۔ (۵۵۴۵)۔ عَنِ ابْنِ اَعْبُدٍ قَالَ: قَالَ لِیْ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ : اَلَا اُخْبِرُکَ عَنِّیْ وَعَنْ فَاطِمَۃَ رضی اللہ عنہا ، کَانَتْ ابْنَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَکَانَتْ مِنْ أَکْرَمِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ، وَکَانَتْ زَوْجَتِی، فَجَرَتْ بِالرَّحٰی حَتّٰی أَثَّرَ الرَّحٰی بِیَدِہَا، وَأَسْقَتْ بِالْقِرْبَۃِ حَتّٰی أَثَّرَتِ الْقِرْبَۃُ بِنَحْرِہَا، وَقَمَّتِ الْبَیْتَ حَتَّی اغْبَرَّتْ ثِیَابُہَا، وَأَوْقَدَتْ تَحْتَ الْقِدْرِ حَتّٰی دَنِسَتْ ثِیَابُہَا، فَأَصَابَہَا مِنْ ذٰلِکَ ضَرَرٌ، فَقُدِمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِسَبْیٍ أَوْ خَدَمٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہَا: انْطَلِقِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاسْأَلِیہِ خَادِمًا یَقِیکِ حَرَّ مَا أَنْتِ فِیہِ، فَانْطَلَقَتْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَوَجَدَتْ عِنْدَہُ خَدَمًا أَوْ خُدَّامًا، وَلَم تَسْأَلْہٗ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ، فَقاَلَ: ((اَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی مَا ھُوَ خَیْرٌ لَکَ مِنْ خَادِمٍ؟ اِذَا اَوَیْتِ اِلٰی فِرَاشِکِ سَبِّحِی اللّٰہَ ثَلَاثًا وَّثَلَاثِیْنَ، وَاحْمَدِیْ ثَلَاثًا وَّثَلَاثِیْنَ، وَکَبِّرِی اَرْبَعًا وَّثَلَاثِیْنَ۔)) قَالَ:
فَأَخْرَجَتْ رَأْسَھَا وَقَالَتْ: رَضِیْتُ عَنِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ مَرَّتَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۱۳۱۳)
۔ ابن اعبد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تجھے اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات بتلاؤں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل و عیال میں سے سب سے زیادہ معزز تھیں اور وہی میری بیوی بھی تھیں، انھوں نے اس قدر چکی چلائی کہ اس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے، انھوں نے مشکیزے کے ذریعے اتنا پانی لایا کہ ان کے گلے میں نشان پڑ گیا اور انھوں نے گھر میں جھاڑو دیا، یہاں تک کہ ان کے کپڑے خاک آلود ہو گئے، انھوں نے ہنڈیا کے نیچے اس قدر آگ جلائی کہ ان کے کپڑے میلے ہو گئے، ان کاموں سے ان کو تکلیف ہوئی، اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قیدی یا لونڈیاں لائی گئیں، میں نے سیدہ سے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور ایک غلام کا سوال کرو، جو تمہیں کام کی اس مشقت سے بچائے، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں اور واقعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غلام پائے، لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال نہ کر سکیں، …۔ پھر حدیث کا بقیہ حصہ ذکر کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل بتا دوں، جو تمہارے حق میں غلام سے بہتر ہے، جب اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہ، تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہا کرو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر اس نے پردے سے اپنا سر نکالا اور دو بار کہا: میں اللہ اور رسول سے راضی ہوں۔