حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ: إِذَا دُبِغَتْ فَقَدْ طَهُرَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَيُّمَا إِهَابِ مَيْتَةٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ، إِلَّا الْكَلْبَ وَالْخِنْزِيرَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّهُمْ كَرِهُوا جُلُودَ السِّبَاعِ وَإِنْ دُبِغَ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَشَدَّدُوا فِي لُبْسِهَا، وَالصَّلَاةِ فِيهَا، قَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ : جِلْدُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، هَكَذَا فَسَّرَهُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، وقَالَ إِسْحَاق: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: إِنَّمَا يُقَالُ الْإِهَابُ: لِجِلْدِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، وَمَيْمُونَةَ، وَعَائِشَةَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْهُ، عَنْ سَوْدَةَ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُصَحِّحُ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَقَالَ: احْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
Narrated Ibn 'Abbas:
That the Messenger of Allah (ﷺ) said: Any skin tanned, then it has been made pure.
This Hadith is Hasan Sahih. This is acted upon according to most of the people of knowledge, they say that when the skin of a dead animal has been tanned then it has been made pure.
[Abu 'Eisa said:] Ash-Shafi'i said: Any dead animals skin that is tanned, then it has been made pure, except for the dog and the pig. Some of the people of knowledge among the Companions of the Prophet (ﷺ) disliked skins of predators even when tanned, and this is the view of 'Abdullah bin Al-Mubarak, Ahmad and Ishaq, and they were firm about not wearing them and performing Salat in them. Ishaq bin Ibrahim said: The saying of the Prophet (ﷺ):'Any skin that is tanned, then it has been made pure' only refers to the skins of animals whose meat is eaten. This is how it was explained by An-Nasr bin Shumail.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چمڑے کو دباغت دی گئی، وہ پاک ہو گیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بواسطہ ابن عباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کو صحیح کہتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو، اور ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی روایت کیا، اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- نضر بن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: نضر بن شمیل نے کہا: «إهاب» اس جانور کے چمڑے کو کہا جاتا ہے، جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۶- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں: مردار کا چمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہو جاتا ہے“، ۷- شافعی کہتے ہیں: کتے اور سور کے علاوہ جس مردار جانور کا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہو جائے گا، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے، ۸- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے، اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان لوگوں نے اسے پہننے اور اس میں نماز ادا کرنے کو برا سمجھا ہے، ۹- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «أيما إهاب دبغ فقد طهر» کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کا چمڑا دباغت سے پاک ہو جائے گا جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۱۰- اس باب میں سلمہ بن محبق، میمونہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔