۔ (۵۳۴۶)۔ عَنْ زَہْدَمٍ الْجَرْمِیِّ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ أَبِی مُوسٰی فَقَدَّمَ فِی طَعَامِہِ لَحْمَ دَجَاجٍ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَیْمِ اللّٰہِ أَحْمَرُ کَأَنَّہُ مَوْلًی فَلَمْ یَدْنُ قَالَ لَہُ
أَبُومُوسَی: ادْنُ فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَأْکُلُ مِنْہُ، قَالَ: إِنِّی رَأَیْتُہُ یَأْکُلُ شَیْئًا فَقَذِرْتُہُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَہُ أَبَدًا، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْکَ عَنْ ذٰلِکَ، إِنِّی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی رَہْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِیِّینَ نَسْتَحْمِلُہُ وَہُوَ یَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ أَیُّوبُ: أَحْسِبُہُ وَہُوَ غَضْبَانُ، فَقَالَ: ((لَا وَاللّٰہِ مَا أَحْمِلُکُمْ، وَمَا عِنْدِی مَا أَحْمِلُکُمْ۔)) فَانْطَلَقْنَا فَأُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِنَہْبِ إِبِلٍ، فَقَالَ: ((أَیْنَ ہٰؤُلَائِ الْأَشْعَرِیُّونَ؟)) فَأَتَیْنَا فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرٰی فَانْدَفَعْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَسْتَحْمِلُہُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا یَحْمِلَنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیْنَا فَحَمَلَنَا، فَقُلْتُ: نَسِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَمِینَہُ، وَاللّٰہِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَمِینَہُ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ارْجِعُوا بِنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلْنُذَکِّرْہُ یَمِینَہُ، فَرَجَعْنَا إِلَیْہِ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَیْنَاکَ نَسْتَحْمِلُکَ فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَعَرَفْنَا أَوْ ظَنَنَّا أَنَّکَ نَسِیتَ یَمِینَکَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((انْطَلِقُوا فَإِنَّمَا حَمَلَکُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ إِنْ شَاء َ اللّٰہُ لَا أَحْلِفُ عَلٰی یَمِینٍ، فَأَرٰی غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا أَتَیْتُ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ وَتَحَلَّلْتُہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۹۸۲۰)
۔ زہدم جرمی کہتے ہیں: ہم سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے مرغی کا گوشت پیش کیا، بنو تیم اللہ قبیلے کا ایک آدمی بھی وہاں موجود تھا، اس کا رنگ سرخ تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ وہ غلام ہے، وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا، سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: قریب آ جا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے، اس نے کہا: میں نے اس کو ایک ایسی چیز کھاتے ہوئے دیکھا کہ اس وجہ سے میں ا س سے گھن محسوس کی اور قسم اٹھا لی کہ میں اس کو کبھی بھی نہیں کھاؤں گا، انھوں نے کہا: قریب ہو جا، میں تجھے اس کے بارے میں بھی خبر دیتا ہوں، میں اشعریوں کے ایک گروہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواریوں کا سوال کرنے آئے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زکوۃ کے اونٹ تقسیم کر رہے تھے، ایوب راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصے میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تم کو سواریاں نہیں دوں گا، اور نہ میرے پاس اب سواریاں ہیں۔ سو ہم واپس چلے گئے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: وہ اشعری لوگ کہاں ہیں؟ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے سفید کوہانوں والے پانچ اونٹوں کا حکم دیا، ہم وہ لے کر واپس چلے گئے، میں (ابو موسی) نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سواریاں مانگنے کے لیے آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم اٹھائی تھی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو پیغام بھیج کر بلا لیا اور ہمیں سواریاں دے دیں، میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قسم کے بارے میں بھول گئے ہیں، اللہ کی قسم! اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم سے غافل کر دیا تو ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو ں گے، لے جاؤ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف، تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم یاد کروائیں، پس ہم لوٹ آئے اور ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سواریوں کا مطالبہ کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے تھے، لیکن آپ نے قسم اٹھا لی تھی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سواریاں دے دیں، اب ہمیں یہ گمان ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی قسم کے بارے میں بھول گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تم کو سواریاں دی ہیں، رہا مسئلہ میرا تو اللہ کی قسم ہے کہ ان شاء اللہ میں جب بھی قسم اٹھاتا ہوں اور پھر کسی اور چیز کو بہتر محسوس کرتا ہوں تو میں وہی اختیار کرتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔