عن عَائِشَة مرفوعا: يَا عَائِشَةُ! لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ (وَلَيْس عِنْدِي مِن النَفَقَة مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ) (لَأَنْفَقتُ كَنْزَ الكَعبَة فِي سَبِيْلِ اللهِ وَ) لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ فَأَلْزَقْتُهَا بِالأَرْضِ (ثُم بَنيْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيْم) وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ (مَوضُوْعَيْن فِي الأَرْضِ) بَابًا شَرْقِيًّا (يَدخُل النَاس مِنْه) وَبَابًا غَرْبِيًّا (يَخْرجُون مِنْه) وَزِدْتُ فِيه سِتَّةَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ –وَفِي رواية: وَلأَدخَلتُ فِيْهَا الحِجْر- فَإِنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتِ الْكَعْبَةَ. (فَإِنْ بَدَا لِقَوْمِكِ مِنْ بَعْدِى أَنْ يَبْنُوهُ فَهَلُمِّى لأُرِيَكِ مَا تَرَكُوا مِنْهُ. فَأَرَاهَا قَرِيبًا مِنْ سَبْعَةِ أَذْرُعٍ). وفي رواية عنها: قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْجَدْرِ –أي: الحجر- أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: «نَعَمْ». قُلْتُ فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِى الْبَيْتِ؟ قَالَ: «إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ». قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وفي رواية: تَعَزُّزًا أَنْ لاَ يَدْخُلَهَا إِلاَّ مَنْ أَرَادُوا فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَهَا يَدَعُونَهُ يَرْتَقِى حَتَّى إِذَا كَادَ أَنْ يَدْخُلَ دَفَعُوهُ فَسَقَطَ وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِى الْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافَ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِى الْبَيْتِ وَأَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالأَرْضِ. (فَلَمَّا مَلَكَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا وَجَعَلَ لَهَا بَابَيْنِ)، (وفي رواية: فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى هَدْمِهِ. قَالَ يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ: وَقَدْ شَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ وَبَنَاهُ وَأَدْخَلَ فِيهِ الْحِجْر وَقَدْ رَأَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ عليه السلام حِجَارَةً مُتَلَاحِمَةً كَأَسْنِمَةِ الْإِبِلِ مُتَلَاحِكَةً
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے كہ: اے عائشہ اگر تمہاری قوم شرك سے نئی نئی اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی( اور میرے پاس اتنامال نہیں كہ میں اس كی عمارت مضبوط كر دوں) (تومیں كعبے كے خزانے اللہ كے راستے میں خرچ كر دیتا اور) میں كعبے كو گرا كر زمین كے برابر كر دیتا(پھر ابراہیم علیہ السلام كی بنیادوں پر كھڑا كرتا)(زمین كے برابر) دو دروازے بناتا، ایك مشرقی جانب( جس سے لوگ داخل ہوتے) دوسرا مغربی جانب( جس سے لوگ باہر نكلتے) اور حجر(حطيم) كے چھ ہاتھ اس میں داخل كرتا۔ اور ایك روایت میں ہے:میں حجر كو اس میں داخل كرتا، كیوں كہ جب قریش نے كعبہ بنایا تھا تو یہ حصہ چھوڑ دیا تھا( میرے بعد اگر آپ کی قوم كو آسانی میسر ہوتو وہ اسے بنالے، آؤ میں تمہیں دكھاؤں كہ انہوں نے كونسا حصہ چھوڑا ہے۔ آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا كو سات بازو پر محیط جگہ دكھائی۔ اور ان سے مروی ایك روایت میں ہے: كہتی ہیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا كیا یہ بیت اللہ كا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے كہا: تب انہوں نے اسے بیت اللہ میں داخل كیوں نہیں كیا؟ آپ نے فرمایا: تمہاری قوم كے پاس خرچ كم ہوگیا تھا۔ میں نے كہا: اس كے بلند دروازے كا كیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ تمہاری قوم نے كیا ہے تاكہ جسے وہ چاہیں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روك دیں۔ اور ایك روایت میں ہے: فخر كرتے ہوئے تاكہ جسے وہ چاہیں داخل ہونے دیں،جب كوئی آدمی اس میں داخل ہونا چاہتا تو اسے داخل ہونے كے لئے چھوڑ دیتے ،وہ اوپر چڑھتا جب وہ اس میں داخل ہونے والا ہوتا تو اسےدھكا دےكرگردایتے ۔ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور مجھے ڈر ہے كہ (ایسا کرنے سے) ان كے دل انكار كر دیں گے۔ تو میں جدر(دیوار، حجر) كو بیت اللہ میں داخل كروادیتا۔ اور اس كے دروازے كو زمین كے برابر كر دیتا، جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نگران بنے تو انہوں نے اسے گراگر اس كے دو دروازے بنا دیئے ۔ اور ایك روایت میں ہے: یہی وہ حدیث تھی جس نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما كو خانہ كعبہ گرانے پر ابھارا، یزید بن رومان نے كہا: جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرا كر بنایا اور اس میں حجر كو داخل كیا تو میں بھی ان كے پاس موجود تھا، میں نے ابراہیم كی بنیادوں کے پتھراس طرح جڑے ہوئے دیکھےجیسے وہ اونٹوں کی قطارکی کوہانوں کی طرح ہوں۔