۔ (۵۷۹۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: اِبْتَاعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْاَعْرَابِ جَزُوْرًا أَوْ جَزَائِرَ بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ، وَتَمْرُ الذَّخِیْرَۃِ الْعَجْوَۃُ، فَرَجَعَ بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰی بَیْتِہِ وَالْتَمَسَ لَہُ التَّمْرَ فَلَمْ یَجِدْہُ فَرجَعَ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: یَا عَبْدِ اللّٰہِ! اِنَّا قَدِ ابْتَعْنَا مِنْکَ جَزُوْرًا أَوْ جَزَائِرَ بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ فَالْتَمَسْنَاہُ
فَلَمْ نَجِدْہُ، قَالَتْ: فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ: وَاغَدْرَاہُ! قَالَتْ: فَنَہَمَہُ النَّاسُ وَقَالُوْا: قَاتَلَکَ اللّٰہُ، أَیَغْدِرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قَالَتْ: فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((دَعَوْہُ فَاِنََّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا۔)) ثُمَّ عَادَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ! اِنَّا قَدِ ابْتَعْنَا مِنْکَ جَزَائِرَکَ وَ نَحْنُ نَظُنُّ أَنَّ عِنْدَنَا مَاسَمَّیْنَا لَکَ فَالْتَمَسْنَاہُ فَلَمْ نَجِدْہُ)) فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ: وَاغَدْرَاہُ! فَنَہَمَہُ النَّاسُ وَقَالُوْا: قَاتَلَکَ اللّٰہُ، أَیَغْدِرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((دَعَوْہُ فَاِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا۔)) فَرَدَّدَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَرَّتَیْنِ اَوْثَلَاثًا، فَلَمَّا رَاٰہُ لَا یَفْقَہُ عَنْہُ، قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہِ: ((اِذْھَبْ اِلَی خُوَیَلَۃَ بِنْتِ حَکَیْمِ بْنِ أُمَیَّۃَ فَقُلْ لَھَا: رَسُوْلُ اللّٰہِ یَقُوْلُ لَکَ اِنْ کَانَ عِنْدَکَ وَسْقٌ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ فَاَسْلِفِیْنَاہُ حَتّٰی نُؤَدِّیَہُ إِلَیْکِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَذَھَبَ اِلَیْہَا الرَّجُلُ ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: قَالَتْ: نَعَمْ ھُوَ عِنْدِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَابْعَثْ مَنْ یَقْبِضُہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِلرَّجُلِ: ((اِذْھَبْ فَأَوْفِہِ الَّذِیْ لَہُ۔)) قَالَ: فَذَھَبَ بِہٖفَأَوْفَاہُالَّذِیْ لَہُ، قَالَتْ: فَمَرَّ الْأَعْرَابِیُّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَھُوَ جَالِسٌ فِیْ أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ أَوْفَیْتَ وَأَطْیَبْتَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اُوْلٰئِکَ خِیَارُ عِبَادِ اللّٰہِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُوْفُوْنَ الْمُطِیَّبُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۴۳)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وسق یعنی ساٹھ صاع ذَخِیرہ کییعنی عجوہ کھجور کے عوض چند اونٹ خریدے، جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیمت کی ادائیگی کے لئے گھر تشریف لائے تو گھر میں کھجور یں ختم ہوچکی تھیں، پس باہر آکر اس یہاتی سے فرمایا: اللہ کے بندے!میںنے بسیار تلاش تو کیا ہے، مگر تیرے اونٹوںکی قیمت اداکرنے کے لئے مجھے کھجور یں نہ مل سکیں۔)) اس دیہاتی نے تو یہ کہنا شروع کردیا: ہائے یہ کیاعہد شکنی ہے ؟ لوگوں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: اللہ تجھے ہلاک کرے، کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی عہد شکنی کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، حق لینے والا باتیں سناتا رہتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بات دوہرائی اور فرمایا: او اللہ کے بندے! ہم نے تجھ سے اونٹ خریدے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہمارے پاس وہ چیزیں ہیں، جو ہم نے تجھ سے ان کا بھاؤ طے کیا اور تلاش بھی کیا ہے، لیکن وہ مل نہیں سکیں۔ یہ سن کر وہ پھر کہنے لگا: ہائے یہ کیا عہد شکنی ہے، لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہا: اللہ تجھے ہلاک کرے، کیا اللہ کے رسول بھی دھوکہ کرتے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو کچھ نہ کہو، جس نے حق لینا ہوتا ہے، وہ باتیں کرتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو تین مرتبہ یہی بات دہرائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھاکہ وہ دیہاتی بات سمجھ نہیں پارہاتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: خویلہ بنت حکیم کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ اگر تمہارے پاس ایک وسق عجوہ کھجوریں ہیں تو ہمیں ادھار دے دو، ہم ان شاء اللہ تجھے اداکردیں گے۔ وہ آدمی گیا اور اس نے آکر بتایاکہ وہ کہتی ہے کہ اس کے پاس کھجوریں ہیں، کوئی لے جانے والا آدمی بھیج دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: جاؤ اور پوری طرح اس دیہاتی کو اس کا حق دلواؤ۔ پس وہ اِس کو لے گیا اور اس کا پورا پورا حق اس کو دلوا دیا، پھر وہ بدّو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا اور اس نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے پورا حق ادا کیا اور بڑے اچھے طریقے سے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک وہ لوگ سب سے بہتر ہیں، جو خوشدلی سے پوری طرح ادائیگی کرتے ہیں۔