) قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ. عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غفَارٍ وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْكِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْكَاهِنَ فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِثَلَاثِ سِنِينَ قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلهِ قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ فَرَاثَ عَلَيَّ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ مَا صَنَعْتَ قَالَ لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ يَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَهُ قُلْتُ: فَمَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: شَاعِرٌ كَاهِنٌ سَاحِرٌ وَكَانَ أُنَيْسٌ: أَحَدَ الشُّعَرَاءِ قَالَ أُنَيْسٌ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ فَمَا هُوبِقَوْلِهِمْ وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ قَالَ: قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ: فَأَتَيْتُ مَكَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ: الصَّابِئ فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ قَالَ: فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ قَالَ: فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائهَا وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ: فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانَ إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائلَةَ قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ: أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى قَالَ: فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ: هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوكَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ: فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَبُوبَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ قَالَ: مَا لَكُمَا؟ قَالَتَا: الصَّابِئ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا قَالَ: مَا قَالَ لَكُمَا؟ قَالَتَا: إِنَّهُ قَالَ لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُووَصَاحِبُهُ ثُمَّ صَلَّى فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ أَبُوذَرٍّ: فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ: فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ اِصْبَعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي:كَرِهَ أَنْ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ: مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ قَالَ: فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ: إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ يَا رَسُولَ اللهِ ائذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ فَانْطَـلَقَ رَسُـولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَبُوبَكْرٍ: وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا فَفَتَحَ أَبُوبَكْرٍ بَابًا فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيـبِ الطَّائفِ وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَـامٍ أَكَلْتُهُ بِهَـا ثُمَّ غَـبَرْتُ مَـا غَبَرْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ؟ عَسَى اللهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ؟ فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ قَالَ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا فَقَالَتْ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ: وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ وَقَالَ نِصْفُهُمُ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ الْبَاقِي وَجَاءتْ أَسْلَمُ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِخْوَتُنَا، نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : غِفَارُ غَفَرَ اللهُ لَهَا وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (آب زمزم) بابركت ہے یہ کھانے کا كھانا ہے۔ ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے كتےا ہںل كہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے وہ حرمت والے منو ں كوحلال سمجھتے تھے۔ مںم، مرزا بھائی انسئ اور مر ی والدہ آئےاوراپنے ماموں كے گھر ٹھرطے ہمارے ماموں نے ہماری بتِ عزت كی اور ہمارے ساتھ اچھا سلوك كاے، ان كی قوم نے ہم سے حسد كام۔ كنےن لگے: جب تم گھر سے نکلتے ہو تو انیس تمہارے گھر والوں کے پاس آجاتا ہے۔میرے ماموں آئے ان سے جوبات کہی گئی تھی وہ ہم سے بیان کرنے لگے،میں نے کہا:آپ نے جواچھا سلوک کیا تھا،یہ بات کرکے سارے پر پا نی پھیر دیا،آج کے بعد ہم کبھی نہیں ملیں گے۔ہم نے اپنے اونٹ لئے اور ان پر سوار ہوگئے،میرے ماموں اپنے چہرے کوکپڑےسے ڈھانپ کر رونے لگے،ہم چلتے رہےیہاں تک کہ مکہ کے سامنے آگئے ۔انیس نے ہماری جیسی ایک سواری کے مقابلے میں فخر کا اظہارکیا۔ وہ دونوں کاہن کے پاس لایاتواس نے انیس یعنی اس کی سواری کو اچھا قرار دیا۔ انیس ہمارے پاس ہماری سواری اور اس جیسی دوسری سواری لایااور کہا:بھتیجے میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات سے تین سال پہلے نماز پڑھنی شروع کردی تھی۔میں نے کہا:کس کے لئے؟اس نے (ابو ذرغفاری) کہا اللہ کے لئے میں نے کہا کس طرف رخ کیا ؟اس نے کہا: جہاں میرا رب مجھے پھیر دیتا میں اسی طرف پھر جا تا،میں عشاء کی نماز پڑھتا، پھر جب رات کا آخری پہر ہوتا تومجھے اس طرح خیال آتا کہ گویا میں چھپ گیا ہوں حتی کہ سورج بلند ہوجاتا ۔انیس نے کہا:مجھے مکہ میں کچھ کام ہے میرے بعد خیال رکھنا ۔انیس مکہ گیا اور واپس آنے میں دیر کردی،پھر جب وہ آیا تومیں نے کہا:تم نے کیا کیا ؟کہنے لگا:میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جوتمہا رے دین پر ہے اور اس کا گمان ہے کہ اسے اللہ تعالی نے بھیجا ہے۔میں نے کہا:لوگ کیا کہتے ہیں ؟انیس نے کہا:لوگ اسے شاعر، کاہن اور جادوگرکہتے ہیں ۔انیس خود بھی ایک شاعر تھا کہنے لگا:میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن وہ کاہنوں والی بات نہیں کرتا،میں نے اس کا لام اصناف شعر پر پرکھا لیکن وہ کسی بھی لحاظ سے شعر نہیں ہے،واللہ وہ سچاہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔میں نے کہا:میرے بعد خیال رکھنا تاکہ میں مکہ جاسکوں اور دیکھوں کہ کیا صورتحال ہے ۔میں مکہ آیا اور ان میں سے کمزور سے آدمی سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا:یہ صابی(بے دین) ہے۔اہل مکہ مجھ پر پتھروں اور ہڈیوں سے سے ٹوٹ پڑے حتی کہ میں چکراکر گرگیا ۔جب مجھے ہوش آیا توخون میں لت پت تھا، میں زمزم کے پاس آیا خون دھویا اوراس کا پانی پیا ۔بھتیجے! میں تیس دن وہاں رکارہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں تھا،لیکن میں اتنا موٹا ہوگیا کہ میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا۔ اور میں نے کبی بھوک موس س تک نہ کی۔پھر ایک چاندنی رات اہل مکہ میں جبکہ لوگ سو چکے تھے کوئی شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر رہا تھا کہ ان میں سے دوعورتیں اساف اور نائلہ کوپکا رنے لگیں،وہ اپنے طواف کے دوران میرے پاس آئیں تومیں نے کہا:ایک کا دوسرے سے نکاح کردو۔وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر وہ میرے پاس آئیں تومیں نے بغیر کنایۃ کئے کہااساف اور نائلہ دونوں کے لئے) لکڑی جیسا....... وہ چیختی چلا تی اور واویلا کرتی ہوئی چلی گںی اور کہتی کہ کاش ہماری جماعت ہوتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نیچے اتر رہے تھے وہ ان دونوں سے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم دونوں کوکیا ہوا؟ کہنے لگیں:کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیا ن ایک صابی ہے ۔آپ نے فرمایا:اس نے تم سے کیا کہا ؟ کہنے لگیں: ایسی بات کہی ہے جومنہ سے نہیں نکالی جاسکتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور حجر اسود کا استلام کیا،آپ نے اورآپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف کیا،پھر نماز پڑھی،جب فارغ ہوئے توابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواسلامی سلام کیا ۔میں نے کہا:السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ نے فرمایا:وعلیک ورحمۃ اللہ،پھر فرمایا:تم کون ہو؟میں نے کہا:غفار سے تعلق رکھتا ہوں ؟آپ نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ لیا ۔میں نے دل میں کہا شاید آپ کوغفار کی طرف میری نسبت پسند نہیں آئی۔میں نے آپ کا ہاتھ پکڑنا چاہا،آپ کے ساتھی نے مجھے روک لیا،وہ مجھ سے زیادہ جانتا تھا ۔پھر آپ نے سر اٹھا یا اور فرمایا:تم کب سے یہاں ہو؟میں نے کہا:ایک ماہ سے،تمہیں کون کھانا کھلاتا ہے؟میں نے کہا کہ زمزم کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، میں زمزم کا پانی پی کر موٹا ہوگیا حتی کہ میرے پیٹ کی سلویں پر ہوگئیں۔ اورمجھے کبھی بھی بھوک کا احساس نہیں ہوا۔آپ نے فرمایا:یہ بابرکت ہے اور کھانے کا کھانا ہے ۔ابوبکرنے کہا: اے اللہ کے رسول !آج رات مجھے اس کی مہمان نوازی کی اجازت دیجئے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکررضی اللہ عنہ چل پڑے تومیں بھی ان کے ساتھ چل پڑا ابوبکررضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقہ مٹھیاں بھر کر لانے لگے،یہ وہ پہلا کھانا تھا جومیں نے مکے میں کھا یا،پھر میں کچھ وقت ٹھہرا رہا،اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے سامنے کھجوروں والی سرزمین کی گئی ہے،میرے خیال میں وہ یثرب ہے ۔کیا تم میری طرف سے اپنی قوم کوپیغام دے دوگے؟ ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں نفع دے اور تمہیں اجردے ۔میں انیس کے پاس آیا تواس نے کہا:تم کیا کررہے تھے ؟میں نے کہا میں نے یہ کام کیا ہے کہ مسلمان ہوگیا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کردی ہے ۔انیس نے کہا:مجھے تمہارے دین سے کوئی بے رغبتی نہیں کیونکہ میں بھی مسلمان ہوچکا ہوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کردی ہے ۔پھر ہم اپنی ماں کے پاس آئے تووہ کہنے لگی:مجھے تم دونوں کے دین سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ میں مسلمان ہوچکی ہوں اور آپ کی تصدیق کردی ہے ۔پھر ہم سوار ہوکر اپنی قوم کے پاس آئے توان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کی امامت ایماءبن رحضہ غفاری کروایا کرتےتھے،وہ ان کے سردار تھے،باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینےآئیں گے توہم مسلمان ہوں گے ۔پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لے آئے توباقی نصف لوگ بھی مسما ن ہوگئے ۔پھر قبیلہ اسلم کے لوگ آئے اور کہنے لگے:اے اللہ کے رسول! ہم بھی اسلام قبول کرتے ہیں ۔جس طرح ہمارے بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:غفار کی اللہ مغفرت کرے اور اسلم کوسلامت رکھے ۔ ( )