عن زَيَاد بن جُبَير بن حية، قال: أَخْبَرَنِي أبي أَن عمر بن الْخطَاب رِضْوَان الله عليه، قال للهرمزان: أَمَا إِذ فُتَّنِيْ بِنَفْسِك فَانْصَح لي، وَذَلك أَنَّه قال لَه: تَكَلَّم لَا بأس، فأمِنَه، فَقَال الهرمزان: نَعَم إِن فَارِس الْيَوْم رَأْسٌ وَّجَنَاحَانِ، قَالَ: فَأَيْن الرأسُ؟ قَالَ: نَهَاوَنْد مَع بُنْدَارِ، قَالَ: فَإِنَّ مَعَه أَسَاوِرَة كِسْرَى، وَأَهْل أصفهان، قال : فَأَيْن الجَنَاحَانِ؟ فَذَكَر الْهُرْمُزَان مَكَانًا نَسِيْتُه، فَقَال الهرمزان: اقْطَعْ الْجَنَاحَيْن تُوْهِن الرَأْسَ، فَقَال لَه عمر رِضْوَان الله عليه: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ الله، بَل أَعْمِدُ إِلَى الرَّأْسِ فَيَقْطَعُه الله، فَإِذَا قَطَعَه الله عَنِّي انْقَطَع عَنِّي الجَنَاحَانِ، فَأَرَاد عمر أَن يَسِير إِلَيْه بِنَفْسِهِ، فَقَالُوا : نُذَكِّرُك الله يَا أَمِير الْمُؤْمِنِين أَن تَسِير بِنَفْسِك إلى العجم، فَإِن أَصَبْت بِهَا لَم يَكُن لَلْمُسْلِمِين نظام، وَلَكِنْ ابْعَث الجنود، قال: فَبَعَث أَهَل المدينة، وَبَعَث فِيهِم عبد الله بن عمر بن الخطاب، وَبَعَث الْمُهَاجِرِين والأنصار، وَكَتَب إلى أبي مَوسَى الأشعري، أَن سِر بِأَهْل البصرة، وَكَتَب إلى حُذَيْفَة بن اليمان، أَن سِر بِأَهْل الكوفة، حَتَّى تَجْتَمِعُوا بنهاوند جميعا، فَإِذَا اجتمعتم، فَأَمِيرُكُم النُّعْمَان بن مُقْرِن الْمُزَنِیُّ. فَلَمَا اجْتَمَعُوا بنهاوند أَرْسَل إِلَيْهِم بُنْدَار (العلج) أَن أَرْسِلُوا إِلَيْنَا يَا مَعْشَر الْعَرَب رَجُلًا مِنْكُم نُكَلِّمُهُ، فَاخْتَار النَّاسُ الْمُغِيَرة بن شعبة، قال أَبِيْ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْه رَجُلٌ طويلٌ، أَشْعَثَ أعورَ، فَأَتَاهُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْنَا سَأَلْنَاهُ؟ فَقَال لَنا: إِنِّي وَجَدْتُ الْعَلَج قَد اسْتَشَار أَصْحَابه في أَيِّ شَيْءٍ تَأْذَنُون لِهَذَا العربي؟ أَبَشَارَتُنَا وَبَهْجَتُنَا وَمُلْكُنَا؟ أَوْ نَتَقَشَّفُ لَهُ، فَنَزْهَدُهُ عَمَّا في أَيْدِيَنَا؟ فَقَالُوا: بَل نَأْذَن لَه بِأَفْضَل ما يَكُون من الشَّارَة والعدة، فَلَمَّا رَأَيْتُهُم رَأَيْتُ تِلْكَ الحِرَاب، وَالدَّرَق يَلْمَعُ مِنْهُ البَصَر، وَرَأَيْتُهُم قِيَامًا عَلَى رأسه، وَإِذَا هُو عَلَى سَرِيرٍ مِنْ ذَهَبٍ، وَعَلَى رَأْسِهِ التَّاجُ، فَمَضَيْتُ كَمَا أَنَا، وَنَكَسْتُ رَأْسِي لِأَقْعُد مَعَه عَلَى السرير، قال: فَدُفِعْتُ وَنُهِرْتُ، فَقُلْتُ إِن الرُّسُل لَا يُفْعَلُ بِهْم هَذا، فَقَالُوا لِي : إِنَّمَا أَنْتَ كَلْبٌ أَتَقْعُد مَعَ الْمَلِكِ؟!، فَقُلْت: لَأَنَا أَشْرَفُ في قَوْمِي مِنْ هَذَا فِيْكُمْ، قَالَ : فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: اِجْلِسْ، فَجَلَسْتُ، فَتُرْجِمَ لِي قَولُه؟ فَقَال: يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! إِنَّكُم كُنْتُم أَطْوَل النَّاس جُوْعًا، وَأَعْظَم النَّاس شَقَاءً، وَأَقْذَرَ النَّاس قَذَرًا، وَأَبْعَد النَّاس دارًا، وأَبْعَدَهُ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ، وَمَا كَان مَنَعَنِي أَن آمُر هَذِه الأَسَاوِرَةِ حَوْلِي، أَنْ يَنْتَظِمُوْكُمْ بِالنِّشَابِ، إِلَا تَنْجِيْسًا لِجِيَفِكُمْ لِأَنَّكُم أَرْجَاسٌ، فَإِن تَذْهَبُوا يُخَلّٰي عَنْكُمْ، وَإِنْ تَأْبُوا نُبَوِّئُكُمْ مَصَارِعَكُمْ، قال الْمُغِيَرة : فَحَمَدْتُ الله وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ : وَالله ما أَخْطَأَتَ مِنْ صِفَتِنَا وَنَعْتِنَا شَيْئًا، إِنْ كُنَّا لَأَبْعَد النَّاس دَارًا وَأَشَدّ النَّاس جُوعًا وَأَعْظَم النَّاس شَقَاءً وَأَبْعَد النَّاس من كُل خَيْرٍ حَتَّى بَعَثَ الله إِلَيْنَا رَسُوْلًا، فَوَعَدَنَا بِالنَّصْر في الدُّنْيَا وَالْجَنَّة في الآخرة، فَلَم نَزَلْ نَتَعَرَّفُ مِنْ رَبِّنَا مُذْ جَاءَنَا رَسُولُه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفَلاح، وَالنَّصْرَ، حَتَّى أَتَيْنَاكُمْ، وَإِنَّا وَالله نَرَى لَكُم مُلْكًا وَعَيْشًا لَا نَرْجِعُ إِلَى ذَلِكَ الشَّقَاءِ أَبَدًا، حَتَّى نَغْلِبَكُمْ عَلَى مَا فِي أَيْدِيْكُمْ، أَو نُقْتُلَ في أَرْضِكُمْ، فَقَال : أَمَّا الأعور، فَقَد صَدَقَكُم الَّذِي في نفسه، فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ، وَقَد وَالله أرْعَبْتُ الْعَلْج جهدي، فَأَرْسَل إِلَيْنَا الْعَلْج إِمَّا أَن تَعْبُرُوا إِلَيْنَا بِنَهَاوَنْد، وَإِمَّا أَنْ نَعْبُرَ إِلَيْكُمْ، فَقَال النُّعْمَان : اُعْبُرُوا، فَعَبَرْنَا قَالَ أَبِي : فَلَم أَر كَالْيَوْم قَطُ، إِن الْعُلُوج يجيئون، كَأَنَّهُم جِبَال الحَدِيْد، وَقَدْ تَوَاثَقُوا أَنْ لَا يَفِرُّوا مِنَ العَرَبِ، وَقَد قُرن بَعْضُهُم إِلَى بَعْضٍ، حَتَّى كَان سَبْعَةٌ في قران، وَأَلْقَوْا حَسَك الْحَدِيد خَلْفَهُمْ، وَقَالُوا : من فَر مِنَّا عقره حَسَك الحديد، فَقَال الْمُغِيَرة بن شُعُبَة حِين رَأَى كَثْرَتَهُم : لَم أَر كَالْيَوْم قَتِيْلًا، إِن عَدُوَّنَا يَتْرُكُون أَنْ يَتَنَامُوا، فَلَا يُعَجَّلُوا أما وَالله لَو أَن الْأَمْر إِلَيّ لَقَد أَعْجَلْتُهُم به، قال : وكان النُّعْمَانُ رَجُلًا بَكَّاءً، فَقَال : قَد كَان الله جَلّ وَعَز يُشْهِدُك أَمْثَالَهَا فَلَا يَحْزُنْكَ وَلَا يَعِيْبُكَ مَوْقِفُكَ، وَإِنِّي وَالله ما يَمنَعُنِي أَن أناجزهم، إِلَا لِشَيْءٍ شَهِدْتُه من رَسُول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، أن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كَان إِذ غَزَا فَلَم يُقَاتِلْ أَوَّل النَّهَار لَم يُعَجِّلْ حَتَّى تَحْضُر الصَّلَوَات وَتَهُبُّ الأَرْوَاحَ، وَيُطَيِّبُ القِتَالَ، ثم قال النُّعْمَان : اللَّهُمّ إِنِّي أَسْأَلَك أَن تَقَرّ عَيْنَي بِفَتْحٍ يَكُون فِيه عِزُّ الإِسْلَامِ، وَأَهْلِهِ وَذُلُّ الْكُفْرِ وَأَهْلِهِ، ثُمَّ اخْتِم لِي عَلَى أَثْر ذَلِك بالشهادة، ثم قال : أمِّنُوا يَرْحَمُكُم الله، فَأَمَّنَّا وَبَكَى فَبَكَيْنَا، فَقَال النُّعْمَان: إِنِّي هازٌّ لِوَائِي فَتَيَسَّرُوا لِلسِّلَاحِ، ثُمَّ هَازِّهُ الثَّانِيَةَ، فَكُونُوا مُتَيَسِّرِيْنَ لِقِتَالِ عَدُوِّكُم بِإِزَائِكُمْ، فَإِذَا هَزَزْتُهَا الثَّالِثَةَ، فَلْيَحْمِلْ كُلُّ قَوْمٍ عَلَى مَنْ يَلِيْهِم مِنْ عَدُوِّهمْ عَلَى بَرَكْةِ الله، قَالَ: فَلَمَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَهَبَّت الْأَرْوَاح كَبَّر وكبرنا، وَقَال رِيح الْفَتْح وَالله إِن شَاء الله، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَن يَسْتَجِيبَ الله لِي وَأَن يُفْتَح عَلَيْنَا فهزَّ اللِّوَاءَ فَتَيَسَّرُوا، ثُمَّ هَزَّهُ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ هَزَّه الثالثة، فَحَمَلَنَا جَمِيَعًا كُلُّ قَوْمٍ عَلَى مَنْ يَلِيْهِمْ، وَقَال النُّعْمَان : إِنْ أَنَا أَصَبْتُ فَعَلَى النَّاسِ حُذَيْفَة بن اليمان، فَإِنْ أُصِيْبَ حُذَيْفَةَ، فَفُلَان، فَإِن أُصِيبَ فُلَانٌ (ففُلَانٍ)، حَتَّى عَدَّ سَبْعَةً آخِرُهُم الْمُغِيَرة بن شعبة، قال أبي : فَوَالله ما عَلِمْت من الْمُسْلِمَيْن أحدًا، يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إلى أَهْلِه، حَتَّى يُقْتَلَ أَو يَظْفُرَ فَثَبتوا لنا، فَلَم نَسْمَع إِلَا وَقْع الْحَدِيد عَلَى الحديد، حَتَّى أُصِيب في الْمُسْلِمَيْن عصَابَةً عظيمةً، فَلَمَّا رَأَوْا صَبْرَنَا وَرَأَوْنَا لَا نُرِيد أَن نَرْجِع، انهزموا، فَجَعَل يَقَعُ الرَّجُلُ، فَيَقَعُ عَلَيه سَبْعَةٌ في قران، فَيُقْتَلُون جميعا، وَجَعَل يعقرهم حَسَك الْحَدِيد خلفهم، فَقَال النُّعْمَان : قَدِّمُوا اللِّوَاء فَجَعَلْنَا نُقَدِّمُ اللِّوَاءَ فَنَقْتُلُهُم ونهزمهم، فَلَمَّا رَأَى النعمان، قَد اسْتَجَاب الله لَه وَرَأَى الْفَتْح جَاءَتْه نِشَابَةٌ، فَأَصَابَت خَاصِرَتِه فقتلته، فَجَاء أَخُوه مَعْقَل بن مُقْرَن فسجى عليه ثَوْبًا وَأَخَذ اللِّوَاء فَتَقَدَّم ثم قال: تَقَدَّمُوا رحمكم الله، فَجَعَلْنَا نَتَقَدَّمُ فَنَهْزَمُهُمْ ونقتلهم، فَلَمَا فَرَغْنَا وَاجْتَمَع الناس، قالوا: أَيْن الأمير؟ فَقَال معقل: هذا أَمِيرُكُم قَد أَقَرَّ الله عَيْنَه بِالْفَتْح وَخَتَم لَه بالشهادة، فَبَايَع النَّاسَ حُذَيْفَةَ بن اليمان، قال : وكَانَ عُمَرُ ابن الخطاب رِضْوَان الله عليه بِالْمَدِينَة يَدْعُو الله، وَيَنْتَظِرُ مِثْلَ صَيْحَة الحُبْلَى، فَكَتَبَ حُذَيْفَةُ، إلى عُمَرَ بِالْفَتْح مَع رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِين، فَلَمَّا قَدِم عَلَيْه قَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِير المؤمنين، بِفَتْحٍ أَعَزَّ اللهُ فِيه الْإِسْلَام وَأَهْلَه وأذل فِيه الشِّرْك وأهله، وَقَال: النُّعْمَان بَعَثَكَ؟ قال: اِحْتَسَبَ النَّعْمَان يَا أَمِير المؤمنين، فَبَكَى عُمَرُ وَاْسْتَرْجَعَ، فَقَالَ : وَمَنْ وَيْحَكَ، فَقَال: فُلَانٌ، وَفَلَانٌ، وفلانٌ، حَتَّى عَدَّ نَاسًا ثُمَّ قَالَ وَآخَرِين يَا أَمِير الْمُؤْمِنِين لَا تَعْرِفُهُم، فَقَالَ: عُمَرُ رِضْوَان الله عَلَيْه، وَهُو يَبْكِي لَا يَضُرُّهُمْ، أَنْ لَا يَعْرِفُهُم عُمُرُ، لَكِن الله يَعْرِفُهُم
زیاد بن جبیر بن حیہسے مروی ہے کہتے ہیں:مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے کہا:جب تم میرے پاس سےجاہی رہےہوتومیرےلئےایک نیکی کردو،عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا تھا کہ:ڈرو مت اور اسے امان دے دی۔ ہرمزان نے کہا: ٹھیک ہے،آج کے فارس کا ایک سر اور دو بازو ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:سر کہاں ہے؟ ہر مزان نے کہا:نہاوند، بندار کے ساتھ ۔کیوں کہ اس کے ساتھ کسریٰ کے ستون اور اہل اصفہان ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:بازو کہاں ہیں؟ ہر مزان نے ایک جگہ کا ذکر کیا جو مجھے بھول گئی۔ ہرمزان نے کہا: دونوں بازو کاٹ دو، سر کمزور ہو جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اللہ کے دشمن! تم جھوٹ بولتے ہو، میں سر کی طرف جاؤں گا، اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ سر کاٹ دے گا تو بازوخودبخودختم ہو جائیں گے۔عمر رضی اللہ عنہ نے خود جانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: امیر المومنین ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ عجم کی طرف نہ جائیں۔ اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مسلمانوں کا نظام سنبھالنے والا کوئی نہیں۔آپ لشکر بھیج دیجئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کو بھیجا، ان میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کو بھی بھیجا۔ مہاجرین و انصار کو بھی بھیجا اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تم بصرہ والوں )بصرہ کے مجاہدین کا لشکر) کو لے کر آؤ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تم اہل کفوہ (کوفہ کے مجاہدین کا لشکر) کو لے کر آؤ، اور سب نہاوند میں جمع ہو جاؤ، جب تم جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر نعمان بن مقرن مزنی ہوں گے۔ جب وہ نہاوند میں جمع ہوگئے ۔تو بندار نے ان کی طرف (کافر شخص)بھیجا کہ اے عرب کی جماعت!ہمارے پاس اپنا کوئی آدمی بھیجو، ہم اس سے بات چیت کریں(مذاکرات کریں) لوگوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو چنا ، میرے والد کہتے ہیں: گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں، لمبے قد، بکھرے بالوں والے، بھینگے، وہ بندار کے پاس گئے، جب وہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے کہا: میں نےایک عجمی کافر کو دیکھاکہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کر رہا ہے۔ تم نے اس عربی کو کیوں بلایا ہے؟ کیا اسے ہماری شان و شوکت، حسن و جمال اور بادشاہت ہمارے پاس ہے ہم اسے غنیمت جانیں؟ کہنے لگے: کہا نہیں، بلکہ اس سے بھی بلند تر مقصد کے لئے بلایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی عسکری قوت اور عددی برتری دکھائیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو ان کے نیزے بھی دیکھے اور ڈھالیں بھی جن سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ انہیں اس کے سر پر کھڑے دیکھا، وہ سونے کے ایک تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا، میں اپنی اسی کیفیت میں چلتارہا۔ میں نے اس کے ساتھ تخت پر بیٹھنا چاہا تو مجھے (تخت سے) ہٹا دیا گیا، میں نے کہا:قاصدوں کے ساتھ اس طرح نہیں کیا جاتا۔ وہ مجھ سے کہنے لگے: تم کتے ہو کیا تم بادشاہ کے ساتھ بیٹھوگے؟ میں نے کہا: جتنا،توعزت دار ہے اس سے زیادہ میں اپنی قوم میں محترم ہوں،نہاوند نے مجھے ڈانٹ دیا، اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا، مجھے اس کی بات ترجمہ کر کے بتائی گئی ۔اس نے کہا: اے عرب کی جماعت! تم لوگوں میں طویل بھوک والے تھے، سب سے زیادہ بدبخت تھے،سب سے گندے لوگ تھے۔ صحراو بیابان میں تمہارا گھر تھا، ہر بھلائی سے دور تھے مجھے اور کسی بات نے نہیں روکا کہ میں اپنے سرداروں کو تمہارا نظم و ضبط بہتر کرنے کا حکم دوں، سوائے تمہاری بدبو دارنجس لاشوں کے کیوں کہ تم پلید ہو۔ اگر تم واپس چلے جاؤ تو تمہارا راستہ چھوڑ دیاجائے گا، اگر انکار کرو گے تو یہ تمہارا قبرستان ہوگا۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کہا: واللہ آپ نے ہمارا کوئی وصف اور عادت غلط بیان نہیں کی۔ ہم واقعی بہت دور صحرا بیابان میں تھے ۔اور ستگ بھوک والے تھے، سب سے زیادہ بدبخت تھے۔ بھلائی سے بہت دور تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک رسول بھیجا، اس نے ہمیں دنیا میں مدد کا وعدہ دیا اور آخرت میں جنت کا۔ جب سے اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا ہے ہم اپنے رب کے مدد اور کامیابی کو پرکھتے آرہے ہیں، حتی کہ ہم تمہارے پاس آگئے۔ اللہ کی قسم! ہم تمہاری بادشاہت اور عیش والی زندگی دیکھ رہے ہیں ہم اس بدبختی کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں جائیں گے، یہاں تک کہ ہم تمہارے قبضے میں موجود ہر چیز پر غالب نہ آجائیں ۔یا ہم تمہاری زمین میں قتل نہ کردیئے جائیں۔ اس نے کہا: بھینگے آدمی نے اپنے دل کی سچی بات تمہارے سامنے کر دی۔ میں اس کے پاس سے اٹھ گیا، واللہ میں نے علج رضی اللہ عنہ (عجمی کافر)کو اپنی جرأت سے مرعوب کر دیا۔ علج (عجمی کافر)نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ: یا تو تم نہاوند پار کر کے ہمارے پاس آؤ ورنہ ہم آتے ہیں، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہاوند پار کرو، ہم نے نہاوند پار کیا۔ میرے والد کہتے ہیں: میں نے آج کے دن کی طرح کبھی کوئی دن نہیں دیکھا۔ علج (عجمی کافر)اس طرح آرہے تھے گویا وہ لوہے کے پہاڑ ہوں۔ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے عرب سے بھاگیں نہیں، اور انہیں آپس میں ملا دیا گیا حتی کہ ایک زنجیر میں سات آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے لوہے کے آرے ڈال دئیے کہ جو بھاگے گا اسے لوہے کے آرے کاٹ دیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ان کی کثرت دیکھی تو کہاکہ آج کے دن جتنے مقتول میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ہمارے دشمن کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں کہ ان پر جلدی نہ کی جائے۔ واللہ معاملہ اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں جلدی کرتا، نعمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے انسان تھے۔ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے کئی مواقع عطا کئے ہیں، اس لئے یہ تمہیں غمزدہ نہ کرے اور تمہارے موقف کو معیوب نہ کرے، اور مجھے ان سے ٹکرانے سے کوئی چیز نہیں روکتی سوائے اس بات کے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے ابتدائی حصے میں قتال نہیں کرتے تھے۔ جب تک نماز کا وقت نہ ہو جاتا، اور ہوائیں چلنا شروع نہ ہو جاتیں،جلدی نہ کرتے، اور لڑائی کا بہترین وقت نہ ہو جاتا۔پھر نعمان جلدی نہ کرتے کہنے لگے: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو ایسی فتح سے جس میں اسلام اور اہل اسلام کی عزت اور کفر اور اہل کفر کی ذلت ہو، میری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔ پھر اس کے بعد میرا خاتمہ شہادت کی موت پر کر دے۔ پھر کہنے لگے: آمین کہو، اللہ تم پر رحم کرے، ہم نے آمین کہا۔ وہ رونے لگے تو ہم بھی رونے لگے، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جھنڈالہراؤں گا ۔اپنا اسلحہ تیار کر لینا، پھر دوسری مرتبہ اسے لہراؤں گا تو اپنے سامنے دشمن سے لڑائی کے لئے تیار ہو جانا، جب میں اسے تیسری مرتبہ لہراؤں گا تو ہر شخص اللہ سے برکت کی امید کرتے ہوئے اپنے سامنے والے دشمن پر حملہ کر دے۔ جب نماز کا وقت ہوگیا۔ اور ہوائیں چل پڑیں تو انہوں نے تکبیر کہی ہم نے بھی تکبیر کہی ۔کہنے لگے: واللہ فتح کی ہوا ہے، ان شاء اللہ اور مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ میری دعا قبول کرے گا، اور ہمیں فتح دے گا، انہوں نے جھنڈا لہرایا تو وہ تیار ہوگئے پھر دوسری مرتبہ لہرایا پھر تیسری مرتبہ لہرایا تو ہم سب نے اکھٹے ہو کر اپنے ساتھ والوں پر حملہ کر دیا۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے کچھ ہو جائے تو امیر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہوں گے، اگر حذیفہ کو کچھ ہو جائے تو فلاں، اگر فلاں کو کچھ ہو جائے تو (فلاں)حتی کہ سات نام گنوائے، آخر میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میرے والد کہتے ہیں :واللہ میں مسلمانوں میں سے کسی شخص کو نہیں جانتا جو چاہتا ہو کہ وہ قتل یا کامیاب ہونے سے پہلے گھر واپس پلٹ جائے وہ ثابت قدم رہے۔ ہم صرف تلواروں کی گرج سن رہے تھے۔ حتی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی، جب انہوں نے دیکھا کہ ہم نے صبر کر لیا ہے(ہم ڈٹ گئے ہیں) اور واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو منتشر ہوگئے۔ ایک آدمی گرتا تو اس پر سات آدمی گرتے اور سب قتل کر دیئے جاتے۔ پیچھے سے لوہے کے آرے انہیں کاٹنے لگے۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جھنڈا آگے کرو، ہم جھنڈا آگے کرنے لگے، ہم انہیں قتل کرتے اور شکست دیتے، جب نعمان رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے اور فتح دیکھ لی تو ایک تیرآیا اور ان کی پسلی میں جا گھسا اور وہ شہید ہوگئے ۔ ان کے بھائی معقل بن مقرن آئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا، اور جھنڈا پکڑ لیا، آگے بڑھ کر کہنے لگے: آگے بڑھو اللہ تم پر رحم کرے، ہم آگے بڑھتے انہیں شکست دیتے اور قتل کرتے رہے۔ جب ہم فارغ ہوئے اور لوگ جمع ہوگئے، تو کہنے لگے: امیر کہاں ہیں: معقل نے کہا: یہ تمہارا امیر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کو فتح دکھا کر ٹھنڈک عطا فرمائی، اور خاتمہ شہادت پر کیا۔ لوگوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینے میں اللہ سے دعائیں کر رہے تھے اور چیخنے والی حاملہ کی طرح بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مسلمان شخص کے ہاتھ فتح کا پیغام بھیجا، جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو کہنے لگا: امیر المومنین فتح مبارک ہو، جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی اور شرک اور اہل شرک کو ذلیل کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا نعمان نے تمہیں بھیجا ہے؟ اس آدمی نے کہا: امیر المومنین! نعمان رضی اللہ عنہ اجر پاگئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پھر کہنے لگے: اور کون کون لوگ ہیں؟ اس نے کہا: فلاں فلاں، حتی کہ کئی لوگ گنوادیے۔ پھر کہنے لگا: امیر المومنین دوسرے وہ لوگ جنہیں آپ نہیں جانتے ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جبکہ وہ رو رہے تھے: کوئی حرج نہیں اگر عمر انہیں نہیں جانتا لیکن اللہ تو انہیں جانتا ہے۔