۔ (۵۳۶۱)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَتِ الْعَضْبَائُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِیْ عَقِیْلٍ، وَکانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، فَأُسِرَ الرَّجُلُ وَأُخِذَتِ الْعَضْبَائُ مَعَہُ… الْحَدِیْثَ وَفِیْہِ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْعَضْبَائَ لِرَحْلِہِ
قَالَ: ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِکِینَ أَغَارُوْا عَلَی سَرْحِ الْمَدِینَۃِ، فَذَہَبُوا بِہَا وَکَانَتْ الْعَضْبَائُ فِیہِ، قَالَ: وَأَسَرُوا امْرَأَۃً مِنْ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: فَکَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَرَاحُوا إِبِلَہُمْ بِأَفْنِیَتِہِمْ، قَالَ: فَقَامَتِ الْمَرْأَۃُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ بَعْدَمَا نُوِّمُوا فَجَعَلَتْ کُلَّمَا أَتَتْ عَلَی بَعِیرٍ رَغَا حَتّٰی أَتَتْ عَلَی الْعَضْبَائِ، فَأَتَتْ عَلٰی نَاقَۃٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَۃٍ فَرَکِبَتْہَا ثُمَّ وَجَّہَتْہَا قِبَلَ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: وَنَذَرَتْ إِنْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْجَاہَا عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِینَۃَ عُرِفَتْ النَّاقَۃُ فَقِیلَ نَاقَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِنَذْرِہَا أَوْ أَتَتْہُ فَأَخْبَرَتْہُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((بِئْسَمَا جَزَتْہَا أَوْ بِئْسَمَا جَزَیْتِیہَا، إِنِ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْجَاہَا عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَم۔)) (مسند أحمد: ۲۰۱۰۳)
۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عضباء اونٹنی، بنو عقیل قبیلے کے آدمی کی تھی اور وہ حاجیوں کے قافلے سے آگے گرز جانے والی اونٹنی تھی، جب یہ بندہ قیدی ہو گیاور اس کی اونٹنی پکڑ لی گئی، …الحدیث، آگے چل کر اس حدیث میں ہے: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عضباء اونٹنی کو اپنی سواری کے لیے روک لیا، پھر جب مشرکوں نے مدینہ کے مویشیوں کو لوٹا تو ان میں یہ اونٹنی بھی تھی، انھوں نے ایک خاتون کو بھی قیدی کر لیا تھا، جب وہ راستے میںپڑاؤ ڈالتے تو اپنے اونٹوں کو اپنے صحنوں میں بٹھا دیتے، ایک رات کو ان کے سو چکنے کے بعد وہ خاتون اٹھ کر چل پڑی، جب وہ کسی اونٹ کے پاس آتی تو وہ آواز نکالتا، یہاں تک کہ وہ عضباء اونٹنی تک آ پہنچی، یہ ایک مطیع اور سدھائی ہوئی اونٹنی تھی، وہ اس پر سواری ہوئی اور اس کو مدینہ کی طرف متوجہ کیا اور اس نے یہ نذر بھی مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نجات دی تو وہ اس اونٹنی کو نحر کرے گی، جب وہ مدینہ پہنچی تو اس اونٹنی کو پہچان لیا گیا اور کہا جانے لگا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی نذر کا بتلایا گیا، یا جب وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور اپنی نذر کے بارے میں بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے تو اس اونٹنی کو برا بدلہ دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کے ذریعے نجارت دلا رہا ہے اور یہ اس کو نحر کرنے کی نذر مان رہی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نذر کو پورا کرنا نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مانی گئی ہو اور جس کا آدمی مالک ہی نہ ہو۔