۔ (۶۱۱۲)۔ عَنْ أُسَیْدِ بْنِ ظُہَیْرِ بْنِ أَخِیْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ: کَانَ أَحَدُنَا اِذَا اسْتَغْنٰی عَنْ أَرْضِہِ أَعْطَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبْعِ وَالنِّصْفِ وَیَشْتَرِطُ ثَلَاثَ جَدَاوِلَ وَالْقُصَارَۃَ وَمَا سَقَی الرَّبِیْعُ وَکَانَ الْعَیْشُ إِذْ ذَاکَ شَدِیْدًا وَکَانَ یُعْمَلُ فِیْہَا بِالْحَدِیْدِ وَمَاشَائَ اللّٰہُ وَیُصِیْبُ مِنْہَا مَنْفَعَۃً، فَأَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَنْہَاکُمْ عَنْ أَمْرٍ کَانَ لَکُمْ نَافِعًا، وَطَاعَۃُ اللّٰہِ وَطَاعَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْفَعُ لَکُمْ، اِنَّ النَّبِیَّیَنَہَاکُمْ عَنِ الْحَقْلِ وَیَقُوْلُ: ((مَنِ اسْتَغْنٰی عَنْ أَرْضِہِ فَلْیَمْنَحْہَا أَخَاہُ أَوْ لِیَدَعْ۔)) وَیَنْہَاکُمْ عَنِ الْمُزَابَنَۃِ، وَالْمُزَابَنَۃُ: أَنْ یَکُوْنَ الرَّجُلُ لَہُ الْمَالُ الْعَظِیْمُ مِنَ النَّخْلِ فَیَأْتِیْہِ الرَّجُلُ فَیَقُوْلُ: قَدْ أَخَذْتُہُ بِکَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۰۸)
۔ اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہم ضرورت سے زائد زمین پیداوار کے تہائی، چوتھائی اور نصف حصے پر بٹائی پر دے دیا کرتے تھے اور تین تین نالیوں، غلہ گاہنے کے بعد خوشوں میں رہ جانے والے دانوں اور چھوٹی نہروں سے سیراب ہونے والی زمین کی شرط لگا لیتے تھے، جبکہ اس وقت گزران میں بڑی تنگی ہوتی تھی، پھر وہ لوگ لوہے کے آلات وغیرہ سے زراعت کرتے تھے اور ہمیں بھی نفع مل جاتا تھا لیکن ہوا یوں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اورکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے، جو کہ تمہارے لئے نفع بخش تھا، بہرحال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ فائدہ مندہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بٹائی پر کھیتی باڑی کرنے سے منع کر دیا ہے اور فرمایاہے: جس کے پاس زائدزمین ہو، وہ اسے اپنے بھائی کو بلاعوض عاریۃ دے دے یا پھر اس کو خالی پڑا رہنے دے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیںمزابنہ سے بھی منع کر دیا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس کھجورکے درختوں پر لگا ہوا بہت زیادہ مال ہو اور اس کے پاس دوسرا آدمی آئے اور کہے: میں تجھے کھجوروں کے اتنے وسق دے کر یہ کھجوریں خریدتا ہوں۔