1 Results For Search Result Musnad Ahmad
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3028

۔ (۳۰۲۸) عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إِلی الْقَبْرِ، وَلَمَّا یُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ وَکَاَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِنَا الطَّیْرَ، وَفِی یَدِہِ عُوْدٌ یَنْکُتُ فِی الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((اِسْتَعْیْذُوا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔)) مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ، نَزَلَ إِلَیْہِ مَلَائِکَۃٌ مِنَ السَّمَائِ بِیْضُ الْوُجُوْہِ کَأَنَّ وَجُوْہَہُمْ الشَّمْسُ مَعَہُمْ کَفَنٌ مِنْ أَکْفَانِ الْجَنَّۃِ وَحَنُوْطٌ مِنْ حَنُوْطِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَجْلِسُوْا مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ یَجِیْئُ مَلَکُ الْمَوْتِ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ، فَیَقُوْلُ: أَیَّتُہَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ اُخْرُجِی إِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ، قَالَ: فَتَخَرُجُ تَسِیْلُ کَمَا تَسِیْلُ الْقَطْرَۃُ مِنْ فِی السِّقَائِ، فَیَأْخُذُہَا، فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوْہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَأْخُذُوْہَا فَیَجْعَلُوْہَا فِی ذَالِکَ الْکَفَنِ وَفِی ذَالِکَ الْحَنُوْطِ، وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَطْیَبِ نَفْحَۃِ مِسْکٍ، وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ الأَرْضِ، قَالَ: فَیَصْعَدُوْنَ بِہَا فَـلَا یَمُرُّوْنَ یَعْنِی بِہَا عَلٰی مَلَاٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ إِلَّا قَالُوْا: مَا ہٰذَا الرُّوْحُ الطَّیِّبُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَحْسَنِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانُوْا یُسَمُّوْنَہُ بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتّٰی یَنْتَہُوا بِہَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَسْتَفِتُحْوَن لَہُ فَیُفْتَحُ لَہُمْ، فَیُشَیِّعُہُ مِنْ کُلِّ سَمَائٍ مُقَرَّبُوْہَا إِلَی السَّمَائِ الَّتِی تَلِیْہَا حَتّٰی یُنْتَہٰی بِہِ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُکْتُبُوْا کِتَابَ عَبْدِی فِی عِلِّیِّیْنَ، وَأَعِیْدُوْہُ إِلَی الأَرْضِ فَإِنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا أُعِیْدُہُمْ وَمِنْھَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرَی، قَالَ: فَتُعَادُ رُوْحُہُ فِی جَسَدِہِ فَیَأْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَنْ رَبَّکَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: وَمَا عِلْمُکَ؟ فَیَقُوْلُ: قَرَأْتُ کِتَابَ اللّٰہِ فَآمَنْتُ بِہِ وَصَدَّقْتُ، فَیُنَادِیْ مُنَادٍ فِی السَّمَائِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَأَفْرِشُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَأَلْبِسُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوْا لَہُ بَابًا إِلَی الْجَنَّۃِ، قَالَ: فَیأْتِیْہِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الثِّیَابِ طَیِّبُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُرُّکَ، ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِی کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ لَہُ: مَنْ أَنْتَ، فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْئُ بِالْخَیْرِ، فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الصَّالِحُ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَۃَ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِی وَمَالِی، وَقَالَ: وَإِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ، إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ ِمَن السَّمَائِ مَلَائِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمْ الْمُسُوْحُ، فَیَجِْلُسْوَن مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرَ، ثُمَّ یَجِیْئُ ْمَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہِ فَیَقُوْلُ: أَیُّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ! اُخْرُجِی إِلٰی سَخَطٍ مِنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ ، قَالَ: فَتَفَرَّقَ فِی جَسَدِہِ، فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ فَیَأْخُذُہَ، فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوْہَا فِی یَدِہٖ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتّٰی یَجْعَلُوْہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوْحِ وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ رِیْحٍ وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ ِالأَرْضِ فَیَصْعَدُوْنَ بِہَا، فَـلَا یَمُرُّوْنَ بِہَا عَلٰی مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ إِلَّا قَالُوْا: مَا ہٰذَا الرُّوْحُ الْخَبِیْثُ، فَیَقُوْلُوْنَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبِحِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمّٰی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتّٰی یُنْتَھٰی بِہِ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَیُسْتَفْتَحُ لَہُ، فَـلَا یُفْتَحُ لَہُ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔} فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُکْتُبُوْا کِتَابَہُ فِی سِجِّیْنٍ فِی الْأَرْضِ السُّفْلٰی فَتُطْرَحُ رُوْحُہُ طَرْحًا، ثُمَّ قَرَئَ: {وَمَنْ یُشْرِکَ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرَّیْحُ فِی مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔} فَتُعَادُ رُوْحُہُ فِی جَسَدِہِ وَیَأْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ، لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلَانِ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی، فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ أَنْ کَذَبَ فَأَفْرِشُوْا لَہُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوْا لَہُ بَابًا إِلَی النَّارِ، فَیأْتِیْہِ مِنْ حَرِّہَا وَسُمُوْمِہَا، وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتّٰی یَخْتَلِفَ فِیْہِ أَضْلَاعُہُ، وَیأْتِیْہِ رَجُلٌ قَبِیْحُ الْوَجْہِ قَبِیْحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوْئُ کَ، ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِی کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْئُ بِالشَرِّ، فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الْخَبِیْثُ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۳۳)
سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے، جب قبر پر پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے، ایسے لگتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی،اس کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زمین کو کریدنے لگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور دو تین بار فرمایا: عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن آدمی جب اس دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے مراحل میں ہوتاہے توآسمان سے سورج کی طرح کے انتہائی سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے، وہ آ کر اس آدمی کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ کی بخشش اور رضامندی کی طرف نکل۔ اس کی روح آرام سے بہتی ہوئی یوں نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکل آتا ہے۔ جنت کے فرشتے اس روح کو موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ فوراًاسے وصول کر کے جنت والے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں، اس سے روئے زمین پر کستوری کی عمدہ ترین خوشبو جیسی مہک آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں،وہ پوچھتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک وہ اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں، ان کے کہنے پر دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر ہر آسمان کے مقرَّب فرشتے اس روح کو اوپر والے آسمان تک چھوڑ کر آتے ہیں، اس طرح اسے ساتویں آسمان تک لے جایاجاتا ہے۔ اللہ تعالٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے (نامۂ اعمال والی) کتاب عِلِّیِّیْنَ میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جائو، کیونکہ میں نے اس کو اسی سے پیدا کیا ہے، اس لیے میں اس کو اسی میں لوٹائوں گا اور پھر اس کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالوں گا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:پھر اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے:میرا رب اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوت کیا گیا تھا ، وہ کون ہے؟وہ جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں: یہ باتیں تمہیں کیسے معلوم ہوئیں؟وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی، اس کے بعد آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا ہے، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دواور اس کے لیے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اس کی طرف جنت کی ہوائیں اورخوشبوئیں آنے لگتی ہیں اور تاحدِّ نظر اس کے لیے قبر کو فراخ کر دیا جاتا ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل، خوش پوش اور عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تمہیں ہر اس چیز کی بشارت ہو جوتمہیں اچھی لگے، یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ تھا۔وہ قبر والا پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ لگتا ہے، جو خیر کے ساتھ آتا ہے۔ وہ جواباً کہتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ وہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ سکوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتاہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں، وہ آ کر اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح! اللہ کے غصے اور ناراضگی کی طرف نکل آ، وہ اس کے جسم میں بکھر جاتی ہے۔پھر فرشتہ اسے یوں کھینچتا ہے جیسے کانٹے دار سلاخ کو تر اون میں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔ جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے اس روح کو اس کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ اسے فوراً ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے گندی بدبو اس سے آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر کو جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ اس آدمی کو دنیا میں جن برے ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ ان میں سے سب سے برا اور گندا نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک کہ فرشتے اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانے کا کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔} (سورۂ اعراف:۴۰) یعنی: اوپر جانے کی خاطر ان کی روحوں کے لیے آسمان کے درواز ے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں اس وقت تک نہ جا سکیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے سے نہ گزر جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس کے (نامۂ اعمال) کی کتاب زمین کی زیریں تہ سِجِّیْنٍ میں لکھ دو۔ پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے۔اس موقعہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ یُشْرِکَ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرَّیْحُ فِی مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔}(سورۂ حج:۳۱) یعنی: اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، وہ گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اسے اڑا کر دور دراز لے گئی۔ اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے اور دو فرشتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں:تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تونہیں جانتا۔وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تو نہیں جانتا۔وہ پوچھتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا، وہ کون ہے؟وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں نہیں جانتا۔ آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، پس وہاں سے اس کی طرف جہنم کی حرار ت اور بدبو آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔ایک انتہائی بدشکل، بدصورت، گندے لباس والا بدبودار آدمی اس کے پاس آ کر کہتا ہے: تجھے ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تجھے بری لگتی ہے، یہ وہی دن ہے کہ جس کا تجھ سے وعدہ کا جاتا تھا۔وہ پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو شرّ کے ساتھ آتا ہے؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں۔ وہ قبر والا کہتا ہے: اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا۔

Icon this is notification panel