عن ثوبان مولى رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: نَزَل بِنَا ضَيْفٌ بَدَوِيّ فَجَلَسَ رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم ، أَمَام بُيُوته، فَجَعَل يَسْأَله عَن النَّاس كَيْف فَرَحهُم بِالْإِسْلَام؟ وَكَيْف حدبُهم عَلى الصّلاة؟ فَمَا زَال يُخْبِرُه من ذَلِك بِالَّذِي يَسُرُّه حَتَّى رَأَيْت وَجه رَسُول الله نضرًا، فَلَمَّا انْتَصفَ النَّهَار، وَحَان أَكل الطَّعَام دَعَانِي مُسْتَخْفِيًا لَا يألوا: أَن ائْت عَائَشَة فَأَخْبرهَا أَن لرَسُول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضَيْفًا، قَالَت: وَالَّذِي بَعَثَه بِالْهُدَى وَديْن الْحَق ما أَصَبْح في يَدي شَيْء يَأْكُله أحدٌ من النَّاس فَردنِي إلى نِسَائِه ، كُلهُنّ يعتذرن بِمَا اعْتَذَرْت بِه عَائِشَة ، فَرَأَيْت لَوْن رَسُول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَسَف، فَقَالَ الْبَدَوِيّ: إِنَّا أَهَل الْبَادِيَة مُعَانُون في زَمَاننَا لَسْنَا بأهل الْحَضَر، فَإِنَّمَا يكفي الْقَبْضَة من التَّمْر يُشْرَب عَلَيْهَا من اللَّبَن وَالماَء فَذَلِك الْخَصْب، فَمَرت عنْد ذَلِك عَنْزٌ لَنا قَد احْتُلِبَتْ، كُنَّا نُسَمِّيهَا (ثمر ثمر) فَدَعَا رَسُول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، بِاسْمِهَا (ثمر ثمر) فَأَقْبَلَت إِلَيْه تُحَمْحِم فَأَخَذ بِرِجْلِهَا بِاسمِ اللهِ ثُم اعتقلها بِاسْمِ اللهِ ثُم مَسَحَ سُرَّتَهَا بِاسْمِ اللهِ فَحَفَلَتْ، (الأصل:فحطت) فَدَعَانِي بِمِحْلَبِ، فَأَتَيْتُه بِه فَحَلَب بِاسْمِ اللهِ، فَمَلَأَه، فَدَفَعَه إلى الضَّيْفِ فَشَرِب مِنْه شُرْبَةً ضَخْمَةً، ثُمَّ أَرَاد أَن يَضعَه، فَقَال لَه رَسُول الله صلی اللہ علیہ وسلم :عُل ثُم أَرَاد أَنْ يَضْعَه فَقَال لَه: عُل فَكَرَره عَلَيه حَتَى امْتَلَأ وَشَرِب مَا شَاء الله ، ثُم حَلَب بِاسْمِ اللهِ وَمَلَأه وَقَالَ: أَبْلِغ عَائِشَة هَذا فَشَربَتْ مِنْه مَا بَدَا لَهَا ثُم رَجَعتُ إِليْه فَحَلبَ فِيه بِاسْمِ اللهِ ثُم أَرْسَلَنِي بِه إِلَى نِسَائِه كُلَمَا شَربَ مِنه رَدَدْته إِلِيْه فَحَلبَ بِاسْمِ اللهِ فَمَلأ ثُم قَالَ: إدْفَعه إِلَي الضَيْف فَدَفعتُه إِليه. قَالَ: بِسْمِ اللهِ فَشَرِب مِنه مَا شَاءَ الله ثُم أَعْطَانِي، فَلَم آل أَن أَضَع شَفَتَيّ عَلَى دَرَجِ شَفَتِهِ فَشَرِبتُ شَرَابًا أَحْلَى من الْعَسَل وَأَطْيَب من الْمِسْك ثُم قال: اللهم بَارِك لِأهلِهَا فِيْهَا.
ثوبان رضی اللہ عنہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک دیہاتی مہمان آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھروں کے سامنے بٹھا لیا اور اس سے لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگے کہ اسلام اسلام قبول کرکے وہ کس قدر خوش ہیں اور نماز کا کتنا اہتمام کرتے ہیں؟ وہ شخص آپ کو بتاتا رہا اور آپ خوش ہوتے رہے حتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تروتازہ دیکھا۔ جب نصف النہار ہوگاا اور کھانا کھانے کا وقت ہوا تو آپ نے چپکے سے مجھے بلایا کسی کو محسوس نہیں ہوا اور فرمایا کہ :عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور اسے بتاؤ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگی: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، آج میرے پاس کسی کے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے اپنی تمام بیویوں کی طرف مجھے بھیجا لیکن سب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح معذرت کر لی، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ ہلکا پڑ گیا ہے۔ اس دیہاتی نے کہا: ہم دیہاتی لوگ ہیں ،اپنی حالت پر راضی رہتے ہیں ،ہم شہری نہیں ہیں، ہمیں تو ایک مٹھی کھجور جس پر دودھ اور پانی پی لیا جائے کافی ہے۔ یہ یہی ہمارے لئے فراخی اور خوشحالی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس سے ایک بکری گزری جس کا دودھ نکالا جا چکا تھا۔ ہم نے اس کا نام (ثمر ثمر) رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام لے کر بلایا( ثمر ثمر) ۔وہ ممیاتی آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر اس کی ٹانگیں پکڑیں ،پھر اللہ کا نام لے کر رسی باندھی، اور اللہ کا نام لے کراس کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کے تھن بھر گئے ،آپ نے مجھ سے دودھ کا ایک برتن منگوایا، میں برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا آپ نے اللہ کا نام لے کر دودھ نکالا اور برتن بھر کر مہمان کو دے دیا۔ اس نے ایک لمبا گھونٹ بھر کر رکھنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر پیو، پھر اس نے رکھنا چاہا تو آپ نے اس سے فرمایا: اور پیو، آپ بار بار کہتے رہے حتی کہ اس کا پیٹ بھر گیا، اور جتنا جی چاہا پی لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر دودھ نکالا اور برتن بھر لیا اور فرمایا ،اسے عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچا دو، انہوں نے بھی جتنا جی چاہا پی لیا، پھر میں برتن آپ کے پاس لایا، آپ نے اللہ کا نام لے کر اس میں دودھ نکالا، پھر مجھے اپنی تمام بیویوں کی طرف بھیجا جب بھی کوئی اس میں سے دودھ پی لیتی تو میں برتن آپ کے پاس لے آتا۔ آپ بسم اللہ پڑھ کر دودھ نکالتے تو وہ بھر جاتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے مہمان کو دے دو، میں نے وہ برتن اسے دیا تو اس نے بسم اللہ پڑھی اور جتنا چاہا پی لیا۔ پھر آپ نے (خود پینے کے بعد) برتن مجھے دیا تو میں نے اسی جگہ ہونٹ رکھے جس میں کوئی کوتاہی نہیں کی جہاں آپ نے رکھے تھے۔ میں نے دودھ پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ اس بکری میں اس کے مالکوں کو برکت دے۔