قَال حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَان رضی اللہ عنہ : كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللهُ بِهَذَا الْخَيْرِ (فَنَحْنُ فِيْهِ)، (وَجَاءَ بِكَ)، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ (كَمَا كَانَ قَبْلَهُ؟). (قَالَ: يَا حُذَيْفَةُ تَعَلَّمْ كِتَابَ اللهِ وَاتَّبِعْ مَا فِيهِ، (ثَلَاثَ مِرَّاتٍ). قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَبَعْدَ هَذَا الشَّرِّ مِنْ خَيْر؟) قَالَ: نَعَمْ (قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْهُ؟ قَالَ: السَّيْفُ). قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ (وَفِي طَرِيْقٍ: قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ السَّيْفِ بَقِيَّةٌ؟) قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ (وَفِي طَرِيْقٍ: تَكُونَ إِمَارَةٌ (وَفِي لَفْظٍ: جَمَاعَةٌ) عَلَى أَقْذَاءٍ، وَهُدْنَةٌ عَلَى) دَخَنٍ . قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: قَوْمٌ (وَفِي طَرِيْقٍ أُخْرَى: يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ (يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِيْ، وَ) يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ (وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ) . (وفي أخرى: الْهُدْنَةُ عَلَى الدَّخَنِ مَا هِيَ؟ قَالَ: لَا تَرْجِعُ قُلُوبُ أَقْوَامٍ عَلَى الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ). قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، (فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا) دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! صِفْهُمْ لَنَا. قَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا. قُلْتُ: (يَا رَسُولَ اللهِ!) فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْتَزمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، (تَسْمَعُ وَتُطِيعُ الأَمِيرِ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ). قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ. (وَفِي طَرِيْقٍ): فَإِنْ تَمُتْ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَدًا مِنْهُمْ. (وَفِي أُخْرَى): فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ اللهِ- عَزَّوَجَلَّ- فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةَ، فَالْزَمْهُ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ فَإِنْ لَمْ تَرَ خَلِيْفَةَ فَاهْرَبْ (فِي الْأَرْضِ) حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْت وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جَذْلِ شَجَرَةٍ. (قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ. قَالَ: قُلْتُ: فَبِمَ يَجِيءُ؟ قَالَ: بِنَهَرٍ-أَوْ قَالَ: مَاءٍ وَنَارٍ- فَمَنْ دَخَلَ نَهْرَهُ حُطَّ أَجْرُهُ وَوَجَبَ وِزْرُهُ وَمَنْ دَخَلَ نَارَهُ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ. (قُلْتُ يَا رَسُول الله! فَمَا بَعَدَ الدَّجَّال؟ قَالَ: عِيْسَى ابْنُ مَرْيَم). قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: لَوْ أَنْتَجْتَ فَرَسًا لَمْ تَرْكَبْ فُلُوَّهَا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ).
حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں یہ مجھے اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ اس خیر کو لے آیا( جس میں ہم داخل ہوئے)(اور اللہ تعالیٰ آپ کو لایا) کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے(جس طرح پہلے تھا؟)(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حذیفہ! اللہ کی کتاب سیکھو اور جو اس میں ہے اس کی پیروی کرو( تین مرتبہ فرمایا)میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟ )آپ نے فرمایا: ہاں( میں نے کہا: اس سے بچاؤ کیا ہے؟، آپ نے فرمایا: تلوار) میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟( اور ایک روایت میں ہے: میں نے کہا: کیا تلوار کے بعد بھی کچھ باقی رہے گا؟ )آپ نے فرمایا: ہاں اوراس میں دَخَنٌ ہوگا۔ (اور ایک روایت میں ہے: امارت ہوگی، ( اور ایک روایت میں ہے :جماعت ہوگی) ۔میں نے کہا : یہ دَخَنٌکیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسے لوگ ہوں گے ( اور دوسری روایت میں ہے: میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے( جو میرے طریقے کے علاوہ طریقہ اختیار کریں گے اور) میری راہنمائی کے خلاف چلیں گے ، ان میں اچھے عمل بھی ہوں گے اور برے عمل بھی (اور ان میں ایسے آدمی بھی ہوں گے جن کے دل انسان کے جسموں میں شیطان کے دل ہوں گے)، (اور دوسری روایت میں ہے: دَخَنٌ پر صلح کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: لوگوں کے دل اس بات پر نہیں لوٹیں گے جس پر وہ تھے) میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں(اندھا، بہرا فتنہ ہوگا، اس میں) جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ان کاحلیہ بیان کیجئےآپ نے فرمایا: وہ ہم جیسے ہوں گے اور ہماری زبان بولتے ہوں گے ۔میں نے کہا: (اے اللہ کے رسول !اگر مجھے ایسے لوگ ملیں تو مجھے کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹ جاؤ(سنو اور حکم کی اطاعت کرو، اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال لے لے پھر بھی اس کی بات سنو اور اطاعت کرو) میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت اور امام(حاکم) نہ ہوتو؟آپ نے فرمایا: تب تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کر لو، اگرچہ تمہیں درختوں کی جڑیں کھا کر گزارہ کرنا پڑے اور تمہیں اسی حال میں موت آجائے(اور ایک روایت میں ہے: )حذیفہ اگر تمہیں موت آئے تو اس حال میں کہ کسی درخت کی جڑیں پکڑے ہوئے ہو اور یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان میں سے کسی شخص کی پیروی کرو، ( اور دوسری روایت میں ہے): اگر تم روئے زمین پر اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جاؤ، اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال لے لے۔ اگر تمہیں خلیفہ نہ ملے تو(زمین میں ) بھاگ جاؤ حتی کہ تمہیں موت آئے تو تم کسی درخت کی جڑیں منہ میں پکڑے ہوئے ہو۔ (میں نے کہا: پھر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: پھر دجال نکلے گا، میں نے کہا: وہ کیا چیز لائے گا؟ آپ نے فرمایا: نہر، یا فرمایا :پانی اور آگ ،جو اس کی نہر میں داخل ہو گیا اس کا اجر ضائع ہو گیا اور اس کا گناہ ثابت ہوگیا، اور جو شخص اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر واجب ہوگیا اور اس کا گناہ ختم ہوگیا(میں نے کہا:ے اللہ کےر سول !دجال کے بعد کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا:عیسیٰ بن مریم ) میں نے کہا:پھر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:اگر کوئی بچھیرا(گھوڑے کا بچہ)پیدا ہوگا وہ ابھی سواری کے قابل نہیں ہوگا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔