبَہُ ارْدُدْ عَلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((صَدَقَ فَارْدُدْ عَلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ)) قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ: فَأَخَذْتُہُ مِنْہُ فَبِعْتُہُ فَاشْتَرَیْتُ بِثَمَنِہِ مَخْرَفًا بِالْمَدِینَۃِ، وَإِنَّہُ لَأَوَّلُ مَالٍ اعْتَقَدْتُہُ۔ (مسند أحمد: ۲۲۹۸۱)
۔ سیدنا ابو قتادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا، ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا کافر، ایک مشرک آدمی چاہتا تھا کہ وہ مسلمان کے خلاف اپنے مشرک ساتھی کی مدد کرے، لیکن اُدھر سے میں آیا اور اس کے ہاتھ پر ضرب لگا کر اس کو کاٹ دیا، اس نے دوسرے ہاتھ سے مجھے اس طرح پکڑا جیسے معانقہ کرتے ہیں، پس اللہ کی قسم! اس نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا، یہاں تک کہ میں نے اس سے موت کی بو محسوس کر لی، اگر اس کا خون نہ بہتا تو وہ مجھے قتل کر دیتا، پھر وہ گر پڑا اور میں نے اس کو ضرب لگائی اور قتل کر دیا، پھر میں قتال کی مصروفیت کی وجہ سے اس کا سلب نہ لے سکا، اور اس کے پاس سے اہل مکہ کا ایک آدمی گزرا اور اس نے اس کا سلب لے لیا، پس جب ہم فارغ ہوئے اور لڑائی ختم ہو گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی شخص کو قتل کیا، اس کا سلب اس کے لیے ہو گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک شخص کو قتل کیا ہے، لیکن پھر لڑائی میں مصروف ہو گیا، اب میں نہیں جانتا کہ کس نے اس کا سلب لے لیا ہے، اہل مکہ کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہا ہے، میں نے اس کا سلب لے لیا ہے، تو آپ اس کو میری طرف سے راضی کر دیں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر کی طرف قصد کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہے اور پھر تو اس کا سلب تقسیم کرتا ہے، تو اس کے مقتول کا سلب اس پر لوٹا دے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر سچ کہہ رہے ہیں، تو اس کے مقتول کا سلب اس پر لوٹا دے۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اس سے وہ سامان لیا اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے مدینہ منورہ میں ایک باغ خریدا، یہ پہلا مال تھا، جس کا میں مالک بنا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5047

۔ (۵۰۴۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ: ((مَنْ تَفَرَّدَ بِدَمِ رَجُلٍ فَقَتَلَہُ فَلَہُ سَلَبُہُ۔)) قَالَ: فَجَائَ أَبُو طَلْحَۃَ بِسَلَبِ أَحَدٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا۔ (مسند أحمد: ۱۳۰۷۲)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جو آدمی کسی کو قتل کرنے میں اکیلا ہو تو اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیس افراد کا سلب لے کر آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5048

۔ (۵۰۴۸)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ: ((مَنْ قَتَلَ کَافِرًا فَلَہٗ سُلْبُہٗ۔)) قَالَ: فَقَتَلَ اَبُوْ طَلْحَۃَ عِشْرِیْنَ۔ (مسند أحمد: ۱۲۱۵۵)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا، اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس کافر قتل کیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5049

۔ (۵۰۴۹)۔ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِیہِ جُبَیْرٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَۃً إِلٰی طَرَفِ الشَّامِ، فَأُمِّرَ عَلَیْنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَانْضَمَّ إِلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَمْدَادِ حِمْیَرَ، فَأَوٰی إِلٰی رَحْلِنَا، لَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ إِلَّا سَیْفٌ، لَیْسَ مَعَہُ سِلَاحٌ غَیْرُہُ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ جَزُورًا، فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَلْ حَتَّی أَخَذَ مِنْ جِلْدِہِ کَہَیْئَۃِ الْمِجَنِّ حَتّٰی بَسَطَہُ عَلَی الْأَرْضِ ثُمَّ وَقَدَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَفَّ، فَجَعَلَ لَہُ مُمْسِکًا کَہَیْئَۃِ التُّرْسِ، فَقُضِیَ أَنْ لَقِینَا عَدُوَّنَا فِیہِمْ أَخْلَاطٌ مِنْ الرُّومِ وَالْعَرَبِ مِنْ قُضَاعَۃَ فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِیدًا، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الرُّومِ عَلٰی فَرَسٍ لَہُ أَشْقَرَ وَسَرْجٍ مُذَہَّبٍ وَمِنْطَقَۃٍ مُلَطَّخَۃٍ ذَہَبًا وَسَیْفٌ مِثْلُ ذٰلِکَ، فَجَعَلَ یَحْمِلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَیُغْرِی بِہِمْ، فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ الْمَدَدِیُّ یَحْتَالُ لِذٰلِکَ الرُّومِیِّ حَتّٰی مَرَّ بِہِ فَاسْتَقْفَاہُ فَضَرَبَ عُرْقُوبَ فَرَسِہِ بِالسَّیْفِ فَوَقَعَ، ثُمَّ أَتْبَعَہُ ضَرْبًا بِالسَّیْفِ حَتّٰی قَتَلَہُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ الْفَتْحَ أَقْبَلَ یَسْأَلُ لِلسَّلَبِ، وَقَدْ شَہِدَ لَہُ النَّاسُ بِأَنَّہُ قَاتِلُہُ، فَأَعْطَاہُ خَالِدٌ بَعْضَ سَلَبِہِ وَأَمْسَکَ سَائِرَہُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَی رَحْلِ عَوْفٍ ذَکَرَہُ، فَقَالَ لَہُ عَوْفٌ: ارْجِعْ إِلَیْہِ فَلْیُعْطِکَ مَا بَقِیَ، فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَأَبٰی عَلَیْہِ، فَمَشٰی عَوْفٌ حَتّٰی أَتٰی خَالِدًا، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَمَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَدْفَعَ إِلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ؟ قَالَ خَالِدٌ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ، قَالَ عَوْفٌ: لَئِنْ رَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأَذْکُرَنَّ ذٰلِکَ لَہُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بَعَثَہُ عَوْفٌ فَاسْتَعْدٰی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا خَالِدًا وَعَوْفٌ قَاعِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یَمْنَعُکَ یَا خَالِدُ أَنْ تَدْفَعَ إِلٰی ہٰذَا سَلَبَ قَتِیلِہِ؟)) قَالَ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((ادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) قَالَ: فَمَرَّ بِعَوْفٍ فَجَرَّ عَوْفٌ بِرِدَائِہِ، فَقَالَ: اَنْجَزْتُ لَکَ مَا ذَکَرْتُ لَکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَمِعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتُغْضِبَ فَقَالَ: ((لَا تُعْطِہِ یَا خَالِدُ! ہَلْ أَنْتُمْ تَارِکِی أُمَرَائِی، إِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُہُمْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِیَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاہَا ثُمَّ تَخَیَّرَ سَقْیَہَا، فَأَوْرَدَہَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِیہِ فَشَرِبَتْ صَفْوَۃَ الْمَائِ، وَتَرَکَتْ کَدَرَہُ، فَصَفْوُہُ لَکُمْ وَکَدَرُہُ عَلَیْہِمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۸۷)
۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے شام کی طرف ایک غزوہ کیا، (یہ ۸ ؁ھ میں لڑا جانے والا غزوۂ موتہ تھا)، سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے امیر تھے، حمیر قبیلے کے اعوان و انصار میں سے ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ مل گیا، وہ ہماری رہائش گاہ میں آگیا اور اس کے پاس صرف ایک تلوار تھی، اس کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں تھا، ایک مسلمان نے اونٹ نحر کیے، وہ آدمی حیلے بہانے کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے ان اونٹوں کے چمڑے سے ڈھال کی طرح کی ایک چیز بنائی، پھر اس کو زمین پر بچھایا اور اس پر آگ جلائی، یہاں تک کہ وہ خشک ہو گئی، پھر اس نے ڈھال کی طرح کا اس کو دستہ لگا دیا، پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہمارا دشمنوں سے مقابلہ شروع ہو گیا، ہمارا دشمن رومیوں اور عرب کے بنو قضاعہ قبیلے کے افراد پر مشتمل تھا، انھوں نے ہم سے بڑی سخت لڑائی لڑی، رومیوں میں ایک جنگجو ایسا تھا کہ وہ سرخ رنگ کے گھوڑے پر سنہری زین رکھ کر اس پر سوار تھا، اس گھوڑے کا تنگ بھی سونے سے لت پت تھا اور اس کی تلوار بھی ایسے ہی سنہری تھی، اس نے مسلمانوں پر حملہ کرنا اور لڑائی کی آگ بھڑکانا شروع کی، حمیر قبیلے کا یہ آدمی اس رومی کے لیے حیلے بہانے کرنے لگا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو یہ اس کے پیچھے چل پڑا، یہاں تک کہ اس کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ کا گھٹنا کاٹ دیا، پس وہ گھوڑا گر پڑا اور وہ شخص اس رومی پر تلوار کے ساتھ چڑھ دوڑا اور اس کوقتل کر دیا، جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو وہ شخص سلب کا سوال کرنے لگا، جبکہ لوگ اس کے حق میں یہ گواہی دے رہے تھے کہ واقعی اس نے اس کو قتل کیا ہے، لیکن سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور باقی روک لیا، پھر جب وہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رہائش گاہ کی طرف لوٹا اور ان کو یہ بات بتلائی تو انھوں نے کہا: تو سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف لوٹا جا، ان کو چاہیے کہ باقی حصہ بھی تجھے دے دیں، پس وہ لوٹ کر تو گیا، لیکن انھوں نے اس کو باقی حصہ دینے سے انکار کر دیا، پس سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود چل کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سلب کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی،کیوں نہیں، مجھے پتہ ہے، انھوں نے کہا: تو پھر تجھے اس کو اس کے مقتول کا سلب دینے سے کون سی چیز مانع ہے؟ سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دراصل میں نے اس حصے کو بہت زیادہ سمجھا ہے (اور سارے کا سارا اس کو نہیں دیا)، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ دیکھا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ضرور ضرور بتلاؤں گا، پھر جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس شخص کو بھیجا اور اس نے جا کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شکایت کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا، جبکہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! کس چیز نے تجھے اس شخص کو اس کا سلب دینے سے روکا؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس سلب کو زیادہ سمجھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس کو دے دے۔ جب سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی چادر گھسیٹی اور کہا: میں نے جو بات تم کو کہی تھی، اب میں نے اس کو تیرے لیے پورا کر دیا ہے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کا یہ طعن سنا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غصے آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! تو اس کو نہ دے، کیا تم میرے امراء کو میرے لیے چھوڑنے والے ہو، میری اور میرے امراء کی مثال اس شخص کی سی ہے، جس کو اونٹ یا بکریاں چرانے کا کہا گیا، پس اس نے ان کو چرایا، پھر اس نے ان کو پانی پلانے کا وقت مقرر کیا اور ان کو حوض پر لے آیا، پس انھوں نے پانی پینا شروع کیا اور سارا صاف پانی پی گئے اور گدلا پانی رہ گیا، (ایسے سمجھو کہ) میرے امراء کا صاف پن تمہارے لیے ہے اور گدلا پن ان پر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5050

۔ (۵۰۵۰)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوَازِنَ وَغَطَفَانَ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ عَلٰی جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ شَیْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِیرِ، فَقَیَّدَ بِہِ الْبَعِیرَ، ثُمَّ جَائَ یَمْشِی حَتّٰی قَعَدَ مَعَنَا یَتَغَدّٰی، قَالَ: فَنَظَرَ فِی الْقَوْمِ فَإِذَا ظَہْرُہُمْ فِیہِ قِلَّۃٌ وَأَکْثَرُہُمْ مُشَاۃٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَی الْقَوْمِ خَرَجَ یَعْدُو، قَالَ: فَأَتٰی بَعِیرَہُ فَقَعَدَ عَلَیْہِ، قَالَ: فَخَرَجَ یَرْکُضُہُ وَہُوَ طَلِیعَۃٌ لِلْکُفَّارِ، فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلٰی نَاقَۃٍ لَہُ وَرْقَائَ، قَالَ إِیَاسٌ: قَالَ أَبِی: فَاتَّبَعْتُہُ أَعْدُو عَلٰی رِجْلَیَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَۃِ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُہُ فَکُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ النَّاقَۃِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتَّی کُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّی أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَہُ: إِخْ! فَلَمَّا وَضَعَ الْجَمَلُ رُکْبَتَہُ إِلَی الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَضَرَبْتُ رَأْسَہُ فَنَدَرَ ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِہِ أَقُودُہَا، فَاسْتَقْبَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ النَّاسِ، قَالَ:(( مَنْ قَتَلَ ہٰذَا الرَّجُلَ؟)) قَالُوْا ابْنُ الْأَکْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَہُ سَلَبُہُ أَجْمَعُ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۶۵۱)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہوازن اور غطفان کے ساتھ جہاد کیا، ہم ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا اور اونٹ کے تنگ میں سے کوئی چیز نکالی اور اس کے ساتھ اپنے اونٹ کو باندھا، پھر آیا اور ہمارے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے لگا، اس نے ہمارے لوگوں کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ہمارے سوار تھوڑے ہیں اور زیادہ تر لوگ پیدل ہیں، یہ جائزہ لے کر وہ دوڑتا ہوا نکلا، اپنے اونٹ کے پاس گیا اور اس پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے لگا، یہ دراصل کافروں کا جاسوس تھا، بنواسلم قبیلے کا ایک آدمی اپنی سیاہی نما اونٹنی پر سوار ہوا اور اس کا پیچھا کیا، سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اپنی ٹانگوں پر دوڑا، اس آدمی کی اونٹنی کا سر جاسوس کے اونٹ کے پچھلی ٹانگ تک پہنچ چکا تھے، پیچھے سے میں بھی ملا جا رہا تھا اور اس کی اونٹنی کی پچھلی ٹانگ کے برابر تک پہنچ چکا تھا، میں میں اور آگے بڑھا اور جاسوس کے اونٹ کے پچھلے حصے کے برابر ہو گیا، پھر میں اور آگے بڑھا اور اونٹ کی لگام پکڑ لی اور اس کو بیٹھنے کی آواز دی، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار سونتی اور اس کے سر پر ماری اوروہ گر پڑا، پھر میں اونٹنی لے کر واپس آ گیا، آگے سے کچھ لوگوں سمیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کس نے اس آدمی کو قتل کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابن اکوع نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا سارا سلب اس کے لیے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5051

۔ (۵۰۵۱)۔ عن ابی قَتَادَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ أَقَامَ الْبَیِّنَۃَ عَلٰی قَتِیلٍ فَلَہُ سَلَبُہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۸۵)
۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مقتول پر دلیل قائم کر دی تو اس کا سلب اس کے لیے ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5052

۔ (۵۰۵۲)۔ عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّہُ قَتَلَ رَجُلًا مِنَ الْکُفَّارِ، فَنَفَّلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَلَبَہُ وَدِرْعَہُ، فَبَاعَہُ بِخَمْسِ أَوَاقٍ۔ (مسند أحمد: ۲۲۹۸۸)
۔ سیدنا ابو قتادہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک کافر کو قتل کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کافر کا سلب اور زرہ ان کو دی، پھر انھوں نے وہ زرہ پانچ اوقیوں کے عوض فروخت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5053

۔ (۵۰۵۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّ عَلٰی اَبِیْ قَتَادَۃَ وَھُوَ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ قَتَلَہٗ فَقَالَ: ((دَعُوْہٗ وَسَلْبَہٗ۔)) (مسند أحمد: ۲۶۲۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ اپنے مقتول کے پاس موجود تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو اور اس کے سلب کو چھوڑ دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5054

۔ (۵۰۵۴)۔ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْاَشْجَعِیِّ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یُخَمِّسِ السَّلْبَ۔ (مسند أحمد: ۲۴۴۸۸)
۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی اور سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلب میں سے خمس وصول نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5055

۔ (۵۰۵۵)۔ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَذَکَرَ قِصَّۃَ اِغَارَۃِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْفَزَارِیِّ عَلٰی سَرْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاسْتِنْقَاذِہِ مِنْہٗ، قَالَ: فَلَمَّا اَصْبَحْنَا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَیْرُ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ اَبُوْ قَتَادَۃَ وَخَیْرُ رِجَالَتِنَا سَلَمَۃُ۔)) فَاَعْطَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَھْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِیْعًا۔ (مسند أحمد: ۱۶۶۵۴)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، پھر انھوں نے عبدالرحمن فزاری کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مویشیوں پر ڈاکہ مارنے اور ان کے بچانے کا واقعہ ذکر کیا،سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج ابو قتادہ بہترین گھوڑ سوار اور سلمہ بہترین پیادہ ثابت ہوئے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیادہ اور گھوڑ سوار دونوں کا حصہ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5056

۔ (۵۰۵۶)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ شَفَانِی اللّٰہُ مِنْ الْمُشْرِکِینَ، فَہَبْ لِی ہَذَا السَّیْفَ، قَالَ: ((إِنَّ ہٰذَا السَّیْفَ لَیْسَ لَکَ وَلَا لِی ضَعْہُ۔)) قَالَ: فَوَضَعْتُہُ ثُمَّ رَجَعْتُ، قُلْتُ: عَسٰی أَنْ یُعْطٰی ہٰذَا السَّیْفَ الْیَوْمَ مَنْ لَمْ یُبْلِ بَلَائِی، قَالَ: إِذَا رَجُلٌ یَدْعُونِی مِنْ وَرَائِی، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أُنْزِلَ فِیَّ شَیْئٌ، قَالَ: ((کُنْتَ سَأَلْتَنِی السَّیْفَ وَلَیْسَ ہُوَ لِی وَإِنَّہُ قَدْ وُہِبَ لِی فَہُوَ لَکَ۔)) قَالَ: وَأُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ} (مسند أحمد: ۱۵۳۸)
۔ سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: اے اللہ رسول! تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے شفا دے دی ہے، پس آپ یہ تلوار مجھے ہبہ کر دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تلوار میری ہے نہ تیری، سو اس کو یہیں رکھ دے۔ پس میں نے اس کو رکھ دیا، پھر واپس لوٹ گیا اور میں نے کہا: ممکن ہے کہ یہ تلوار ایسے بندے کو دے دی جائے، جو میری طرح کی بہادری کا مظاہرہ نہ کر سکے، اتنے میں ایک آدمی نے میرے پیچھے سے مجھے بلایا ، میں نے کہا: لگتا ہے کہ میرے بارے میں کوئی خاص حکم اترا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے مجھ سے اس تلوار کا سوال کیا تھا، جبکہ یہ میری نہیں تھی، اب یہ مجھے ہبہ کر دی گئی ہے، لہذا اب یہ تیری ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی : لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں، پس کہہ دیجئے کہ انفال، اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5057

۔ (۵۰۵۷)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَفَّلَ الرُّبُعَ بَعْدَ الْخُمُسِ فِی بَدْأَتِہِ، وَنَفَّلَ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ فِی رَجْعَتِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۷۶۰۴)
۔ سیدنا حبیب بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (غزوے کے سفر کی) ابتداء میں خمس نکالنے کے بعد ایک چوتھائی حصہ اور واپسی پر خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی حصہ زائد دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5058

۔ (۵۰۵۸)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ، قَالَ: شَہِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَفَّلَ الرُّبُعَ فِی الْبَدْأَۃِ وَالثُّلُثَ فِی الرَّجْعَۃِ، قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمٰنِ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: لَیْسَ فِی الشَّامِ رَجُلٌ أَصَحُّ حَدِیثًا مِنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَعْنِی التَّنُوخِیَّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۶۰۸)
۔ سیدنا حبیب بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شروع میں ایک چوتھائی اور واپسی پر ایک تہائی حصہ زائد دیا۔ ابو عبد الرحمن نے کہا: میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے شام میں کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو سعید بن عبد العزیز تنوخی سے زیادہ صحیح احادیث والا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5059

۔ (۵۰۵۹)۔ وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ صَامِتٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَفَّلَ فِی الْبَدَائَۃِ الرُّبْعَ وَفِی الرَّجْعَۃِ الثُّلُثَ۔ (مسند أحمد: ۲۳۱۰۵)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابتدا میں ایک چوتھائی حصہ اور واپسی پر ایک تہائی حصہ زائد دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5060

۔ (۵۰۶۰)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَغَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَّلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَقْبَلَ رَاجِعًا وَکَلَّ النَّاسُ نَفَلَ الثُّلُثَ، وَکَانَ یَکْرَہُ الْأَنْفَالَ، وَیَقُولُ: ((لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِینَ عَلٰی ضَعِیفِہِم۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۴۲)
۔ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی زمین میں حملے کے لیے جا رہے ہوتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے اور جب لوٹ رہے ہوتے تھے، اور لوگ تھکے ہوئے ہوتے تو ایک تہائی حصہ زائد دیتے، دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زائد حصوں کو ناپسند کرتے اور فرماتے: چاہیے کہ قوی مؤمن، کمزوروں پر لوٹا دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5061

۔ (۵۰۶۱)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَرِیَّۃٍ بَلَغَتْ سُھْمَانُنَا اِثْنَیْ عَشَرَ بَعِیْرًا، وَنَفَّلَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعِیْرًا بَعِیْرًا۔ (مسند أحمد: ۵۱۸۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا، ہمارے حصوں میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایک اونٹ ہمیں زائد بھی دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5062

۔ (۵۰۶۲)۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗ کَانَ یَنْفُلُ فِیْ مَغَازِیْہِ۔ (مسند أحمد: ۱۹۸۳۰)
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے غزووں میں زائد حصہ دیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5063

۔ (۵۰۶۳)۔ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا جَائَ فَیْئٌ قَسَمَہُ مِنْ یَوْمِہِ، فَأَعْطَی الْآہِلَ حَظَّیْنِ، وَأَعْطَی الْعَزَبَ حَظًّا وَاحِدًا، فَدُعِینَا وَکُنْتُ أُدْعٰی قَبْلَ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، فَدُعِیتُ فَأَعْطَانِی حَظَّیْنِ، وَکَانَ لِی أَہْلٌ، ثُمَّ دَعَا بِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ فَأُعْطِیَ حَظًّا وَاحِدًا، فَبَقِیَتْ قِطْعَۃُ سِلْسِلَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْفَعُہَا بِطَرَفِ عَصَاہُ ثُمَّ رَفَعَہَا وَہُوَ یَقُولُ: ((کَیْفَ أَنْتُمْ یَوْمَ یَکْثُرُ لَکُمْ مِنْ ہٰذَا۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۸۶)
۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مالِ فئے آتا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو اسی دن اس طرح تقسیم کر دیا کرتے تھے کہ شادی شدہ کو دو حصے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے تھے، ، پس ایک دن ہمیں بلایا گیا اور مجھے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پہلے بلایا جاتا تھا، پس مجھے بلایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دو حصے دیئے، کیونکہ میں اہل و عیال والا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو ایک حصہ دیا، سونے کی چین کا ایک ٹکرا بچ گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو اپنی لاٹھی کے سرے سے اٹھاتے، لیکن وہ گر جاتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اٹھایا، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرما رہے تھے: اس وقت تمہارا کیا بنے گا، جس دن تمہارے لیے یہ سونا بہت زیادہ ہو جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5064

۔ (۵۰۶۴)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَتْ أَمْوَالُ بَنِی النَّضِیرِ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّا لَمْ یُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَیْہِ بِخَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ، فَکَانَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَالِصَۃً، وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی أَہْلِہِ مِنْہَا نَفَقَۃَ سَنَۃٍ، (وَفِیْ لَفْظٍ: قُوْتَ سَنَۃٍ) وَمَا بَقِیَ جَعَلَہُ فِی الْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّۃً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَََََّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر کے مال وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بطورِ مالِ فے دیئے تھے، مسلمانوں نے اس مال کو حاصل کرنے کے لیے گھوڑوں اور سواریوں کو نہیں دوڑایا تھا، پس یہ مال خالص رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے تھا (اور اپنی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کر سکتے تھے)، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا دانہ پانی رکھ لیتے اور اس سے جو بچ جاتا، اس کو اللہ کی راہ میں تیاری کرتے ہوئے گھوڑوں اور اسلحہ پر خرچ کر دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5065

۔ (۵۰۶۵)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: کَانَ عُمَرُ یَحْلِفُ عَلَی أَیْمَانٍ ثَلَاثٍ یَقُولُ: وَاللّٰہِ! مَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِہٰذَا الْمَالِ مِنْ أَحَدٍ، وَمَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہِ مِنْ أَحَدٍ، وَاللّٰہِ مَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَحَدٌ إِلَّا وَلَہُ فِی ہَذَا الْمَالِ نَصِیبٌ إِلَّا عَبْدًا مَمْلُوکًا، وَلٰکِنَّا عَلَی مَنَازِلِنَا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَقَسْمِنَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُہُ فِی الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَقَدَمُہُ فِی الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَغَنَاؤُہُ فِی الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُہُ، وَ وَاللّٰہِ! لَئِنْ بَقِیتُ لَہُمْ لَیَأْتِیَنَّ الرَّاعِیَ بِجَبَلِ صَنْعَائَ حَظُّہُ مِنْ ہٰذَا الْمَالِ، وَہُوَ یَرْعٰی مَکَانَہُ۔ (مسند أحمد: ۲۹۲)
۔ مالک بن اوس بن حدثان سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تین امور پر قسمیں اٹھاتے اور کہتے تھے: اللہ کی قسم! کوئی ایک کسی دوسرے سے اس مالِ فے کا زیادہ مستحق نہیں ہے اور میں بھی کسی سے زیادہ اس کا حق نہیں رکھتا، اللہ کی قسم ہے، ہر مسلمان کا اس مال میں حصہ ہے، ما سوائے غلام کے، ہاں کتاب اللہ کی تفصیل اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تقسیم کے مطابق ہمارے مرتبے مختلف ہے، مثلا: ایک آدمی اور اس کا اسلام میں آزمایا جانا ہے، ایک آدمی اور اس کا اسلام کی طرف سبقت کرنا ہے، ایک آدمی اور اس کا غنی ہونا ہے اور ایک آدمی اور اس کی حاجتمندی ہے، اللہ کی قسم ہے، اگر میں زندہ رہا تو صنعاء کے پہاڑ میں بکریاں چرانے والے تک اس کا حصہ پہنچ جائے گا، جبکہ وہ اسی جگہ پر بکریاں چرا رہا ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5066

۔ (۵۰۶۶)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ فِی یَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا، فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۰۰)
۔ ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ والے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن اور اس کو تقسیم کرنے والا بنایا ہے، بلکہ یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے اور میں اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آل سے اور پھر ان کے بعد شرف والے لوگوں سے شروع کرنے والا ہوں، پھر انھو ںنے امہات المؤمنین کو دس ہزار درہم دیئے، ما سوائے سیدہ جویریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہF کے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے ما بین برابری کرتے تھے تو انھوں نے ان کو برابر برابر مال دے دیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس کے بعد میں اپنے پہلے پہل ہجرت کرنے والے صحابہ سے شروع کرتا ہوں، کیونکہ ظلم و زیادتی سے ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، پھر ان کے بعد زیادہ شرف والے صحابہ کو مد نظر رکھا اور بدر والے مہاجرین کے پانچ پانچ ہزار اور انصار کے لیے چار چار ہزار درہم مقرر کیے، اور احد میں شریک ہونے والوں کو تین تین ہزار درہم دیئے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جس نے ہجرت میںجلدی کی، اس کے عطیہ میں جلدی کی جائے گی اور جس نے ہجرت میں تاخیر کی، اس کے عطیہ میں بھی تاخیر ہو گی، پس کوئی آدمی ملامت نہ کرے، مگر اپنی اونٹنی کی بیٹھنے والی جگہ پر، (یعنی اگر کسی آدمی کو تاخیر سے ہجرت کرنے کی بنا پر تھوڑا حصہ مل رہا ہے تو وہ اپنے پیچھے رہ جانے کی مذمت کرے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5067

۔ (۵۰۶۷)۔ عن جَابِر بن عبد اللہ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَقَدْ أَعْطَیْتُکَ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا۔)) قَالَ: فَلَمَّا جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ أَبُو بَکْرٍ: مَنْ کَانَ لَہُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَیْنٌ أَوْ عِدَۃٌ فَلْیَأْتِنِی، قَالَ: فَجِئْتُ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَوْ قَدْ جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَأَعْطَیْتُکَ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا ثَلَاثًا۔)) قَالَ: فَخُذْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ، قَالَ بَعْضُ مَنْ سَمِعَہُ: فَوَجَدْتُہَا خَمْسَ مِائَۃٍ فَأَخَذْتُ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَلَمْ یُعْطِنِی، فَقُلْتُ: إِمَّا أَنْ تُعْطِیَنِی، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّی، قَالَ: أَقُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّی وَأَیُّ دَائٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ، مَا سَأَلْتَنِی مَرَّۃً إِلَّا وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُعْطِیَکَ۔ (مسند أحمد: ۱۴۳۵۲)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور دوں گا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد بحرین کا مال آیا تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جس آدمی کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرض ہو یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی سے وعدہ کیا ہو تو وہ میرے پاس آ جائے، پس میں ان کے پاس آیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو لے لے، پس میں نے لے لیا اور اس حصے کو پانچ سو درہم پایا، پھر جب میں ان کے پاس آیا تو انھو ںنے مجھے کچھ نہ دیا، پھر آیا تو کچھ نہ دیا، پھر جب تیسری بار آیا اور انھوں نے کچھ نہ دیا تو میں نے کہا: آپ یا تو مجھے دیں یا پھر بخل کرتے ہوئے مجھے منع کر دیں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تو کہتا ہے کہ میں بخل کرتا ہوں، بھلا بخل سے بڑی بیماری کون سی ہو سکتی ہے، جب بھی تو نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے تجھے دینے کا ارادہ کیا تھا، (لیکن دوسرے لوگوں کو زیادہ ضرورت مند پا کر ان کو دے دیا۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5068

۔ (۵۰۶۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِظَبْیَۃٍ فِیہَا خَرَزٌ، فَقَسَمَ لِلْحُرَّۃِ وَالْأَمَۃِ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ أَبِی یَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ، قَالَ أَبِی: قَالَ یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ: فَقَسَمَ بَیْنَ الْحُرَّۃِ وَالْأَمَۃِ سَوَائً۔ (مسند أحمد: ۲۵۷۷۵)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک چھوٹا سا مشکیزہ لایا گیا، اس میں موتی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو آزاد خاتون اور لونڈی میں تقسیم کیا، سیدہ کہتی ہیں: میرے باپ بھی آزاد اور غلام کے لیے تقسیم کرے تھے۔ یزید بن ہارون راوی کے الفاظ یہ ہیں: آزاد خاتون اور لونڈی کے درمیان برابر برابر تقسیم کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5069

۔ (۵۰۶۹)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَالُوْا یَوْمَ حُنَیْنٍ حِینَ أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ أَمْوَالَ ہَوَازِنَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ الْمِائَۃَ مِنَ الْإِبِلِ کُلَّ رَجُلٍ، فَقَالُوْا: یَغْفِرُ اللّٰہُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی قُرَیْشًا وَیَتْرُکُنَا، وَسُیُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِہِمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَحُدِّثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَقَالَتِہِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَی الْأَنْصَارِ فَجَمَعَہُمْ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، وَلَمْ یَدْعُ أَحَدًا غَیْرَہُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوْا جَائَ ہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکُمْ؟)) فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَمَّا ذَوُوْ رَأْیِنَا فَلَمْ یَقُولُوْا شَیْئًا، وَأَمَّا نَاسٌ حَدِیثَۃٌ أَسْنَانُہُمْ فَقَالُوْا کَذَا وَکَذَا لِلَّذِی قَالُوْا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّی لَأُعْطِی رِجَالًا حُدَثَاء َ عَہْدٍ بِکُفْرٍ أَتَأَلَّفُہُمْ، (أَوْ قَالَ: أَسْتَأْلِفُہُمْ) أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ إِلٰی رِحَالِکُمْ؟ فَوَاللّٰہِ! لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِہِ خَیْرٌ مِمَّا یَنْقَلِبُونَ بِہِ۔)) قَالُوْا: أَجَلْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ رَضِینَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ بَعْدِی أَثَرَۃً شَدِیدَۃً، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، فَإِنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ۔ (مسند أحمد: ۱۲۷۲۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہوازن کے مال اپنے رسول کو بطورِ فئدیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مال کو قریشیوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک ایک آدمی کو سو سو اونٹ دیئے تو بعض انصاریوں نے کہا: اللہ اپنے رسول کو معاف کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، جبکہ ہماری تلواریں ان کے خون سے ٹپک رہی ہیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کی بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصاریوں کو بلا بھیجا اور ان کو چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا، انصاریوں کے علاوہ کسی کو نہیں بلایا تھا، جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمہاری طرف سے مجھے کچھ باتیں موصول ہو رہی ہے، کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے سمجھ دار لوگوں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے، البتہ کم سن لوگوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ایسے افراد کو یہ مال دے رہا ہوں، جنھوں نے ابھی ابھی کفر کو چھوڑا ہے، میں ان کی تالیف ِ قلبی کر رہا ہوں، بھلا تم لوگ کیا اس شرف پر راضی نہیں ہو کہ لوگ مال لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو، اللہ کی قسم ! تم جو چیز لے کر لوٹ رہے ہو، یہ اس چیز سے بہتر ہے، جو وہ لوگ لے کر جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم میرے بعد ترجیحِ نفس اور خود غرضی پاؤ گے، پس صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول کو جا ملو، پس بیشک میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لیکن ہم نے صبر نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5070

۔ (۵۰۷۰)۔ عن عَمْرو بْنُ تَغْلِبَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ شَیْئٌ فَأَعْطَاہُ نَاسًا وَتَرَکَ نَاسًا، وَقَالَ جَرِیرٌ: أَعْطٰی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا، قَالَ: فَبَلَغَہُ عَنِ الَّذِینَ تَرَکَ أَنَّہُمْ عَتِبُوا وَقَالُوْا، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی أُعْطِی نَاسًا وَأَدَعُ نَاسًا، وَأُعْطِی رِجَالًا وَأَدَعُ رِجَالًا، (قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: ذِی وَذِی) وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی، أُعْطِی أُنَاسًا لِمَا فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ، وَأَکِلُ قَوْمًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنَی وَالْخَیْرِ، مِنْہُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ۔)) قَالَ: وَکُنْتُ جَالِسًا تِلْقَائَ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمْرَ النَّعَمِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۹۴۸)
۔ سیدنا عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کچھ مال وصول ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا، جن لوگوں کو نہیں دیا گیا تھا، ان کی طرف سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خبر ملی کہ انھوں نے طعن کیا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر چڑھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: بیشک میں کچھ لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا، میں کچھ مردوں کو عطا کرتا ہوں اور بعض کو چھوڑ دیتا ہوں، لیکن میں جن لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں، جن کو میں دیتا ہوں، میں ان لوگوں کو عطا کرتا ہوں، جن کے دلوں میں جزع و فزع اور بے صبری و بے قراری ہے اور بعض لوگوں کو اس غِنا اور خیر کے سپرد کر دیتا ہوں، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے اور عمرو بن تغلب بھی ان میں سے ہے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات کے عوض مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5071

۔ (۵۰۷۱)۔ عَنْ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعَدِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَدَایَا الْعُمَّالِ غُلُوْلٌ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۹۹۹)
۔ سیّدنا حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عاملین کا ہدیہ لینا خیانت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5072

۔ (۵۰۷۲)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو الْجُوَیْرِیَۃِ، قَالَ: أَصَبْتُ جَرَّۃً حَمْرَائَ، فِیہَا دَنَانِیرُ، فِی إِمَارَۃِ مُعَاوِیَۃَ، فِی أَرْضِ الرُّومِ، قَالَ: وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ یُقَالُ لَہُ: مَعْنُ بْنُ یَزِیدَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ بِہَا یَقْسِمُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، فَأَعْطَانِی مِثْلَ مَا أَعْطٰی رَجُلًا مِنْہُمْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَأَیْتُہُ یَفْعَلُہُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ)) إِذًا لَأَعْطَیْتُکَ۔ قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ فَعَرَضَ عَلَیَّ مِنْ نَصِیبِہِ، فَأَبَیْتُ عَلَیْہِ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہِ مِنْکَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۹۵۶)
۔ ابو جویریہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے روم کی سرزمین میں سرخ رنگ کا ایک گھڑا ملا، اس میں دینار تھے، یہ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت کی بات ہے، بنو سلیم قبیلے کا معن بن یزید نامی ایک صحابی ہمارا امیر تھا، میں وہ گھڑا لے کر ان کے پاس لے کر آیا، تاکہ وہ اس کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیں، پھر انھوں نے مجھے اتنا مال دیا، جتنا کہ دوسرے افراد کو دے رہے تھے اور کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہی دے دیتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زائد حصہ نہیں ہوتا، مگر خمس کے بعد۔ پھر انھوں نے مجھ پر میرا حصہ پیش کیا، لیکن میں نے انکار کر دیا اور کہا: میں تیری بہ نسبت اس کا زیادہ حقدار نہیں ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5073

۔ (۵۰۷۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا نَبِیٌّ مِنْ الْأَنْبِیَائِ، فَقَالَ لِقَوْمِہِ: لَا یَتَّبِعْنِی رَجُلٌ قَدْ مَلَکَ بُضْعَ امْرَأَۃٍ، وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یَبْنِیَ بِہَا، وَلَمْ یَبْنِ وَلَا أَحَدٌ قَدْ بَنٰی بُنْیَانًا، وَلَمَّا یَرْفَعْ سُقُفَہَا، وَلَا أَحَدٌ قَدِ اشْتَرٰی غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَہُوَ یَنْتَظِرُ أَوْلَادَہَا، فَغَزَا فَدَنَا مِنَ الْقَرْیَۃِ حِینَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ لِلشَّمْسِ: أَنْتِ مَأْمُورَۃٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ، اللّٰہُمَّ احْبِسْہَا عَلَیَّ شَیْئًا، فَحُبِسَتْ عَلَیْہِ حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَجَمَعُوْا مَا غَنِمُوْا، فَأَقْبَلَتِ النَّارُ لِتَأْکُلَہُ فَأَبَتْ أَنْ تَطْعَمَ، فَقَالَ: فِیکُمْ غُلُولٌ، فَلْیُبَایِعْنِی مِنْ کُلِّ قَبِیلَۃٍ رَجُلٌ، فَبَایَعُوْہُ فَلَصِقَتْ یَدُ رَجُلٍ بِیَدِہِ، فَقَالَ: فِیکُمْ الْغُلُولُ، فَلْتُبَایِعْنِی قَبِیلَتُکَ، فَبَایَعَتْہُ قَبِیلَتُہُ، قَالَ: فَلَصِقَ بِیَدِ رَجُلَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ بِیَدِہِ، فَقَالَ: فِیکُمُ الْغُلُولُ، أَنْتُمْ غَلَلْتُمْ، فَأَخْرَجُوْا لَہُ مِثْلَ رَأْسِ بَقَرَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، قَالَ: فَوَضَعُوْہُ فِی الْمَالِ وَہُوَ بِالصَّعِیدِ، فَأَقْبَلَتِ النَّارُ فَأَکَلَتْہُ، فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِنْ قَبْلِنَا، ذٰلِکَ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ رَأٰی ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَطَیَّبَہَا لَنَا۔ (مسند أحمد: ۸۲۲۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیاء میں سے ایک نبی نے جہاد کیا اور اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ آدمی میرے ساتھ نہ آئے، جو کسی عورت کی شرمگاہ کا مالک بنا ہو اور خلوت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، جبکہ اس نے ابھی تک خلوت اختیار نہ کی ہو، ایسا آدمی بھی میرے ساتھ نہ آئے، جس نے کوئی عمارت تعمیر کی ہو، لیکن ابھی تک چھت ڈالنا باقی ہو اور ایسا شخص بھی نہ آئے جس نے بکریاں یا گابھن جانور خریدے ہوں اور وہ ان کے بچے جنم دینے کا انتظار کر رہا ہو، پس وہ نبی جہاد کے لیے چلا اور ایک بستی کے قریب پہنچ گیا، یہ نمازِ عصر کا وقت تھا یا اس کے قریب کا، پس اس نے سورج سے کہا: تو بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے اور میں بھی اسی کے حکم کا پابند ہوں، اے اللہ! اس سورج کو کچھ دیر کے لیے روک لے، پس اس کو اس کے لیے روک دیا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا کی اور انھوں نے مالِ غنیمت جمع کیا، اس کو کھانے کے لیے آگ تو آئی، لیکن اس نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا، یہ منظر دیکھ کر اس نبی نے کہا: تم لوگوں میں خیانت ہے، سو ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی میری بیعت کرے، پس انھوں نے بیعت کی اور ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا، اس نبی نے کہا: تم لوگوں میں خیانت ہے، لہذا تمہارا پورا قبیلہ میری بیعت کرے، پس سارے قبیلے نے بیعت کی اور دو تین آدمیوں کے ہاتھ چمٹ گئے، اس نے کہا: تم افراد میں خیانت ہے، تم نے خیانت کی ہے، پس انھوں نے سونا نکالا، جو گائے کے سر کی مانند تھا اور اس کو مال میں رکھ دیا، جو کہ سطح سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیاء میں سے ایک نبی نے جہاد کیا اور اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ آدمی میرے ساتھ نہ آئے، جو کسی عورت کی شرمگاہ کا مالک بنا ہو اور خلوت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، جبکہ اس نے ابھی تک خلوت اختیار نہ کی ہو، ایسا آدمی بھی میرے ساتھ نہ آئے، جس نے کوئی عمارت تعمیر کی ہو، لیکن ابھی تک چھت ڈالنا باقی ہو اور ایسا شخص بھی نہ آئے جس نے بکریاں یا گابھن جانور خریدے ہوں اور وہ ان کے بچے جنم دینے کا انتظار کر رہا ہو، پس وہ نبی جہاد کے لیے چلا اور ایک بستی کے قریب پہنچ گیا، یہ نمازِ عصر کا وقت تھا یا اس کے قریب کا، پس اس نے سورج سے کہا: تو بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے اور میں بھی اسی کے حکم کا پابند ہوں، اے اللہ! اس سورج کو کچھ دیر کے لیے روک لے، پس اس کو اس کے لیے روک دیا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا کی اور انھوں نے مالِ غنیمت جمع کیا، اس کو کھانے کے لیے آگ تو آئی، لیکن اس نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا، یہ منظر دیکھ کر اس نبی نے کہا: تم لوگوں میں خیانت ہے، سو ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی میری بیعت کرے، پس انھوں نے بیعت کی اور ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا، اس نبی نے کہا: تم لوگوں میں خیانت ہے، لہذا تمہارا پورا قبیلہ میری بیعت کرے، پس سارے قبیلے نے بیعت کی اور دو تین آدمیوں کے ہاتھ چمٹ گئے، اس نے کہا: تم افراد میں خیانت ہے، تم نے خیانت کی ہے، پس انھوں نے سونا نکالا، جو گائے کے سر کی مانند تھا اور اس کو مال میں رکھ دیا، جو کہ سطح
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5074

۔ (۵۰۷۴)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَذَکَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَہُ وَعَظَّمَ أَمْرَہُ ثُمَّ قَالَ: ((لَا أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ بَعِیرٌ لَہُ رُغَائٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ، لَا أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ شَاۃٌ لَہَا ثُغَائٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ، لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ فَرَسٌ لَہُ حَمْحَمَۃٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ، لَا أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ نَفْسٌ لَہَا صِیَاحٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ، لَا أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لَا أُلْفِیَنَّ، یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہِ صَامِتٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ۔)) (مسند أحمد: ۹۴۹۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اندر کھڑے ہوئے اور خیانت کا ذکر اور اس کے معاملے کو بڑا اور سنگین کر کے پیش کیا اور پھر فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں ہر گز نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر بلبلاتا ہوا اونٹ ہو اور وہ یہ کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کرو، میں جواباً کہہ دوں گا کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں نے تجھے پیغام پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو اس حال میں ہر گز نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر مماتی ہوئی بکری ہو اور وہ کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کرو، میں کہوں گا: میں تیرے لیے کوئی اختیار نہیں رکھتا، میں نے تجھے پیغام پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو اس حال میں ہر گز نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے روز اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر گھوڑا ہو، جو ہنہنا رہا ہو اور وہ آدمی کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کرو، میں تو کہہ دوں گا کہ میں تیرے لیے کسی چیز کامالک نہیں ہوں، میں نے تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا،میں تم میں کسی کو قیامت کے دن ہر گز اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر چیختی ہوئی کوئی جان ہو اور وہ کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کر دو، میں کہہ دوں گا کہ میں تیرے حق میں کسی اختیار کا مالک نہیں ہوں، میں نے پیغام پہنچا دیا تھا، میں روزِ قیامت کسی کو اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اس دن اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر کپڑوںکے ٹکڑے ہوں، جو ہل رہے ہوں اور وہ کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کر دو، میں کہہ دوں گا کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں نے تجھے پیغام پہنچا دیا تھا اور میں کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت اس حال میں آئے کہ اس کے کندھے پر سونا اور چاندی ہو اور وہ کہہ رہا ہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد تو کر دو، میں کہوں گا: میں تیری لیے کسی چیز کامالک نہیں ہوں، میں نے تجھے متنبہ کر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5075

۔ (۵۰۷۵)۔ حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: فُلَانٌ شَہِیدٌ، فُلَانٌ شَہِیدٌ حَتّٰی مَرُّوْا عَلٰی رَجُلٍ فَقَالُوْا فُلَانٌ شَہِیدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَلَّا إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَۃٍ غَلَّہَا أَوْ عَبَائَ ۃٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلَا إِنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۳)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب خیبر کا دن تھا اور صحابۂ کرام کا ایک گروہ آیا اور اس نے کہا: فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے، اسی اثناء میں وہ ایک اور مقتول کے پاس سے گزرے اور اس کے بارے میں بھی یہی کہا کہ وہ شہید ہے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں، میں نے اس کو اس دھاری دار چادر یا چوغے کی وجہ سے آگ میں دیکھا، جو اس نے خیانت کی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطا ب! جاؤ اور لوگوں میں یہ اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔ پس میں وہاں سے نکل پڑا اور یہ اعلان کیا کہ خبردار! جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5076

۔ (۵۰۷۶)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّہُ کَانَ مَعَ مَسْلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ فِی أَرْضِ الرُّومِ، فَوُجِدَ فِی مَتَاعِ رَجُلٍ غُلُولٌ، فَسَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ، عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ وَجَدْتُمْ فِی مَتَاعِہِ غُلُولًا فَأَحْرِقُوہُ۔)) قَالَ: وَأَحْسَبُہُ قَالَ: وَاضْرِبُوہُ، قَالَ: فَأَخْرَجَ مَتَاعَہُ فِی السُّوقِ، قَالَ: فَوَجَدَ فِیہِ مُصْحَفًا، فَسَأَلَ سَالِمًا فَقَالَ: بِعْہُ وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۴۴)
۔ سالم بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ روم کے علاقے میں مسلمہ بن عبد الملک کے ساتھ تھے، ایک آدمی کے سامان میں خیانت والا مال بھی پایا گیا، مسلمہ نے اس کے بارے میں سالم بن عبد اللہ سے سوال کیا، انھوں نے کہا: مجھے سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جس کے سامان میں خیانت والا مال پاؤ، اس کے سامان کو جلا دو۔ راوی کہتا ہے: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کی پٹائی بھی کرو، پس جب انھوں نے اس کا سامان بازار میںنکالا، لیکن جب دیکھا کہ اس میں ایک مصحف بھی ہے تو انھوں نے پھر سالم سے سوال کیا، جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس کو بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کر دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5077

۔ (۵۰۷۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَکَانَ عَلٰی رَحْلِ، وَقَالَ مَرَّۃً: عَلٰی ثَقَلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: کِرْکِرَۃُ فَمَاتَ، فَقَالَ: ہُوَ فِی النَّارِ، فَنَظَرُوْا فَإِذَا عَلَیْہِ عَبَائَ ۃٌ، قَدْ غَلَّہَا وَقَالَ مَرَّۃً: أَوْ کِسَائٌ قَدْ غَلَّہُ۔ (مسند أحمد: ۶۴۹۳)
۔ سیدناعبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کرکرہ نامی ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامانِ سفر یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل و عیال اور ساز و سامان پر مقرر تھا، جب وہ فوت ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: وہ آگ میں ہے۔ جب صحابہ نے اس کا جائزہ لیا تو اس پر ایسا چوغہ پایا، جو اس نے خیانت کیا تھا۔ ایک روایت میں چادر کے الفاظ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5078

۔ (۵۰۷۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اسْتُشْہِدَ مَوْلَاکَ فُلَانٌ، قَالَ: ((کَلَّا إِنِّی رَأَیْتُ عَلَیْہِ عَبَائَ ۃً غَلَّہَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا۔)) (مسند أحمد: ۱۲۵۵۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کا فلاں غلام شہید ہو گیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر گزنہیں، میں نے اس پر ایک چوغہ دیکھا، جس کی اس نے فلاں دن خیانت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5079

۔ (۵۰۷۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ یَقْسِمَ غَنِیمَۃً، أَمَرَ بِلَالًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَنَادٰی ثَلَاثًا، فَأَتٰی رَجُلٌ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ أَنْ قَسَمَ الْغَنِیمَۃَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذِہِ مِنْ غَنِیمَۃٍ کُنْتُ أَصَبْتُہَا، قَالَ: ((أَمَا سَمِعْتَ بِلَالًا یُنَادِی ثَلَاثًا؟۔)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تَأْتِیَنِی بِہِ؟)) فَاعْتَلَّ لَہُ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّی لَنْ أَقْبَلَہُ حَتّٰی تَکُونَ أَنْتَ الَّذِی تُوَافِینِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۶۹۹۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مالِ غنیمت تقسیم کرنے کا ارادہ کرتے تو سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیتے، پس وہ تین بار اعلان کرتے (کہ جس آدمی کے پاس مالِ غنیمت میں سے کوئی چیز ہے تو وہ پیش کر دے)۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو پھر ایک آدمی وہ ڈوری لے کر آیا جو ناک کے سوراخ میں سے نکال کر باگ سے باندھی جاتی ہے اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بھی مالِ غنیمت میں سے ہے، میں نے لے لی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے سنا نہیں کہ اس کے بارے میں بلال نے تین بار اعلان کیا؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر کس چیز نے تجھ کو روک دیا کہ تو اس کو لے کر آئے؟ اس نے عذر تو پیش کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب میں ہر گز اس کو قبول نہیں کروں گا اور تو خود اس کو قیامت کے دن پورا پورا ادا کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5080

۔ (۵۰۸۰)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیَّ، یُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ تُوُفِّیَ بِخَیْبَرَ، وَأَنَّہُ ذُکِرَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُمْ)) قَالَ: فَتَغَیَّرَتْ وُجُوہُ الْقَوْمِ لِذٰلِکَ، فَلَمَّا رَأَی الَّذِی بِہِمْ، قَالَ: ((إِنَّ صَاحِبَکُمْ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) فَفَتَّشْنَا مَتَاعَہُ فَوَجَدْنَا فِیہِ خَرَزًا مِنْ خَرَزِ الْیَہُودِ، مَا یُسَاوِی دِرْہَمَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۵۶)
۔ سیدنا زید بن خالد جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان آدمی خیبر کے دن فوت ہو گیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم خود اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ ادا کر لو۔ یہ بات سن کر لوگوں کے چہرے فق ہو گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا: تمہارے ساتھی نے اللہ کی راہ میں خیانت کی ہے۔ پس جب ہم نے اس کے سامان کو کھولا تو یہودیوں کے موتیوں میں سے کچھ موتی اس کے پاس پائے، وہ دو درہم کی قیمت کے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5081

۔ (۵۰۸۱)۔ عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَأْخُذُ الْوَبَرَۃَ مِنْ قُصَّۃٍ مِنْ فَیْئِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقُولُ: ((مَا لِی مِنْ ہٰذَا إِلَّا مِثْلَ مَا لِأَحَدِکُمْ إِلَّا الْخُمُسَ، وَہُوَ مَرْدُودٌ فِیکُمْ، فَأَدُّوا الْخَیْطَ وَالْمِخْیَطَ فَمَا فَوْقَہُمَا، وَإِیَّاکُمْ وَالْغُلُولَ، فَإِنَّہُ عَارٌ وَشَنَارٌ عَلٰی صَاحِبِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۲۸۵)
۔ سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مالِ فئے کے بالوں کے ایک گچھے میں سے ایک بال پکڑا اور فرمایا: اس مالِ غنیمت میں سے میرا بھی وہی حصہ ہے، جو تم میں سے کسی ایک کا ہے، ما سوائے خُمُس کے اور وہ بھی تم پر لوٹا دیا جائے گا، لہذا دھاکہ اور سوئی اور ان سے چھوٹی بڑی چیزیں سب کچھ ادا کردو، اور خیانت سے بچو، کیونکہ خیانت قیامت کے دن خائن کے لیے عار وشنار اور عیب و رسوائی کا باعث ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5082

۔ (۵۰۸۲)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تَغُلُّوْا فَإِنَّ الْغُلُولَ نَارٌ وَعَارٌ عَلٰی أَصْحَابِہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَجَاہِدُوْا النَّاسَ فِی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْقَرِیبَ وَالْبَعِیدَ، وَلَا تُبَالُوا فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وَأَقِیمُوا حُدُودَ اللّٰہِ فِی الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَإِنَّ الْجِہَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ عَظِیمٌ، یُنَجِّی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِہِ مِنْ الْہَمِّ وَالْغَمِّ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۵۷)
۔ سیدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خیانت نہ کرو، کیونکہ خیانت خائن کے لیے دنیا و آخرت میں آگ اور عار کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے قریب و بعید سے جہاد کرو، اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو،حضرو سفر میں اللہ کی حدود کو نافذ کرو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو، بیشک جنت کے دروازوں میں سے بڑا دروازہ جہاد ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے غم و حزن سے نجات دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5083

۔ (۵۰۸۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِیَّاکُمْ وَالْخَیْلَ الْمُنَفِّلَۃَ فَاِنَّھَا اِنْ تَلْقَ تَفِرَّ، وَاِنْ تَغْنَمٰ تَغْلُلْ)) (مسند أحمد: ۸۶۶۱)۸۶۶۱
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان گھوڑوں سے بچو، جو اپنے مالکوں کے لیے غنیمت کا سبب بنتے ہیں، کیونکہ ایسی صورت میں اگر تیرا مقابلہ ہو گا تو تو بھاگ جائے گا اور اگر تو غنیمت حاصل کرے گا تو خیانت کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5084

۔ (۵۰۸۴)۔ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ قَالَ: اَسَرَّنِیْ فَارِسٌ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکُنْتُ مَعَھُمْ فَاَصَابُوْا غَنَمًا، فَانْتَھَبُوْھَا فَطَبَخُوْھَا، قَالَ: فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ النُّھْبٰی اَوِ النُّھْبَۃَ لَا تَصْلَحُ فَاَکْفِئُوْا الْقُدُوْرَ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۵۰۴)
۔ سماک بن حرب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو لیث کے ایک آدمی نے مجھے بیان کرتے ہوئے کہا: صحابۂ کرام کے گھوڑ سواروں نے مجھے قید کر لیا، میں ان کے ساتھ تھا، انھوں نے بکریاں دیکھ کر لوٹ مار کی اور ان کو پکانا شروع کر دیا، لیکن (جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہنچے تو) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوٹ مار درست نہیں ہے، لہذا ہنڈیوں کو انڈیل دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5085

۔ (۵۰۸۵)۔ عَنْ عَمِّہِ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ حِینَ جَائَ ہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، فَسَأَلُوْا أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ فَاخْتَارُوْا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، إِمَّا السَّبْیَ وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ۔)) وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوْا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمُسْلِمِینَ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُ وْا تَائِبِین،َ وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلٰی حَظِّہِ حَتّٰی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیء ُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوْا حَتّٰی یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ۔)) فَجَمَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ ثُمَّ رَجَعُوْا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا، ہٰذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَََََ۔ (مسند أحمد: ۲۹۱۲۱)۱۹۱۲۱
۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مروان اور سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بیان کیا کہ جب ہوازن کا وفد مطیع ہوکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے مال اور قیدی ان کو لوٹا دیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میرے ساتھ جو لوگ ہیں، تم ان کو دیکھ رہے ہو، (یہ غنیمت ان کا حق ہے)، اور میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات سچی ہے، لہذا تم دو چیزوں میں ایک کو پسند کر لو اور وہ اس طرح کہ قیدی لے لو یا مال، میں نے تمہاری وجہ سے ہی تقسیم کرنے میں تاخیر کی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف سے لوٹنے کے بعد پندرہ سولہ دنوں تک ان کا انتظار کیا تھا، جب ان کے لیے واضح ہوا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک چیز ہی دینی ہے تو انھوں نے کہا: جی ہم اپنے قیدیوں کو ترجیح دے گے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسلمانوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، جو اس کے شایانِ شان تھی اور پھر فرمایا: أَمَّـا بَعْـدُ! یہ تمہارے بھائی نادم ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے قیدی ان کو واپس کر دیئے جائیں، جو آدمی اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہتا ہے، وہ میرے فیصلے کو قبول کر لے اور جو آدمی اپنا حصہ لینا چاہے تو ہم اس کے عوض اس کو اس مال میں سے دے دیں گے، جو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ہم کو عطا کرے گا، ایسا شخص بھی اپنے فیصلے کا اظہار کر دے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خاطر اسی فیصلے کو خوشی سے قبول کیا ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمیں علم نہیں ہو رہا ہے کہ تم میں کون اجازت دے رہا ہے اور کون نہیں دے رہا، لہذا تم لوٹ جاؤ اور تمہارے سردار تمہاری رضامندی کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ پس انھوں نے لوگوں کو جمع کیا، ہر ایک قبیلے سے اس کے سردار نے بات کی اور پھر انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کو بتلایا کہ لوگ واقعی اپنی خوشی سے آپ کے فیصلے کو قبول کر رہے ہیں اور اجازت دے رہے ہیں، یہ وہ بات ہے، جو ہوازن کے قیدیوں کے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5086

۔ (۵۰۸۶)۔ عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: أَعْطٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَارِیَۃً مِنْ سَبْیِ ہَوَازِنَ، فَوَہَبَہَا لِی فَبَعَثْتُ بِہَا إِلٰی أَخْوَالِی مِنْ بَنِی جُمَحٍ لِیُصْلِحُوا لِی مِنْہَا حَتّٰی أَطُوفَ بِالْبَیْتِ، ثُمَّ آتِیَہُمْ وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أُصِیبَہَا إِذَا رَجَعْتُ إِلَیْہَا قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنَ الْمَسْجِدِ حِینَ فَرَغْتُ فَإِذَا النَّاسُ یَشْتَدُّونَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُکُمْ؟ قَالُوْا رَدَّ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْنَائَ نَا وَنِسَائَ نَا، قَالَ: قُلْتُ: تِلْکَ صَاحِبَتُکُمْ فِی بَنِی جُمَحٍ فَاذْہَبُوا فَخُذُوہَا فَذَہَبُوا فَأَخَذُوہَا۔ (مسند أحمد: ۵۳۷۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہوازن کے قیدیوں میں سے ایک لونڈی دی اور انھوں نے وہ مجھے عطا کر دی، میں نے اس کو بنو جمح والے اپنے ماموؤں کی طرف بھیجا، تاکہ وہ اس کو تیار کریں اور میں اِدھر طواف کر لوں، پھر میں ان کے پاس چلا جاؤں گا، جبکہ میں لوٹ کر اس سے جماع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن جب میں فارغ ہو کر مسجد سے نکلا اور ہوازن کے لوگوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے بیٹے اور عورتیں ہمیں واپس کر دیئے ہیں، میں نے کہا: تو پھر تمہاری ایک خاتون بنو جمح قبیلے میں ہے، جاؤ اور اس کو بھی لے لو، پس وہ گئے اور اس خاتون کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5087

۔ (۵۰۸۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ الَّذِی أَسَرَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَبُو الْیَسَرِ بْنُ عَمْرٍو وَہُوَ کَعْبُ بْنُ عَمْرٍو أَحَدُ بَنِی سَلِمَۃَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَیْفَ أَسَرْتَہُ یَا أَبَا الْیَسَرِ؟)) قَالَ: لَقَدْ أَعَانَنِی عَلَیْہِ رَجُلٌ مَا رَأَیْتُہُ بَعْدُ وَلَا قَبْلُ ہَیْئَتُہُ کَذَا ہَیْئَتُہُ کَذَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَقَدْ أَعَانَکَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کَرِیمٌ۔)) وَقَالَ لِلْعَبَّاسِ: ((یَا عَبَّاسُ! افْدِ نَفْسَکَ وَابْنَ أَخِیکَ عَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ وَحَلِیفَکَ عُتْبَۃَ بْنَ جَحْدَمٍ أَحَدُ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ فِہْرٍ۔)) قَالَ: فَأَبٰی، وَقَالَ: إِنِّی کُنْتُ مُسْلِمًا قَبْلَ ذٰلِکَ، وَإِنَّمَا اسْتَکْرَہُونِی، قَالَ: ((اللّٰہُ أَعْلَمُ بِشَأْنِکَ إِنْ یَکُ مَا تَدَّعِی حَقًّا فَاللّٰہُ یَجْزِیکَ بِذٰلِکَ، وَأَمَّا ظَاہِرُ أَمْرِکَ فَقَدْ کَانَ عَلَیْنَا فَافْدِ نَفْسَکَ۔)) وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَخَذَ مِنْہُ عِشْرِینَ أُوقِیَّۃَ ذَہَبٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! احْسُبْہَا لِی مِنْ فِدَایَ، قَالَ: ((لَا ذَاکَ شَیْئٌ أَعْطَانَاہُ اللّٰہُ مِنْکَ۔)) قَالَ: فَإِنَّہُ لَیْسَ لِی مَالٌ، قَالَ: ((فَأَیْنَ الْمَالُ الَّذِی وَضَعْتَہُ بِمَکَّۃَ حَیْثُ خَرَجْتَ عِنْدَ أُمِّ الْفَضْلِ وَلَیْسَ مَعَکُمَا أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، فَقُلْتَ: إِنْ أُصِبْتُ فِی سَفَرِی ہٰذَا فَلِلْفَضْلِ کَذَا وَلِقُثَمَ کَذَا وَلِعَبْدِ اللّٰہِ کَذَا۔)) قَالَ: فَوَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عَلِمَ بِہٰذَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ غَیْرِی وَغَیْرُہَاوَإِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ۔ (مسند أحمد: ۳۳۱۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قید کرنے والے بنو سلمہ کے آدمی سیدنا ابویسر کعب بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابو الیسر! تم نے ان کو کیسے قید کر لیا؟ انھوں نے کہا: ایک ایسے آدمی نے میری مدد کی تھی، کہ میں نے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اُس جیسا آدمی دیکھا، ایسے ایسے اس کی ہیئت تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک عزت والے فرشتے نے تیری مدد کی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے عباس! اب اپنا، اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب کا، نوفل بن حارث کا، اور بنو حارث والے اپنے حلیف عتبہ بن جحدم کا فدیہ دو۔ لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: میں تو اس سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا، ان لوگوں نے مجھے مجبور کیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی تمہارے معاملے کو بہتر جانتا ہے، جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اگر یہ بات سچی ہوئی تو اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بدلہ دے دے گا، رہا مسئلہ ظاہری معاملے کا تو وہ تو یہی لگ رہا ہے کہ تم ہمارے خلاف تھے لہٰذا اپنے نفس کا فدیہ ادا کرو۔ اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے بیس اوقیہ کے وزن کے برابر سونا لیا تھا، اس لیے انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس سونے کا میرے فدیے میں شمار کر لو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسے نہیں ہو گا، کیونکہ وہ تو ایسی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری طرف سے دلائی ہے۔ انھوں نے کہا: تو پھر میرے پاس مال نہیں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مال کہاں ہے، جو تم نے مکہ سے نکلتے وقت مکہ میں ام فضل کے پاس رکھا اور اس وقت صرف تم دو تھے، کوئی اور آدمی تمہارے ساتھ نہیں تھا، تم نے ام فضل سے کہا تھا: اگر اس سفر میں مجھے موت آ گئی تو اتنا فضل کے لیے ہے، اتنا قُثَم کے لیے ہے اور اتنا عبد اللہ کے لیے ہے؟ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! میرے اور ام فضل کے علاوہ کسی آدمی کو اس چیز کا علم نہیں تھا اور بیشک میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5088

۔ (۵۰۸۸)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ أَوْ غَیْرِہِ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِالْعَبَّاسِ قَدْ أَسَرَہُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَیْسَ ہٰذَا أَسَرَنِی، أَسَرَنِی رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَنْزَعُ مِنْ ہَیْئَتِہِ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلرَّجُلِ: ((لَقَدْ آزَرَکَ اللّٰہُ بِمَلَکٍ کَرِیمٍ۔))(مسند أحمد: ۱۸۶۹۳)
۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا کسی اور صحابی سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لے کر آئے، اسی آدمی نے ان کو قید کیا تھا، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی نے مجھے قید نہیں کیا، بلکہ ایک اور آدمی تھا، وہ سر کے اگلے حصے سے گنجا تھا اور اس کی ہیئت ایسے ایسے تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک معزز فرشتے کے ساتھ تیری مدد کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5089

۔ (۵۰۸۹)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ: قَالَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : کُنْتُ غُلَامًا لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَکَانَ الْإِسْلَامُ قَدْ دَخَلَنَا، فَأَسْلَمْتُ وَأَسْلَمَتْ أُمُّ الْفَضْلِ، وَکَانَ الْعَبَّاسُ قَدْ أَسْلَمَ وَلٰکِنَّہُ کَانَ یَہَابُ قَوْمَہُ، وَکَانَ یَکْتُمُ إِسْلَامَہُ، وَکَانَ أَبُو لَہَبٍ عَدُوُّ اللّٰہِ، قَدْ تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، وَبَعَثَ مَکَانَہُ الْعَاصَ بْنَ ہِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانُوْا صَنَعُوا لَمْ یَتَخَلَّفْ رَجُلٌ إِلَّا بَعَثَ مَکَانَہُ رَجُلًا، فَلَمَّا جَائَ نَا الْخَیْرُ، کَبَتَہُ اللّٰہُ وَأَخْزَاہُ وَوَجَدْنَا أَنْفُسَنَا قُوَّۃً، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ وَمِنْ ہٰذَا الْمَوْضُوعِ فِی کِتَابِ یَعْقُوبَ مُرْسَلٌ لَیْسَ فِیہِ إِسْنَادٌ، وَقَالَ فِیہِ: أَخُو بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: وَکَانَ فِی الْأُسَارٰی أَبُو وَدَاعَۃَ بْنُ صُبَیْرَۃَ السَّہْمِیُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لَہُ بِمَکَّۃَ ابْنًا کَیِّسًا تَاجِرًا ذَا مَالٍ لَکَأَنَّکُمْ بِہِ قَدْ جَائَ نِی فِی فِدَائِ أَبِیہِ۔)) وَقَدْ قَالَتْ قُرَیْشٌ: لَا تَعْجَلُوْا بِفِدَاء ِ أُسَارَاکُمْ لَا یَتَأَرَّبُ عَلَیْکُمْ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُہُ، فَقَالَ الْمُطَّلِبُ بْنُ أَبِی وَدَاعَۃَ: صَدَقْتُمْ فَافْعَلُوْا وَانْسَلَّ مِنْ اللَّیْلِ، فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ وَأَخَذَ أَبَاہُ بِأَرْبَعَۃِ آلَافِ دِرْہَمٍ، فَانْطَلَقَ بِہِ وَقَدِمَ مِکْرَزُ بْنُ حَفْصِ بْنِ الْأَخْیَفِ فِی فِدَائِ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَکَانَ الَّذِی أَسَرَہُ مَالِکُ بْنُ الدُّخْشُنِ أَخُو بَنِی مَالِکِ بْنِ عَوْفٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۳۶۵)
۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا غلام تھا، اسلام ہمارے اندر داخل ہو چکا تھا، میں بھی مسلمان ہو گیا تھا، سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی مسلمان ہو گئی تھیں اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی مشرف باسلام ہو چکے تھے، البتہ وہ اپنی قوم سے ڈرتے تھے، اس لیے وہ اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، اللہ کا دشمن ابو لہب غزوۂ بدر سے پیچھے رہ گیا تھا اور اس نے اپنی جگہ پر عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا، انھوں نے ایسے ہی کیا تھا کہ جو آدمی خود حاضر نہ ہو سکا، اس نے اپنی جگہ پر ایک جنگجو دیا، جب ہمارے پاس خیر والی بات پہنچی (کہ بدر کی لڑائی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح حاصل کی ہے) اور اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ذلیل اور رسوا کیا تو ہم نے اپنے اندر محسوس کیا کہ ہم قوی ہو گئے ہیں …، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی…، اسی موضوع کی کچھ باتیں یعقوب کی کتاب میں ہیں، لیکن وہ مرسل ہیں اور ان کی کوئی سند نہیں ہے، بہرحال بنو سالم کے بھائی نے کہا: قیدیوں میں ابو وداعہ بن صبیرہ سہمی بھی تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اس کا مکہ میں ایک عقل مند تاجر بیٹا ہے، وہ بڑا مال دار ہے، لگتا ہے کہ وہ اپنے باپ کا فدیہ لے کر میرے پاس آئے گا۔ جبکہ اُدھر قریشیوں نے کہا: اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنے میں جلدی نہ کرو، تاکہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اور اس کے ساتھی تم سے فدیہ لینے میںزیادتی نہ کریں، اسی تاجر مطلب بن ابو وداعہ نے کہا: تم لوگ سچ کہہ رہے ہو، اسی طرح کرو، لیکن وہ خود چپکے سے رات کو نکل پڑا اور مدینہ منورہ پہنچ گیا اور چار ہزار درہم کا فدیہ دے کر اپنے باپ کو رہا کرا لیا، پھر وہ اس کو لے کر چلا گیا اور مکرز بن حفص ،سہیل بن عمرو کا فدیہ لے کر پہنچ گیا، بنو مالک بن عوف کے ایک بھائی مالک بن دخشن نے اس کو قید کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5090

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)
۔ رعیہ سحمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرخ چمڑے کے ٹکڑے پر میری طرف خط لکھا، میں نے وہ خط لیا اور اس کے ساتھ اپنے ڈول کو مرمت کر لیا، اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، اس لشکر نے نہ میرے اونٹ چھوڑے، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ سب کچھ لے لیا، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ننگی حالت میں بھاگ گیا، مجھ پر کوئی کپڑا نہیں تھا، یہاں تک کہ میں اپنی بیٹی کے پاس پہنچ گیا، بنو ہلال میں اس کی شادی ہوئی ہوئی تھی، وہ اور اس کے گھر والے مسلمان ہو چکے تھے اور لوگ اسی کے گھر کے صحن میں مجلس لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پس میں گھوما اور گھر کے پیچھے سے اپنی بیٹی پر داخل ہوا، جب اس نے مجھے دیکھا تو مجھ پر کپڑے ڈالے اور کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ تیرے باپ پر ٹوٹ پڑا ہے، نہ اونٹ بچے ہیں، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ ہر چیز چھین لی گئی ہے، بیٹی نے کہا: آپ کو اسلام کی دعوت تو نہیں دی گئی؟ میں نے آگے سے کہا: تیرا خاوند کہاں ہے؟ اس نے کہا: اونٹوں میں ہے، پس میں ا س کے پاس پہنچا اور اس نے مجھ سے کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ مجھ پر ٹوٹ پڑا ہے، میرے اونٹ، مویشی، اہل اور مال، بس سب کچھ مجھ سے چھین لیا گیا ہے اور میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس جلدی جلدی پہنچنا چاہتا ہوں، تاکہ وہ میرے پہنچنے سے پہلے میرے اہل و مال کو تقسیم نہ کر دیں، اس نے کہا: یہ میرے اونٹنی کجاوے سمیت ہے، تم یہ لے لو، میں نے کہا: اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے، پھر اس نے چرواہے کا اونٹ لیا اور چمڑے کے چھوٹے مشکیزے میں پانی ڈال کر بطورِ زادِ راہ دیا۔ مجھ پر اتنا کپڑا تھا کہ اگر اس سے سر ڈھانپتا تو سرین ننگے ہو جاتے اور اگر سرین پر پردہ کرتا تو چہرہ ننگا ہو جاتا، جبکہ میںچاہتا یہ تھا کہ کوئی آدمی مجھے پہچان نہ سکے، بہرحال میںمدینہ منورہ پہنچ گیا، سواری کو باندھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پا س گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آ کر ٹھہر گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہاتھ پھیلائیں، میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ پھیلایا، لیکن جب میں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار ایسے ہی کیا، پھر تیسری بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہے کون؟ میں نے کہا: جی میں رعیہ سحیمی ہوں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا بازو پکڑ ا اور اس کو بلند کر کے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! یہ رعیہ سحیمی ہے، یہ وہی ہے، جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے اس خط کے ساتھ اپنا ڈول مرمت کیا تھا۔ پھر منت سماجت کرنے لگا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرا اہل و مال، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا مال تو تقسیم ہو چکا ہے، البتہ اپنے اہل میں سے جو افراد لے سکتا ہے، وہ لے لے۔ پس میں وہاں سے نکلا اور میرے بیٹے نے میری سواری کو پہنچان لیا اور وہ اس کے پاس ہی کھڑا تھا، پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹا اور کہا: یہ میرا بیٹا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم جاؤ اور اس بچے سے پوچھو کہ کیا اس کا باپ یہی ہے، اگر وہ مثبت جواب دے تو اس کو اس کے حوالے کر دینا۔ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس بچے کی طرف گئے اور اس سے پوچھا: یہ تیرا باپ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس باپ اور بیٹے میںکسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دوسرے کو ملتے وقت آنسو بہائے ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدوؤںکی اکھڑ مزاجی اور سختی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5091

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کا متن ہے، البتہ مختصر ہے اور اس کے آخر میں ہے: ان کا خیال ہے کہ یہ شخص اپنے اوپر حملہ ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5092

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)
۔ زوجۂ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مال وغیرہ بھیجا تو سیدہ زینب بنت ِ رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند ابو العاص بن ربیع کے فدیے میں مال بھیجا اس میں اس کا ایک ہار بھی تھا، یہ ہار دراصل سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تھا، جب سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابو العاص کے ساتھ رخصتی ہوئی تھی تو سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو دیا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ہار دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو میری بیٹی کے قیدی کو ایسے ہی آزاد کر دو اور اس کا ہار اس کو واپس کر دو۔ صحابہ کرام نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! پس انھوں نے ابو العاص کو رہا کر دیا اور سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کا ہار واپس کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5093

۔ (۵۰۹۳)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدٰی رَجُلَیْنِ مِنْ الْمُسْلِمِینَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۲۰)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عقیل کے ایک مشرک کے فدیے میں دو مسلمان لیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5094

۔ (۵۰۹۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ نَاسٌ مِنْ الْأَسْرٰی یَوْمَ بَدْرٍ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ فِدَائٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِدَائَ ہُمْ أَنْ یُعَلِّمُوْا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْکِتَابَۃَ، قَالَ: فَجَائَ یَوْمًا غُلَامٌ یَبْکِی إِلٰی أَبِیہِ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: ضَرَبَنِی مُعَلِّمِی، قَالَ: ((الْخَبِیثُ یَطْلُبُ بِذَحْلِ بَدْرٍ وَاللّٰہِ لَا تَأْتِیہِ أَبَدًا۔)) (مسند أحمد: ۲۲۱۶)
۔ سیدنا عبد للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ بدر والے بعض قیدیوں کے پاس اپنے فدیے کے طور پر دینے کی کوئی چیز نہیں تھی، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کو ان کا فدیہ قرار دیا کہ وہ انصاری بچوں کو کتابت کی تعلیم دے دیں، ایک دن ان میں سے ایک بچہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس آیا، اس نے پوچھا: بیٹا! تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: میرے استاد نے مجھے مارا ہے، اس نے کہا: خبیث، یہ بدر کا انتقام لینا چاہتا ہے، اللہ کی قسم! تو نے اس کے پاس کبھی بھی نہیں جانا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5095

۔ (۵۰۹۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: قَتَلَ الْمُسْلِمُونَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِینَ فَأَعْطَوْا بِجِیفَتِہِ مَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ادْفَعُوا إِلَیْہِمْ جِیفَتَہُمْ، فَإِنَّہُ خَبِیثُ الْجِیفَۃِ، خَبِیثُ الدِّیَۃِ۔)) فَلَمْ یَقْبَلْ مِنْہُمْ شَیْئًا۔ (مسند أحمد: ۲۲۳۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ مسلمانوں نے غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک قتل کر دیا، انھوں نے اس کی لاش کے عوض مال دینا چاہا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: ان کی لاش ان کے سپرد کر دو، یہ لاش بھی خبیث ہے اور اس کا عوض بھی خبیث ہے۔ پس ٓپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے عوض ان سے کچھ وصول نہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5096

۔ (۵۰۹۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أُصِیبَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ، وَطَلَبُوا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُجِنُّوہُ، فَقَالَ: ((لَا وَلَا کَرَامَۃَ لَکُمْ۔)) قَالُوْا: فَإِنَّا نَجْعَلُ لَکَ عَلٰی ذٰلِکَ جُعْلًا، قَالَ: ((وَذٰلِکَ أَخْبَثُ وَأَخْبَثُ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک قتل ہو گیا، اُن لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اس آدمی کو دفنانا چاہتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تمہارے لیے کوئی کرامت اور عزت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ہم اس کے عوض آپ کو کچھ دے دیتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ تو بہت خبیث چیز ہو گی، بلکہ سب سے زیادہ خبیث ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5097

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت و یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ …… عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہئیں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ بے حد غالب کمال حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رباعی دانت شہید کر دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ …… اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5098

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)
۔ سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ بدر والے دن فرمایا: بنو عبد المطلب کو جس قدر تم قیدی کر سکتے ہو، قیدی کرو (قتل نہ کرو)، کیونکہ وہ مجبور ہو کر نکلے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5099

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)
۔ سیدنا جریر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور (بدر کے) ان بد بودار قیدیوں کے بارے میں مجھ سے بات کرتا تو میں ان کو (بغیر فدیے کے) آزاد کر دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5100

۔ (۵۱۰۰)۔ عَنْ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: عُرِضْنَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ قُرَیْظَۃَ فَکَانَ مَنْ اَنْبَتَ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ یُنْبِتْ خَلّٰی سَبِیْلَہٗ، فَکُنْتُ مِمَّنْ لَمْ یُنْبِتْ فَخَلّٰی سَبِیْلِیْ۔ (مسند أحمد: ۱۸۹۸۳)
۔ سیدنا عطیہ قرظی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں قریظہ والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پیش کیا گیا، جس کے زیرناف بال اُگ چکے تھے، اس کو قتل کر دیا گیا اور جس کے زیر ناف بال نہیں اُگے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قتل نہ کیا، میں (عطیہ) ان بچوں میں سے تھا، جن کے بال نہیں اگے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے قتل سے رہا کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5101

۔ (۵۱۰۱)۔ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ سَائِبٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اِبْنَا قُرَیْظَۃَ اَنَّھُمْ عُرِضُوْا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمْنَ قُرَیْظَۃَ فَمَنْ کَانَ مِنْھُمْ مُحْتَلِمًا اَوْ نُبِتَتْ عَانَتُہٗ قُتِلَ وَمَنْ لَا تُرِکَ۔ (مسند أحمد: ۱۹۲۱۱)
۔ کثیر بن سائب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: قریظہ کے دو بیٹوں نے مجھے بیان کیا کہ ان کو بنو قریظہ کی بدعہدی کے زمانے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پیش کیا گیا، پس ان میں سے جو بالغ ہو چکا تھا یا اس کے زیرِ ناف بال اگ چکے تھے، اس کو قتل کر دیا گیا اور جو ایسے نہیں تھا، اس کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5102

۔ (۵۱۰۲)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَتَعَاطٰی اَحَدُکُمْ اَسِیْرَ اَخِیْہِ فَیَقْتُلَہٗ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۴۶۴)
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی اپنے بھائی کے قیدی کے درپے نہ ہو کہ وہ اس کو قتل کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5103

۔ (۵۱۰۳)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْحُبُلِیِّ، قَالَ: کُنَّا فِی الْبَحْرِ وَعَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ قَیْسٍ الْفَزَارِیُّ، وَمَعَنَا أَبُو أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ، فَمَرَّ بِصَاحِبِ الْمَقَاسِمِ، وَقَدْ أَقَامَ السَّبْیَ فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَبْکِی، فَقَالَ: مَا شَأْنُ ہٰذِہِ؟ قَالُوْا: فَرَّقُوا بَیْنَہَا وَبَیْنَ وَلَدِہَا، قَالَ: فَأَخَذَ بِیَدِ وَلَدِہَا حَتّٰی وَضَعَہُ فِی یَدِہَا، فَانْطَلَقَ صَاحِبُ الْمَقَاسِمِ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ، فَأَخْبَرَہُ فَأَرْسَلَ إِلٰی أَبِی أَیُّوبَ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ وَالِدَۃٍ وَوَلَدِہَا، فَرَّقَ اللّٰہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْأَحِبَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۸۹۵)
۔ ابو عبد الرحمن حُبُلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم (روم کے علاقوں میں) سمندری جہاد کر رہے تھے، عبد اللہ بن قیس فزاری ہمارے امیر تھے اور سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ہمارے ساتھ تھے، جس آدمی نے مالِ غنیمت تقسیم کرنا تھا، سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے پاس سے گزرے، اس نے قیدیوں کو کھڑا کیا ہوا تھا اور ان میں ایک خاتون رو رہی تھی، انھوں نے کہا: اس کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ مسلمانوں نے اس کے اور اس کے بچے کے ما بین جدائی ڈال دی ہے، پس سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اس کی ماں کو پکڑا دیا، یہ دیکھ تقسیم کرنے والا عبد اللہ بن قیس کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی، انھوں نے سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور پوچھا: کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے والدہ اور اس کے بچے کے مابین تفریق ڈالی، اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کے اور اس کے محبوبوں کے درمیان تفریق ڈال دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5104

۔ (۵۱۰۴)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُؤْتی بِالسَّبِیِّ، فَیُعْطِی أَہْلَ الْبَیْتِ جَمِیعًا کَرَاہِیَۃَ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنہُمْ۔ (مسند أحمد: ۳۶۹۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس قیدی لائے جاتے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (آپس میں قرابت والے) قیدی ایک گھر والوں کو دے دیتے، اس چیز کو ناپسند کرتے ہوئے کہ ان کے درمیان جدائی ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5105

۔ (۵۱۰۵)۔ عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُول اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، فَقَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَائَ ہُ زَرْعَ غَیْرِہِ، یَعْنِی إِتْیَانَ الْحُبَالٰی مِنَ السَّبَایَا، وَأَنْ یُصِیبَ امْرَأَۃً ثَیِّبًا مِنَ السَّبْیِ حَتّٰی یَسْتَبْرِئَہَا یَعْنِی إِذَا اشْتَرَاہَا، وَأَنْ یَبِیعَ مَغْنَمًا حَتّٰی یُقْسَمَ۔)) الحدیث(مسند أحمد: ۱۷۱۲۲)
۔ سیدنا رویفع بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حنین والے دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو پلائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ حاملہ قیدی خواتین سے مخصوص تعلق قائم نہ کیا جائے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بھی حلال نہیں ہے کہ آدمی خاوند والی قیدی خاتون سے مباشرت کرے، جب تک استبرائے رحم نہ کر لے، یعنی جب وہ ایسی خاتون خریدے تو استبرائے رحم سے پہلے اس سے خاص تعلق قائم نہ کرے، اور یہ بھی حلال نہیں ہے کہ آدمی تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت کو بیچ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5106

۔ (۵۱۰۶)۔ عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تُوطَأَ الْأَمَۃُ حَتّٰی تَحِیضَ، وَعَنِ الْحُبَالٰی حَتّٰی یَضَعْنَ مَا فِی بُطُونِہِنَّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۱۸)
۔ سیدنا رویفع بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ لونڈی سے اس کا حیض آنے تک اور حاملہ سے اس کا بچہ پیدا ہونے تک مباشرت کی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5107

۔ (۵۱۰۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَطِیئَ حُبْلٰی۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے، جو حاملہ لونڈی سے مباشرت کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5108

۔ (۵۱۰۸)۔ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأَی امْرَأَۃً مُجِحًّا عَلٰی بَابِ فُسْطَاطٍ أَوْ طَرَفِ فُسْطَاطٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَعَلَّ صَاحِبَہَا یُلِمُّ بِہَا۔)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَہُ لَعْنَۃً تَدْخُلُ مَعَہُ فِی قَبْرِہِ، کَیْفَ یُوَرِّثُہُ وَہُوَ لَا یَحِلُّ لَہُ، وَکَیْفَ یَسْتَخْدِمُہَا؟ وَہُوَ لَا یَحِلُّ لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۶۹)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیمے کے دروازے پر یا اس کے ایک کونے میں ایسی خاتون دیکھی، جس کا بچہ جنم دینے کا وقت لگ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید اس کا مالک اس سے مباشرت کرتا ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اس شخص پر ایسی لعنت کروں، جو اس کے ساتھ اس کی قبر میں بھی گھس جائے، وہ اس کا کیسے وارث بنے گا، جبکہ وہ اس کیلئے حلال نہیں ہے، وہ اس سے کیسے خدمت لے گا، جبکہ وہ اس کیلئے حلال نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5109

۔ (۵۱۰۹)۔ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ تِعْلٰی، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، فَأُتِیَ بِأَرْبَعَۃِ أَعْلَاجٍ مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَمَرَ بِہِمْ فَقُتِلُوْا صَبْرًا بِالنَّبْلِ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ أَبَا أَیُّوبَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہٰی عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۹۸۸)
۔ عبید بن تعلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے عبد الرحمن بن خالد بن ولید کی قیادت میں غزوہ کیا، ان کے پاس عجمی لوگوں میں چار کافر لائے گئے اور انھوں نے ان کے بارے میں حکم دیا، پس ان کو باندھ کر تیر کے ساتھ قتل کر دیا گیا، جب یہ بات سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پتہ چلی تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا تھا کہ آپ باندھ کر قتل کرنے سے منع کر رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5110

۔ (۵۱۱۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ (یَعْنِیْ وَجِیْئَ بِالْاُسٰارٰی) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَلَا یَنْفَلِتَنَّ مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَائٍ أَوْ ضَرْبَۃِ عُنُقٍ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِلَّا سُہَیْلُ بْنُ بَیْضَائَ، فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُہُ یَذْکُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَکَتَ، قَالَ: فَمَا رَأَیْتُنِی فِی یَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَیَّ حِجَارَۃٌ مِنَ السَّمَائِ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ حَتّٰی قَالَ: ((إِلَّا سُہَیْلُ بْنُ بَیْضَائَ)) (مسند أحمد: ۳۶۳۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوۂ بدر والے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے کوئی شخص بھاگنے نہ پائے، مگر فدیہ دے کر، یا گردن اتروا کر۔ میں (عبد اللہ) نے کہہ دیا: اے اللہ کے رسول! مگر سہیل بن بیضا، کیونکہ میں نے اس کو قبولیت ِ اسلام کی بات کرتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر خاموش ہو گئے، میں نے اس دن اپنے آپ کو دیکھا کہ مجھے اس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر آسمان سے پتھر گرنے لگ جائیں، (بس اسی کیفیت میں تھا کہ) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ما سوائے سہیل بن بیضاء کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5111

۔ (۵۱۱۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ قَوْمٍ یُقَادُوْنُ اِلَی الْجَنَّۃِ فِی السَّلَاسِلِ۔)) (مسند أحمد: ۸۰۰۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے ربّ کو ان لوگوں سے تعجب ہوا ہے، جن کو زنجیروں میںجکڑ کر جنت کی طرف لایا جا رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5112

۔ (۵۱۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اسْتَضْحَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمًا فَقِیْلَ لَہٗ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا یُضْحِکُکَ؟ قَالَ: ((قَوْمٌ یُسَاقُوْنَ اِلَی الْجَنَّۃِ مُقَرَّنِیْنَ فِی السَّلَاسِلِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۵۵۶)
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگوں کو اس حال میں جنت کی طرف لایا جا رہا ہے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5113

۔ (۵۱۱۳)۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدِنِ السَّاعَدِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْخَنْدَقِ فَأَخَذَ الْکُرْزِیْنَ فَحَفَرَ بِہِ فَصَادَفَ حَجَرًا فَضَحِکَ، قِیْلَ: مَا یُضْحِکُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: ((ضَحِکْتُ مِنْ نَاسٍ یُؤْتٰی بِھِمْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فِی النَّکُوْلِ یُسَاقُوْنَ اِلَی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۲۴۹)
۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خندق کھودنے کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کلہاڑا پکڑا اور اس سے کھدائی شروع کی، اچانک سامنے پتھر آ گیا، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان لوگوں کی وجہ سے ہنسا ہوں، جن کو بیڑیاں ڈال کر مشرق سے لایا جا رہا ہے اور ان کو جنت کی طرف چلایا جا رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5114

۔ (۵۱۱۴)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: کَانَتْ ثَقِیفٌ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَیْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ وَأُصِیبَتْ مَعَہُ الْعَضْبَائُ، فَأَتٰی عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟۔)) فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِی بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَۃَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذٰلِکَ، فَقَالَ: ((أَخَذْتُکَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکَ ثَقِیفٍ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ!، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَحِیمًا رَفِیقًا، فَأَتَاہُ فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالَ: ((لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) فَقَالَ: إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی وَظَمْآنُ فَاسْقِنِی، قَالَ: ((ہٰذِہِ حَاجَتُکَ۔)) قَالَ: فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۳۶)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، بنو ثقیف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دو صحابہ کو قید کر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی گرفتار کر لیا، اس کے ساتھ عَضْبَاء نامی اونٹنی بھی پکڑی گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اس قیدی کے پاس آئے، جبکہ وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا تو اس نے کہا: اے محمد! اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے، آپ نے اس اونٹنی کو کیوں پکڑ لیا، جو حاجیوں کے قافلے سے آگے گزر جاتی تھی؟ وہ اس گرفتاری کو بڑا خیال کر رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے تیر حلیف بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے پھر گئے، لیکن اس نے پھر کہا: اے محمد! اے محمد! چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رحم دل اور نرم تھے، اس لیے اس کے پاس آ گئے اور اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کرتا، جب تو اپنے معاملے کامالک اور آزاد تھا تو تو مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلے گئے، اس نے پھر آواز دی: اے محمد! اے محمد! پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: کیا ہو گیا ہے تجھے؟ اس نے کہا: جی میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں، مجھے پانی پلائیے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیری ضرورت ابھی پوری کر دی جاتی ہے۔ اس قیدی کے فدیے میں دو آدمی لیے گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5115

۔ (۵۱۱۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلَاحَۃً لَا یَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَرْسَلُوْا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلَی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۷)
۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی، یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، کوئی بھی اسے دیکھتا تو وہ اسے اپنی طرف مائل کر لیتی، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیے سب سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو، ما سوائے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5116

۔ (۵۱۱۶)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، کَانَ مُسْتَنِدًا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَہُ ابْنُ عُمَرَ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنِّی لَمْ أَقُلْ فِی الْکَلَالَۃِ شَیْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِی أَحَدًا، وَأَنَّہُ مَنْ أَدْرَکَ وَفَاتِی مِنْ سَبْیِ الْعَرَبِ، فَہُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند أحمد: ۱۲۹)
۔ سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی اور ان کے پاس سیدنا ابن عمر اور سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم سب لوگ جان لو کہ میں نے کلالہ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی، اپنے بعد کسی ایک کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور عرب کے جو قیدی میری ملکیت میں میری وفات پا لیں، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے آزاد ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5117

۔ (۵۱۱۷)۔ عن عَلِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ، یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنْ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْ یَدًا یَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۰۰)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کی بنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کر گزرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5118

۔ (۵۱۱۸)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْزِلًا فَجَائَ عَیْنٌ لِلْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ یَتَصَبَّحُونَ، فَدَعَوْہُ إِلٰی طَعَامِہِمْ، فَلَمَّا فَرَغَ الرَّجُلُ رَکِبَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ، وَذَہَبَ مُسْرِعًا لِیُنْذِرَ أَصْحَابَہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَأَدْرَکْتُہُ فَأَنَخْتُ رَاحِلَتَہُ وَضَرَبْتُ عُنُقَہُ، فَغَنَّمَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَلَبَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۶۶۳۴)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، اتنے میں مشرکوں کا ایک جاسوس پہنچ گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، صحابۂ کرام نے اس کو کھانے کی طرف بلایا، جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہوا اور جلدی سے واپس ہونا شروع کر دیا، دراصل وہ اپنے ساتھیوں کو متنبہ کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اس کے پیچھے دوڑا اور اس کو پا لیا اور اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی گردن قلم کر دی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا سلب مجھے بطورِ غنیمت دے دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5119

۔ (۵۱۱۹)۔ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَیَّانَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِقَتْلِہِ، وَکَانَ عَیْنًا لِأَبِی سُفْیَانَ وَحَلِیفًا، فَمَرَّ بِحَلْقَۃٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ یَزْعُمُ أَنَّہُ مُسْلِمٌ، فَقَالَ: ((إِنَّ مِنْکُمْ رِجَالًا نَکِلُھُمْ اِلٰی اِیْمَانِھِمْ مِنْھُمْ فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۱۷۳)
۔ سیدنا فرات بن حیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، وہ ابو سفیان کا جاسوس اور حلیف تھا، بعد میں جب وہ انصاریوںکی ایک مجلس کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: بیشک میں تو مسلمان ہوں، جب انصار نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ وہ تو کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تم میں بعض افراد ایسے ہیں کہ ہم ان کو ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان میں سے ایک فرات بن حیان بھی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5120

۔ (۵۱۲۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُعْتِقُ مَنْ جَائَ ہُ مِنَ الْعَبِیدِ قَبْلَ مَوَالِیہِمْ إِذَا أَسْلَمُوا، وَقَدْ أَعْتَقَ یَوْمَ الطَّائِفِ رَجُلَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۲۱۱۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جو غلام اپنے مالکوں سے پہلے مسلمان ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ جاتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آزاد کر دیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن اس طرح کے دو آدمیوں کو آزاد کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5121

۔ (۵۱۲۱) :(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: حَاصَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَھْلَ الطَّائِفِ فَخَرَجَ إِلَیْہِ عَبْدَانِِ فَأَعْتَقَہُمَا، أَحَدُہُمَا أَبُو بَکْرَۃَ وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْتِقُ الْعَبِیدَ إِذَا خَرَجُوا إِلَیْہِ۔ (مسند أحمد: ۲۱۷۶)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کر لیا، ان کے دو غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ ویسے جب بھی غلام مسلمان ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آتے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آزاد کر دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5122

۔ (۵۱۲۲)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ): قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الطَّائِفِ: ((مَنْ خَرَجَ إِلَیْنَا مِنَ الْعَبِیدِ فَہُوَ حُرٌّ۔)) فَخَرَجَ عَبِیدٌ مِنَ الْعَبِیدِ فِیہِمْ أَبُو بَکْرَۃَ، فَأَعْتَقَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند أحمد: ۲۲۲۹)
۔ (تیسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن فرمایا: جو غلام ہمارے پاس آ جائیں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ پھر ابوبکرہ سمیت کچھ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5123

۔ (۵۱۲۳)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ رَابِعٍ) قَالَ: اَعْتَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الطَّائِفِ مَنْ خَرَجَ اِلَیْہِ مِنْ عَبِیْدِ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (مسند أحمد: ۱۹۵۹)
۔ (چوتھی سند) راوی کہتے ہیں: طائف والے دن مشرکوں کے جو غلام نکل کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5124

۔ (۵۱۲۴)۔ عَنْ صَخْرِ بْنِ عَیْلَۃَ، أَنَّ قَوْمًا مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ فَرُّوْا عَنْ أَرْضِہِمْ حِینَ جَائَ الْإِسْلَامُ، فَأَخَذْتُہَا فَأَسْلَمُوا فَخَاصَمُونِی فِیہَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَدَّہَا عَلَیْہِمْ، وَقَالَ: ((إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ فَہُوَ أَحَقُّ بِأَرْضِہِ وَمَالِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۹۸۵)
۔ سیدنا صخر بن عیلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اسلام آیا تو بنو سلیم کے کچھ لوگ اپنی زمین سے بھاگ گئے، میں نے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا، جب وہ مسلمان ہو گئے تو وہ یہ جھگڑا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ زمین ان کو لوٹا دی اور فرمایا: جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے تو وہی اپنی زمین اور مال کا زیادہ مستحق ہوتاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5125

۔ (۵۱۲۵)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَہُمْ مَا أَسْلَمُوا عَلَیْہِ مِنْ أَرَضِیہِمْ وَرَقِیقِہِمْ وَمَاشِیَتِہِمْ، وَلَیْسَ عَلَیْہِمْ فِیہِ إِلَّا الصَّدَقَۃُ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۴۰۸)
۔ سیدہ بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین، غلام اور مویشی وغیرہ سمیت وہ لوگ جس جس چیز پر ایمان لائے ہیں، وہ ان ہی کی ہو گی، ان کے ان مالوں میں صرف زکوۃ فرض ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5126

۔ (۵۱۲۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیُّمَا قَرْیَۃٍ أَتَیْتُمُوہَا فَأَقَمْتُمْ فِیہَا فَسَہْمُکُمْ فِیہَا، وَأَیُّمَا قَرْیَۃٍ عَصَتِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ خُمُسَہَا لِلّٰہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ ہِیَ لَکُمْ)) (مسند أحمد: ۸۲۰۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جس بستی میں تم آئے اور (اس بستی والوں سے مال پر مصالحت کر کے) وہاں قیام کیا تو تمہارے لیے تمہارا وہی حصہ ہو گا، لیکن جس بستی والوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی (اور تم نے ان سے لڑائی کر کے فتح حاصل کر لی تو ان کا مال غنیمت ہو گا اور) اس کا خُمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گا اور باقی سارا تم کو مل جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5127

۔ (۵۱۲۷)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: لَئِنْ عِشْتُ إِلٰی ہٰذَا الْعَامِ الْمُقْبِلِ لَا یُفْتَحُ لِلنَّاسِ قَرْیَۃٌ إِلَّا قَسَمْتُہَا بَیْنَہُمْ، کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ۔ (مسند أحمد: ۲۱۳)
۔ اسلم سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو لوگوں کے لیے جو بستی بھی فتح ہو گی، میں اس کو ان کے درمیان تقسیم کر دوں گا، جیسا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5128

۔ (۵۱۲۸)۔ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَدْرَکَہُمْ یَذْکُرُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ ظَہَرَ عَلٰی خَیْبَرَ، وَصَارَتْ خَیْبَرُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ، ضَعُفُوا عَنْ عَمَلِہَا، فَدَفَعُوہَا إِلَی الْیَہُودِ، یَقُومُونَ عَلَیْہَا وَیُنْفِقُونَ عَلَیْہَا عَلٰی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ سَہْمًا، جَمَعَ کُلُّ سَہْمٍ مِائَۃَ سَہْمٍ، فَجَعَلَ نِصْفَ ذٰلِکَ کُلِّہِ لِلْمُسْلِمِینَ، وَکَانَ فِی ذٰلِکَ النِّصْفِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ، وَسَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہَا، وَجَعَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ لِمَنْ یَنْزِلُ بِہِ مِنَ الْوُفُودِ وَالْأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۵۳۰)
۔ بُشیر بن یسار سے مروی ہے کہ انھوں نے اصحاب ِ رسول میں سے بعض افراد کو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پایا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو فتح کر لیا اور خیبر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا، جبکہ مسلمان اس سرزمین کا سارا کام کاج کرنے سے عاجز تھے، تو انھوں نے اس کو یہودیوں کے ہی سپرد کر دیا کہ وہی اس کی ذمہ داری ادا کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے، اس کے عوض ان کو نصف پیداوار ملے گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیا، ہر حصہ سو حصوں پر مشتمل تھا، خیبر کی زمین سے جو حصہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے نصف کو مسلمانوں میں اس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اس میں مسلمانوں کے حصے بھی ہوتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بھی، باقی نصف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفود، امور اور لوگوں کے دوسرے حوادث و مہمات میں خرچ کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 5129

۔ (۵۱۲۹)۔ عَنْ سُفْیَانَ بْنَ وَہْبٍ الْخَوْلَانِیَّ، یَقُولُ: لَمَّا افْتَتَحْنَا مِصْرَ بِغَیْرِ عَہْدٍ، قَامَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: یَا عَمْرُو بْنَ الْعَاصِ! اقْسِمْہَا، فَقَالَ عَمْرٌو: لَا أَقْسِمُہَا، فَقَالَ الزُّبَیْرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَتَقْسِمَنَّہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ عَمْرٌو: وَاللّٰہِ! لَا أَقْسِمُہَا حَتّٰی أَکْتُبَ إِلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَکَتَبَ إِلٰی عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ: أَنْ أَقِرَّہَا حَتّٰی یَغْزُوَ مِنْہَا حَبَلُ الْحَبَلَۃِ۔ (مسند أحمد: ۱۴۲۴)
۔ سفیان بن وہب خولانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم بغیر کسی معاہدے کے مصر فتح کر لیا تو سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے عمرو بن عاص! اس کو تقسیم کرو، لیکن انھوں نے کہا: میں اس کو تقسیم نہیںکروں گا، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! تم ہر صورت میں اس کو ایسے ہی تقسیم کرو گے، جیسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کو اس وقت تک تقسیم نہیں کروں گا،جب تک اس کی تفصیل لکھ کر امیر المومنین کو نہیں بھیج دوں گا، پھر انھوں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خط لکھا اور امیر المومنین نے جوابی تحریر میں یہ حکم دیا: اس کو ایسے برقرار رکھو، یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے حمل کے بچے جہاد کریں۔

Icon this is notification panel