حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَبِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَبِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَبِلَالٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: بِيعُوا الْبُرُّ بِالشَّعِيرِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ، قَالَ خَالِدٌ: قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: بِيعُوا الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ أَنْ يُبَاعَ الْبُرُّ بِالْبُرِّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَ الْأَصْنَافُ فَلَا بَأْسَ، أَنْ يُبَاعَ مُتَفَاضِلًا إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ ، وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ، قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالْبُرِّ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
Narrated 'Ubadah bin As-Samit:
That the Prophet (ﷺ) said: Gold for gold, kind for kind; silver for silver, kind for kind; dried-dates for dried-dates, kind for kind; wheat for wheat, kind for kind; salt for salt, kind for kind; and barley for barley, kind for kind. Whoever increases or seeks an increase, then he dealt with Riba. Sell gold for silver as you wish, hand to hand; and sell wheat for dried-dates as you wish, hand to hand; and sell barley for dried-dates as you wish, hand to hand.
[He said:] There are narrations on this topic from Abu Sa'eed, Abu Hurairah, Bilal, And Anas.
[Abu 'Eisa said:] The Hadith of 'Ubadah bin As-Samit is Hasan Sahih. Some of them reported this Hadith from Khalid, with this chain, and he said: Sell wheat for barley as you wish, hand to hand.
Some of them reported this Hadith from Khalid, from Abu Qilabah, from Ash'ath, from 'Ubadah from the Prophet (ﷺ). In that Hadith, they added that Khalid said: Abu Qilabah said: Sell wheat for barley as you wish, hand to hand.
This Hadith is acted upon according to the people of knowledge, they do not think that one may sell wheat for wheat except when it is the same kind for the same kind, and (the same for) barely in exchange for barley, kind for kind. When the items are themselves different, then there is no harm in one being more than the other if it is hand to hand. This is saying of most of the people of knowledge among the Companions of the Prophet (ﷺ) and others. It is the view of Sufyan Ath-Thawri, Ash-Shafi'i, Ahmad, and Ishaq. Ash-Shafi'i said: And the proof for that is the saying of the Prophet (ﷺ): 'Sell barley for wheat as you wish, hand to hand.'
[Abu 'Eisa said:] Some of the people of knowledge considered it disliked that wheat be sold for barely unless it was kind for kind. This is the view of Malik bin Anas, but the first view is more correct.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۳- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اور خالد نے ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اور ابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں: ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی، ۴- اس باب میں ابوسعید، ابوہریرہ، بلال اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہو جائیں تو کمی، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداً نقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ جو کو گیہوں سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۶- اہل علم کی ایک جماعت نے جو سے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔