عَنْ أَبِي سُفْيَانَ بْن حَرْبٍ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَارًا بِالشَّأمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ فَوَاللهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا؟! قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ الْكَلِمَةِ قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلْتُ: الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بَصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اهُِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ ﮊ آل عمران، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَكَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفاً عَلَى نَصَارَى الشَّامِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا؟ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مُلْكُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ؟ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ.
ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ وہ قریش كے ایك تجارتی قافلے میں تھے۔ ہرقل نے اس كی طرف پیغام بھیجا۔ یہ لوگ شام میں تجارت كی غرض سے اس مدتِ معاہدہ كے دوران آئے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان و كفارِ قریش كے درمیان ہوا تھا۔ یہ لوگ ایلیا میں تھے ، ہر قل نے انہیں قریب بلایا اور اس کے پاس روم کے سرکردہ لوگ تھے،اور اپنا ترجمان بھی بلایا۔ ہر قل نے كہا: جو شخص نبوت كا دعوی كرتا ہے اس كا رشتے دار كون ہے؟ ابو سفیان نے كہا: میں ہوں، ہر قل نے كہا: اسے میرے قریب كر دو ۔اور اس كے ساتھیوں كو اس كے پیچھے كھڑا كر دو، پھر اپنے ترجمان سے كہا، ان سے كہو: میں اس سے سوال كروں گا، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو اس كی تكذیب كر دو ۔ابو سفیان نے كہا: اللہ كی قسم مجھے اس بات كی شرم نہ ہوتی كہ یہ مجھے جھوٹا كہیں گے تو میں آپ كے بارے میں جھوٹ بولتا ۔ پھر پہلاسوال ہر قل نے كاہ: تم میں اس كا نسب كیسا ہے؟ ابو سفیان: وہ ہم میں اچھے نسب والے ہیں۔ ہر قل: كیا تم میں سے كسی نے پہلے كبھی ایسی بات كہی ہے؟ ابو سفیان: نہیں۔ہر قل: كیا اس كے آباءو اجداد میں كوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابو سفیان: نہیں ۔ ہر قل: بڑے لوگ اس كی پیروی كرتے ہیں یا كمزور اور غریب لوگ؟ ابو سفیان: كمزور و ضعیف لوگ۔ ہر قل: وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا كم ہو رہے ہیں؟ابو سفیان: وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ہر قل: كیا اس كے دین میں داخل ہونے كے بعد كوئی اس كے دین كو نا پسند كرتے ہوئے مرتدبھی ہوا ہے ؟ ابو سفیان : نہیں۔ ہر قل : كیا وہ دھوكہ دیتا ہے؟ ابو سفیان : نہیں، لیكن ہمارے درمیان ایك معاہدہ ہوا ہے جس كے بارے میں ہم نہیں جانتے كہ وہ اس میں كیا كرے گا؟ ابو سفیان نے كہا كہ اس بات كے علاوہ مجھے كوئی ایسی بات نہیں ملی جو میں اس گفتگو میں شامل كرتا۔ ہر قل: كیا تم نے اس سے قتال كیا ہے؟ ابو سفیان: ہاں۔ ہر قل: تمہارے درمیان جنگ كی كیا كیفیت رہی؟ ابو سفیان: ہمارے درمیان جنگ كبھی ان كے حق میں اور كبھی ہمارے حق میں رہی۔ ہر قل : وہ تمہیں كیا حكم دیتا ہے؟ ابو سفیان: وہ كہتا ہے ، اللہ كی عبادت كرو، اس كے ساتھ كسی كو شریك نہ كرو، جو تمہارے آباء كہتے ہیں انہیں چھوڑ دو، ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاكدامنی اور صلہ رحمی كا حكم دیتا ہے۔ہر قل نے اپنے ترجمان سے كہا : اس سے كہو، میں نے تم سے اس كے نسب كے بارے میں پوچھا تو تم نے كہا كہ وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے، رسول اسی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی قوم كے اچھے نسب والے خاندان میں مبعوث كیا جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس سے پہلے بھی كسی نے ایسی بات كہی ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ میں كہتا ہوں كہ اگر اس سے پہلے كسی نے ایسی بات كہی ہوتی تو میں كہتا یہ ایسا شخص ہے جو ایسی بات كی نقل كر رہا ہے جو كہی جا چكی ہے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس كے آباء میں سے كوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو تم نے كہا كہ نہیں۔ میں كہتا ہوں كہ اگر اس كے آباء میں سے كوئی بادشاہ ہوتا تو یہ ایسا شخص ہے جو اپنے آباء كی بادشاہت كا خواہش مند ہے۔ میں نے تم سے كہا كہ كاا تم نے كبھی اس پر اس دعوے سے پہلے جھوٹ كی تہمت لگائی ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ مجھے معلوم ہو گیا كہ ایك شخص جو لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ كے متعلق كس طرح جھوٹ بول سكتا ہے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ امیر لوگ اس كی پیروی كر رہے ہیں یا غریب لوگ؟ تو تم نے كہا: غریب لوگ اور یہی لوگ رسولوں كے پیرو كار ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا كم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے كہا كہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ ایمان كا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے حتیٰ كہ وہ مكمل ہو جائے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس كے دین كو ناپسند كرتے ہوئے كوئی مرتد بھی ہوا ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ ایمان كی حالت اسی طرح ہوتی ہے جب اس كی تازگی دلوں میں رچ بس جائے ۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا وہ دھوكہ دہی كرتا ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ رسول دھوكہ نہیں دیتے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ وہ تمہیں كس بات كا حكم دیتا ہے؟ تو تم نے كہا كہ وہ تمہیں نماز پڑھنے، سچ بولنے ، پاكدامنی اختیار كرنے ، اللہ كی عبادت كرنے ، شرك نہ كرنے، بتوں كی عبادت سے رك جانے كا حكم دیتا ہے۔ اگر جو تم نے كہا ہے سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں كے نیچے والی جگہ (تخت) كا مالك بنے گا۔ مجھے یہ معلوم تھا كہ اس كا ظہور ہونے والا ہے لیكن یہ خیال نہیں تھا كہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر میں سمجھتا كہ میں اس كے پاس پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور اس كی ملاقات كے لئے جاتا، اگر میں اس كے پاس ہوتا تو میں اس كے قدم دھوتا۔ پھر اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا وہ خط منگوایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ كے ہاتھ بصرہ كے والی كی طرف بھیجا تھا ۔ وہ خط ہر قل كو دیا گیا، ہر قل نے وہ خط پڑھا تو اس میں لكھا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد اللہ كے بندے اور اس كے رسول كی طرف سے ، ہر قل روم كے بادشاہ كی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت كی پیروی كی۔ اما بعد: میں تمہیں اسلام كی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ سلامت رہو گے، اللہ تعالیٰ تمہیں دو گنا اجر دے گا۔ اگر تم اسلام سے پھر گئے تو تم پر تمہاری رعایا كا بھی گناہ ہوگا ’’اور اے اہل كتاب اس كلمہ كی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترك ہے كہ ہم اللہ كے سوا كسی كی عبادت نہ كریں اور نہ اس كے ساتھ كسی كو شریك كریں، اور نہ ہم میں كوئی كسی دوسرے كو اللہ كے علاوہ رب بنائے۔ اگر یہ لوگ پھر جائیں تو تم كہو ہم اس بات كی گواہی دیتے ہیں كہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘( آل عمران) ابو سفیان نے كہا:جب ہر قل اپنی بات كہہ چكا اور خط سے فارغ ہو گیا تو اس كے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ہمیں باہر بھیج دیا گیا، جب ہمیں باہر بھیجا گیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے كہا: ابن ابی كبشہ كا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔ اس سے تو روم كا بادشاہ بھی ڈر رہا ہے۔ پھر مجھے یہ یقین ہو گیا كہ عنقریب وہ غالب ہوگا، حتی كہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل كر دیا۔ابن ناطور ہرقل کی طرف سے ایلیاء کا والی اور نصارٰی شام کا پادری (عالم) بھی تھا۔ابن ناطور كہتا ہے كہ ہر قل جب ایلیا آیا تو ایك دن بوجھل طبیعت كے ساتھ اٹھا، اس كے كسی جرنیل نے كہا: آج ہم آپ كی طبیعت نا ساز دیكھ رہے ہیں۔ ابن ناطور كہتا ہے كہ ہر قل علم نجوم كا ماہر تھا۔ جب ساتھیوں نے اس سے كہا تو اس نے ان سے كہا: آج رات میں نے ستارے دیكھے تو مجھے ختنہ كرنے والے لوگوں كا بادشاہ نظر آیا اس كا ظہور ہو چكا ہے۔ اس امت میں كون لوگ ختنہ كرتے ہیں؟ اس كے ساتھیوں نے كہا: صرف یہودی لوگ ختنہ كرتے ہیں اور آپ کو ان کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے حاکموں کو لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردئے جائیں۔ وہ ابھی اسی گفتگو میں مصروف تھے كہ ہر قل كے پاس ایك آدمی لایا گیا ،جسے غسان كے بادشاہ كی طرف سے بھیجا گیا تھا،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے بارے میں بتا رہا تھا۔ جب ہر قل نے اس سے یہ ؟؟؟ معلوم کی کہ تو كاب: اسے لے جاؤ اور دیكھو اس كا ختنہ ہوا ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیكھا تو انہیں انكشاف ہوا كہ اس كا ختنہ ہوا ہے۔ ہر قل نے اس سے عرب كے لوگوں كے بارے میں پوچھا تو اس نے كہا: وہ ختنہ كرتے ہیں۔ ہر قل نے كہا: یہ اس امت كا بادشاہ ہے، اس كا ظہور ہو گیا ۔ پھر ہر قل نے رومیہ میں اپنے نگران كو خط لكھا وہ بھی علم میں اس كے ہم پلہ تھا، اور خود حمص كی طرف چل پڑا، ابھی وہ حمص پہنچا ہی تھا كہ اس كے پاس اس كے نگران كا خط آ پہنچا جو ہر قل كی رائے كے موافق تھا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا ظہور ہو چكا ہے اور وہ نبی ہیں۔ ہر قل نے حمص میں اپنے ایك بڑے ہال میں روم كے سرداروں كو جمع كیا، پھر دروازے بند كرنے كا حكم دیا۔ اور سامنے آكر كہنے لگا: اے روم كے لوگو كیا تمہیں ہدایت و بھلائی سے كچھ دلچسپی ہے؟ اور یہ كہ تمہاری بادشاہت سلامت رہے ، تو اس نبی كی بیعت كر لو؟ وہ لوگ وحشی گدھوں كی طرح دروازوں كی طرف بھاگے تو انہیں ؟؟؟ جب ہر قل نے ان کی اس قدر نفرت كو دیكھا اور ان كے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو كہنے لگا: انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر کہنے لگا: میں نے تمہیں ابھی جو بات کہی تھی وہ اس لیے کہ میں تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لوں۔ یہ میں نے دیکھ لیا، انہوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہوگئے۔ یہ ہر قل کا آخری معاملہ تھا۔